اس وقت لوگ مجبوریوں اور محرومیوں کی زد میں ہیں ۔ا یکعام پاکستانی کو کسی عمران خاں کسی نواز شریف اور کسی آصف زرداری سے کیا فرق پڑتا ہے۔ تاریخ گواہ بہے کہ وطن عزیز کی تخلیق کے ساتھ ہی محترم سیاستدانوں کو مائنس کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔2018ء میں بھی سب نے دیکھا کہ عمران خان کو لایا گیا اور نواز شریف کو مائنس کیا گیا۔ جس نظام سے عمران کو تخلیق کیا گیا تھا اب یہ دونوں ایک دوسرے کے درپے ہیں۔ جب تدبیریں اور ترکیبیں ریورس ہوتی ہیں تو یہ اپنے لئے خود ہی دروازے کھول لیتی ہیں۔ یاد رکھیں زیادتیاں کبھی خاموش نہیں رہتیں۔ انہیں جیسے ہی موقع ملتا ہے۔وہ لاٹھیاں بن کر سر پر برسنے لگتی ہیں۔ جو کچھ ہو رہا ہے سب دیکھ رہے ہیں۔ حیران بھی ہیں اور پریشان بھی۔ سب سوچ رہے ہیں اور ایک دوسرے سے دریافت کر رہے ہیں کہ یہ کیفیت کیسے ختم ہو گی۔ آرکسٹرا کی جانی مانی دھن کا ڈائریکٹر جو بھی ہو لیکن ڈرائیونگ سیٹ پر نواز شریف براجمان دکھائی دے رہے ہیں۔ وہ نئے لاڈلے کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ اگر وہ کسی نئے سفر کا آغاز کرنا چاہتے ہیں تو انہیں خود آگے بڑھنا ہو گا۔ وقت اور حالات نے انہیں بہت کچھ سکھا دیا ہو گا اور وہ بہت کچھ سمجھ بھی گئے ہوں گے۔ ان کی تقریروں اور باتوں میں دوستی اور اشتراک کار کا احساس تو ہے لیکن غیر معمولی بے تکلفی اور گرمجوشی نہیں ہے ۔محسوس ہوتا ہے رواداری کی فضا پیدا کرنے ایک دوسرے کے ساتھ میز پر بیٹھنے اور قریب آنے کے لئے بہت کچھ کرنا ہو گا۔کسی کو تو دوسرے کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانا ہو گا۔ کم سے کم ایجنڈے پر ایک دوسرے کے ساتھ ہم خیال بننا ہو گا۔ مہاتیر محمد کی مثال لیں جنہوں نے ٹھان لیا تھا کہ کسی سے امتیازی سلوک نہیں ہو گا۔سب کے ساتھ انصاف ہو گا۔اصولوں سے کبھی انحراف نہیں ہو گا تو علاقائیت لسانیت مذہبی جنونیت اور سیاسی اور معاشی مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔لوگوں کے دل جیتے جا سکتے ہیں۔ اصولوں کے سلسلے میں کوئی بھی غیر ملکی دبائو قبول نہیں کیا جائے گا۔ کسی مرض کی تشخیص کے بعد جو دوا تجویز کی جائے اس کے استعمال کے لئے کسی عذر یا بہانے سے گریز نہیں کیا جائے گا۔ ذاتی انا کے بجائے اجتماعی قومی انا کو مقدم رکھا جائے گا تو زمانہ آپ کے قدموں میں آ جائے گا۔ ہم سب کو حقیقت پسندی سے جائزہ لینا چاہیے کہ پریشانیاں ہمارے سروں پر کیوں چھائی ہوئی ہیں۔ ملک پر کیا گزر رہی ہے کسی کو احساس نہیں ۔مقبولیت کے سروے آ رہے ہیں لیکن کوئی یہ بتانے کی زحمت نہیں کر رہا کہ وہ اس ملک کو معاشی بحران سے کیسے نکالے گا۔ اس صورتحال میں تمام سرکردہ لوگوں کو شانہ بشانہ کھڑا ہونا ہو گا ،مصنوعی ذہانت کے تجربات کو روک دینا چاہیے سب کو ایک ایک قدم پیچھے ہٹ جانا چاہیے اور آگے بڑھنے سے پہلے سب کو مل کر آگے بڑھنے کی منزل کا تعین کرنا چاہیے۔ ؟ تاریخ کیا ہے؟ یہ پیچ و خم کی مسافت ہے اور تاریخ کا سبق یہ ہے کہ ہم نے اس وطن کو پروان چڑھنے کم اور برباد ہوتے زیادہ دیکھا ہے۔اگر ایسا نہ ہوتا تو ہم آج ہم آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی جانب کیوں کھسک رہے ہیں آپ دیکھیں قدرت کا ایک نظام ہے آٹھ ارب لوگوں کی دنیا میں 80کروڑ انسان بھوکے سوتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ خدا انہیں آزما رہا ہے یا قدرت نے کرہ ارض پر انسان سمیت ہر ذی روح کے لئے خوراک کا حصہ مختص نہیں کیا ہے۔ مگر پیٹ بھروں کی لاپرواہی‘ ناشکری اور ہوس انہی (80) کروڑ لوگوں کا پیٹ خالی رکھنے کا بنیادی سبب ہے۔ ہم آخر کیوں نہیں مانتے کہ ہم سے غلطیاں ہوئی ہیں ، ہم معاشی ‘ سماجی اور تعلیمی طور پر بہت پیچھے رہ گئے ہیں نوجوانوں کو سوچنا چاہیے کہ جامعہ صرف اینٹ پتھر اور گارے سے تعمیر عمارتوں کا سلسلہ نہیں بلکہ وہاں کبھی معاشرہ تعمیر ہوتا تھا وہاں اساتذہ صرف تدریس نہیں کرتے تھے بلکہ وہ اچھے لوگ بنانے کے کاریگر بھی تھے جنہوں نے اچھے لوگ بنائے اور وہ اچھے لوگ آپ ہیں ۔جو ان درسگاہوں سے فارغ التحصیل ہو کر اپنے اپنے شعبوں میں جگمگا رہے ہیں۔ یہ جامعات کیا انوکھی بستیاں تھیں جو ہمارے بچوں کو آگے بڑھنے کا راستہ دکھا رہی تھیں کیا زمانہ تھا کہ کلاس روم کے اندر اساتذہ سے قربت تھی اور کلاس روم کے باہر انسیت۔ذرا اندازہ کیجیے کہ ایسا نہیں تھا کہ شہروں میں پہلے حادثات نہیں ہو رہے تھے‘ ہو رہے تھے بلکہ بہت ہو رہے تھے۔ حادثہ یہ ہے کہ اب حادثے کو کوئی المیہ نہیں کہہ رہا۔ حادثے تو اب میڈیا اور یوٹیوبرز کے لئے ٹافیوں کا کام کرتے ہیں۔ وقت نے بہت کچھ بدل کر رکھ دیا ہے اور جو ابھی نہیں بدلا وہ بدلنے کو ہے ہم بہت تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں اور پیچھے جوکچھ تھا بھولتے جا رہے ہیں۔سمجھدار وہی لوگ ہوتے ہیں جو حال پر نظر رکھتے ہیں اور مستقبل میں جھانکتے ہیں ۔حالات کی دستک تو کئی طرف سے آ رہی ہے لیکن اس کی آواز کوئی نہیں سن رہا۔ہمارے معاشرے کے حقائق بڑے کڑوے ہیں ہماری سیاسی سماجی تاریخ جاگیردارانہ نظام کی آہنی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے۔ ہمارامعاشرہ ہے دکھوں کا سمندر ہے ، لوگ اپنے سیاسی شعور اور وجود کا احساس دلاتے ہیں یہ ووٹ دینے والوں کا ایسا ہجوم ہے جو سماجی اور معاشی اعتبار سے خود کو بے بس اور لاچار محسوس کرتا ہے۔ ووٹرز الیکشن کے دنوں میں زندگی کا احساس دلاتے ہیں۔ سیاسی نعرے لگاتے ہیں اپنی پسند کی سیاسی جماعت کو کامیاب کرانے کے لئے ہزار جتن کرتے ہیں یہ لوگ قیام پاکستان سے لے کر آج تک صرف ووٹ دیتے آئے ہیں۔ ان کی ڈیوٹی ووٹ دینے کے بعد ختم ہو جاتی ہے۔ ہر شہر ہر علاقے کا اپنا اپنا مزاج ہے ،ان کی زبان، ان کا تمدن، ان کی معاشرت، مختلف ہے لیکن اس کے باوجود وہ جن کو اپنا ووٹ دیتے ہیں،اپنا نمائندہ بنا کر اسمبلیوں میں بھیجتے ہیں یا وہ حکمران جو ازخود حکمران بن جاتے ہیں ان میں سے کسی نے بھی ایسے حالات کے جبر کا سامنا نہیں کیا ہوتا۔ اپنی اپنی سیاسی قوت کے یہ لوگ آزادی کے بعد 75سال سے زیادہ عرصے کے بعد بھی کسی صبح کا انتظار کر رہے ہیں ۔حقیقت تو یہ ہے کہ یہ شہر یہ بستیاں یہ دیہی علاقے نہ صرف سماجی اعتبار سے کھوکھلے پن کا شکار ہیں بلکہ ان میں بسنے والے مسائل کے انبار تلے دبے کراہ رہے ہیں۔ نواز شریف سے یہ کہنا ہے کہ آپ کو اگر وقت نے سکندر بنا دیا ہے تو یاد رکھیں کہ بڑی منزلوں کے مسافر چھوٹا دل نہیں رکھتے۔ عمران خان سے یہی کہنا ہے کہ دو قدم پیچھے ہٹ جائیں غلطی کا ادراک اور اسے تسلیم کرنا بڑے پن کی نشانی ہے اور یاد رکھیںاپنے سے طاقتور حریف سے خواہمخواہ الجھنا اور ٹکرانے کا نتیجہ اچھا نہیں ہوتا۔آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کی خدمت میں عرض ہے کہ جن لوگوں نے آپ پر محبتیں اور دعائیں نچھاور کی تھیں ہر قربانی پیش کی تھی آج وہ آنکھیں بہت سے سوال کر رہی ہیں۔ خلق خدا کی سسکیاں بلاول ہائوس کے دروازے پر دستک کیوں دے رہی ہیں۔