یہ 19 اکتوبر20 20کی بات ہے کراچی کے ایک بڑے ہوٹل میں صبح چھ بج کر آٹھ منٹ پر پولیس کی نفری داخل ہوتی ہے اور لفٹ کے ذریعے ہوٹل کی پندرھویںمنزل پر واقع ایک کمرے کے سامنے جا پہنچتی ہے، دروازہ بری طرح سے پیٹا جاتا ہے ، انداز ایسا کہ دروازہ اب ٹوٹا کہ اب ٹوٹا۔ دروازہ کھلتا ہے برآمد ہونے والے گھبرائے ہوئے شخص کے حلیے سے لگتا ہے کہ وہ گہری نیند سے جاگا ہے کمرے سے باہر آتے ہی پولیس اہلکا ر اس کے دائیں بائیں کھڑے ہوکر ساتھ لے چلتے ہیں، نیچے پولیس موبائل اسٹارٹ ہوتی ہے اسے بٹھا کر قافلہ چل پڑتا ہے ،اس ساری کارروائی 46منٹ لگتے ہیں جس کے بعد تھوڑی ہی دیر میںنیوز چینلز پر سابق وزیراعظم نوازشریف کے داماد صفدر اعوان کی گرفتاری کی خبر بریکنگ نیوز کے طور پر موجود ہوتی ہے ، صفدر اعوان کو مزار قائد کی بے حرمتی کے الزامات پرمزار قائد ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا تھاانہوں نے اپنی اہلیہ مریم نواز کے ہمراہ مزار قائد پر حاضری کے وقت ووٹ کو عزت دو کے نعرے لگائے تھے جس پرکراچی کے کسی وقاص نامی شہری نے بریگیڈ تھانے میں مزا قائد کی بے حرمتی پر مقدمہ درج کرادیااس مقدمے کے لئے پی ٹی آئی سندھ کے رہنماحلیم عادل شیخ بھی مدعی بننے کے لئے تھانے پہنچے تھے لیکن ایک عام شہری بازی لے گیا: یہ رتبہ ِبلند ملا جس کو مل گیا مریم نواز نے اپنے شوہر کی گرفتاری پر نیوز کانفرنس میں چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کئے جانے کا الزام لگاتے ہوئے کہا تھا کہ پولیس کمرے کا دروازہ توڑکر اندر گھسی تھی۔ اس پر پی ٹی آئی کے اس وقت کے رہنما او ر وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان نے بغلیں بجاتے ہوئے ردعمل دیا تھاکہ صرف صفدر اعوان کی گرفتاری کافی نہیں مریم نواز کو بھی گرفتار ہونا چاہئے۔وزیراعظم کے مشیر احتساب شہزاد اکبر نے کہا کہ کراچی کے کچھ لوگوں نے مزار قائد کی بے حرمتی پر مقدمہ اندراج کے لئے درخواست دی تھی،مزار قائد پر ہونے والی ہلڑ بازی قانون کی کھلی خلاف ورزی تھی، فوادچودھری کے پاس ان دنوں سائنس و ٹیکنالوجی کی وزارت تھی۔ انہوں نے اس گرفتاری کو قانون کی حکمرانی کابیانیہ قرار دینے کا ٹوئٹ کیاتھا۔ ایک خبر رساں ایجنسی کے مالک او ر تجزیہ کا ر محسن بیگ کی اسلام آباد سے گرفتاری تو گذشتہ برس فروری کی بات ہے۔ انہیں پی ٹی آئی کے پوسٹر بوائے اور اس وقت کے وفاقی وزیرمراد سعید کی شکایت پر ایف آئی اے نے گرفتار کیا تھا ۔انہوں نے ایک نیوز شو میں مراد سعید کے حوالے سے ذومعنی ریمارکس دیئے تھے جس پر قانون حرکت میں آیا انہیں گھر سے گرفتار کیا گیا۔یہ گرفتاری اس لحاظ سے عجیب تھی کہ اسلام آبادمیں ڈیرے ڈالے رکھنے والے مراد سعید نے سائبر کرائم رپورٹنگ سینٹر لاہو ر میں شکایت درج کرائی اور اس پربرقی سرعت سے اسلام آباد میں عمل ہوا ۔ ایسے درجنوں واقعات سامنے ہیں جنہیں کو ئی دلیل بنا کراگر پی ٹی آئی پارٹی کی موجودہ حالت کو مکافات عمل قرار دے تو سچی بات ہے میرے پاس رد کرنے کے لئے کچھ نہیں۔یہ سب کچھ ریکارڈ کا حصہ ہے اور تب کی بات ہے جب ریاست مدینہ بنانے کے دعویدار زعم میں پورے کرو فر کے ساتھ اقتدار میں تھے، پی ٹی آئی قائد کے گھمنڈ کا یہ عالم تھا کہ وہ پارلیمان میں اپوزیشن سے مصافحہ تک نہ کرتے تھے وہ سیاسی عروج پر تھے۔پارٹی کنٹرول میں تھی ایسے میں پندو نصائح کسے بھلی لگتی ہے۔ انہیں بھی بھلی نہ لگتی تھی وہ سمجھ رہے تھے کہ ورلڈ کپ کی طرح میدان مار چکے ہیں۔ ا ب جب الیکشن ہوں گے تو ہوں گے ایسے میں کوئی دبے لفظوں میں نصیحت بھی کرتا تو کہاجاتا کہ: مفاہمت نہ سکھا جبر ناروا سے مجھے قائد پی ٹی آئی کے اس شوق کے ہاتھوں ان کے دوستوں کی تعداد گھٹتی او ر مخالفین کی بڑھتی چلی گئی، پھراقتدار بھی ہاتھ سے نکل گیا تووہ ماہی بے آب کی طرح تڑپنے لگے۔ اس اضطرابی کیفیت میں ایک کے بعد ایک غلطی کرتے چلے گئے، انہوں نے خود کو ’’ریڈلائن ‘‘ قرار دلوایااور ریاست کی حقیقی ریڈلائن عبور کرگئے۔ اب کیفیت یہ ہے کہ لاکھوں کے جلسوں سے خطاب کرنے والے پارٹی قائد کو سوشل میڈیا پر اکتفا کرنا پڑرہا ہے۔ 16 جون 2023 کو ان کا آن لائن خطاب سنا افسوس ہوا کہ انہوں نے اب بھی نہیں سیکھا۔ وہی الزام در الزام کا سلسلہ اورکہا کہ سانحہ نو مئی باقاعدہ منصوبہ بند ی کا شاخسانہ تھا۔ مجھے گرفتار ہی اس طرح کیا گیاکہ ردعمل آئے ۔ سوال یہ ہے کہ انہوں نے آئین میں یہ ترمیم کب کی تھی کہ 5اکتوبر 1952کو پیدا ہونے والے کو کبھی کہیں کسی بھی جرم میں گرفتاری سے تاحیات استثنیٰ دیا جاتا ہے۔ ہمارے یہاں سیاسی رہنماپکڑے جاتے رہے ہیں، انہیں یہ منکشف کیسے ہوا کہ وہ پکڑے جائیں گے تو ردعمل کی صورت دھوا ں اٹھ رہا ہوگا، میانوالی میں ایم ایم عالم کا وہ طیارہ جسے دشمن گرا نہ سکا بلوائیوں کے ہاتھوں شعلوں میں لپٹا ہوگا؟ عسکری تنصیبات پر جتھے حملہ کردیں گے، انہیں اس بات کا خدشہ تھا تو پھر انہوں نے کارکنوں کو اس سے روکنے کی کوشش کیا کی ؟ کیا کبھی کارکنوں سے خطاب میں کہا کہ اگر کبھی میں گرفتارہوا تو خبردارپرتشدد احتجاج نہ ہو ؟ چلیں ہم مان لیتے ہیں کہ آپ کو دام میں لانے کے لئے یہ ایک سوچی سمجھی سازش کی گئی لیکن حضور آپ اس دام میں آئے ہی کیوں ؟ آپکی بصیرت نے یہ چال ناکام کیوں نہ بنائی؟ کارکن اور قیادت میں تو فرق ہی بصیرت کا ہوتا ہے ، آنے والے خطرات کو جان لینا خود بچناا ور ساتھ والوں کو بچاکر آگے بڑھناہی تو قیادت کی ذمہ داری ہے، آپ نے یہ ذمہ داری نہیں نبھائی اور وقت سے کچھ سیکھا بھی نہیں ،لگتا ہے کہ طے کرلیا ہے نہیں سیکھنا! ٭٭٭٭٭