حماس نے کچھ یرغمالیوں کو رہا کیا۔ پچاسی سالہ خاتون نے حماس کے ‘‘دہشت گرد’’ سے خود بڑھ کر مصافحہ کیا،جس کی تصاویر دنیا بھر میں اخبارات نے نمایاں شائع کیں۔ سکائے نیوز کے مبصرین اس مصافحہ کوخاتون کی ‘‘بہادری ‘‘بتا رہے تھے،اس کی اچھی ذہنی جسمانی حالت کو ’’خود کو سنبھالنے میں کامیاب رہنے‘‘سے تعبیر کررہے تھے۔ خاتون نے رہائی کے بعدحماس کے لیے اچھے الفاظ کہے تھے مگر ان کا کوئی تذکرہ نہ ہوا۔ یہاں تک کہ میزبان کو خود سوال کرنا پڑا۔ جوابا ًمبصرین کی حالت دیکھنے والی تھی۔وہ سی این این کامارک ہل نہیں تھے،بمشکل یہی کہہ سکے کہ آخر معاملہ انسانوں کے درمیان ہے تو انسانیت کی رمق نظر آہی جاتی ہے۔ مجھے2015میں اٹینڈ کی ہوئی یو این کانفرنس یاد آگئی۔کمیشن آن سٹیٹس آف ویمن کی بیجنگ پلس ٹونٹی کا آخری میٹنگ سیشن تھا۔ چین، جی 77کے ممالک اور ساؤتھ افریقہ کی طرف سے فلسطینی عورتوں کی حالتِ زار اور ان کی مدد کے عنوان سے قراردادلائی گئی تھی جس میں اسرائیل کو فلسطینی عورتوں کے تمام مسائل کی جڑ قرار دیا گیا تھا۔متن پڑھا جانے کے بعد اس پر اظہار خیال کی دعوت دی گئی۔ یورپی یونین نے تورائے شماری سے باہر رہنے کا فیصلہ کر کے جان چھڑائی کہ یہ قراردادکمیشن کی بجائے جنرل اسمبلی سے متعلق ہے سو وہیں پیش ہو۔ اسرائیلی مندوب تو جو بھی کہتی کم تھا، الفاظ آدابِ سفارتکاری کے منافی اور باڈی لینگوئج سرتاپا تکبر ضد اورحقارت!لبِ لباب یہ تھا کہ فلسطینی عورتوں کے حقوق کے غاصب حماس اور اس کی دہشت گردی ہے۔ بیالیس میں سے ستائیس ووٹ لے کر قرارداد منظور ہو گئی، مخالفت میں صرف اسرائیل اور امریکہ کے دو عدد ووٹ تھے۔فلسطینی مندوب نے شکریہ ادا کرتے ہوئے جامع خطاب کیا، کہ فلسطینی عورتیں کیسے اپنے حقوق پا سکتی ہیں جبکہ اسرائیل ایک قوم کی آزادی کا حق غصب کیے بیٹھا ہے، نیتن یاہو کے تازہ بیان کا حوالہ دیا کہ فلسطین نامی ریاست کا وجود ہی ناقابلِ برداشت ہے۔ایرانی مندوب نے کڑک دار تقریرکی کہ جب تک دنیا میں بدامنی، استعمار کی مسلط جنگیں اور ملکوں کی خودمختاری پر حملے نہیں ختم ہوں گے، عورتیں ظلم سے نجات کی کوئی ضمانت نہیں پا سکتیں۔عورت اور مسلح تصادم اس ایکشن پلان کے بنیادی نکات میں شامل ہے۔امریکہ اور اس کے حواریوں نے زمانہ حال میں جتنی جنگیں مسلط کی ہیں ان میں عورتوں اور بچوں کے ساتھ جو کچھ ہوا آج کی مہذب دنیا میں یہ سب دیکھ کر روح لرز جاتی ہے۔بیجنگ پلس ٹونٹی تک کے بیس برسوں میں حالات بہتر تو کیا ہوتے، سفاکیت اور درندگی کے نئے ریکارڈ قائم ہوئے۔ کمیشن CSW کا پہلا اصول یہ ہے کہ ہر فرق سے بالاہو کر دنیا بھر میں عورتوں کی بہتری کے لیے کام کیا جائے گا۔جبکہ صورتحال یہ ہے کہ عالمی طاقتوں کے سیاسی مفادات سے ہٹ کر شاید ہی اس فورم پرکوئی فیصلے ہوئے ہوں۔ اب دنیا چیخ اٹھی ہے کہ یہ جینو سائڈ ہے۔بین الاقوامی جنگی قوانین کے مطابق یہ انسانیت کے خلاف مکروہ ترین جرائم ہیں۔ یہی لوگ تھے جویورپ کے قلب میں بوسنیا میں قتل عام اور نسلی صفائی کے عمل کو افسوس سے دیکھتے رہے ،مجرموں کو پورا وقت اور سہولت مہیا کی کہ وہ اپنا شیطانی منصوبہ مکمل کرلیں،اور کسی مجرم کو سزا نہیں ہوئی۔اب امریکہ نے دنیا بھرمیں فساد کرنے کے لیے کل ہی تازہ امداد منظور کی ہے، یوکرین واسرائیل کے جنگی جرائم میں مدد کے لیے اور چین کے خلاف انڈیا سمیت علاقے کی دیگر قوتوں کو مدد دی جا رہی ہے۔قرآن نے ڈیڑھ ہزار سال پہلے ان لوگوں کی حقیقت ہمیں بتا دی تھی کہ ’’جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد برپا نہ کرو تو کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں، خبردار رہنا یہی دراصل فسادی ہیں مگر بے شعور ہیں‘‘یہ شعور کی کہانی کیا ہے؟شعور وہ سمجھ اور عقل ہے جس کے لیے باضمیر ہونا شرط ہے، ورنہ دنیا ذہین انسانوں سے بھری پڑی ہے۔ صہیونیت کاشیطانی منصوبہ یہ ہے کہ اپنے سیاسی معاشی مفادات کی خاطر کسی کو بھی دہشت گرد کہہ کرانسان کی کیٹیگری سے نکال دیں ،اب اس کے ساتھ ہرغیرانسانی سلوک روا رکھیں کوئی اعتراض نہیں کر سکتا۔پھراپنے منصوبوں کو پہلے فلم کے ذریعے متعارف کروانا ، نیکی اور بدی کا تصور اپنے مفادات کے مطابق گھڑنا ، پھرہیرو اور ولن مقرر کرنا۔ سالہاسال سے امریکی اور یورپی فلم انڈسٹری نے غیر زمینی غیر انسانی تصوراتی دشمن مخلوقوں کے خلاف ’’انسانوں‘‘ کی جنگ کو دنیا بھر میں ناظرین کے دماغوں میں بٹھا دیا ہے۔ انسانی دماغ چیزوں کو ریشنلائز کرتا ہے۔کوگنٹو ڈزونینس کی تھیوری کہتی ہے کہ انسان اپنے اردگرد ہونے والے ہر نئے واقعے کی توجیہہ حتی الامکان اس طرح کرتا ہے کہ وہ اس کے قلب و ذہن میں پہلے سے موجود تصورات کے ساتھ ہم آہنگ رہے،اوراگر یہ ہم آہنگی نہ ہوسکے تو وہ بے چینی محسوس کرتا ہے۔ اس بے چینی کو دور کرنے میں وہ سیلیکٹو پرسیپشن سے بھی کام لیتا ہے یعنی یہ عمل معروضی نہیں رہتا بلکہ اس کے تعصبات اس میں شامل ہوجاتے ہیں۔ وہ وہی چیز دیکھتا ہے جو اس بے چینی کو کم کرے اور مرضی کا نتیجہ نکالنے میں اس کی مدد کرے۔لہٰذا جب اصل فساد کا منصوبہ رو بہ عمل آتا ہے توطاقت، پراپیگنڈہ، جھوٹی اور نامکمل معلومات،اور فلمیں یہ سب مل کر ایسی کنڈیشننگ کرچکے ہوتے ہیں کہ شدید غلط اور گھناؤنے عمل کو بھی درست مان لینا ممکن ، واضح اچھائی اور انسانیت کا بھی اعتراف کرنا محال بن جاتا ہے،یہاں تک کہ براہ راست ایسا تجربہ ہو جو آنکھوں کے آگے سے پردے ہٹا دے۔ حماس کی یرغمالی عورت کو تو شدید شاک ہؤا ہوگا جب اس نے اپنے مقابل انسان دیکھے بلکہ ایسے انسان جوانسانیت کے مقام پر فائز بھی تھے ورنہ ایک عورت کے ساتھ کیا نہیں ہوسکتا تھا! باقی جن کا ضمیر مرا نہیں ان کے لیے تو سوشل میڈیا کی فوٹیج ہی کافی ہیں جو بوسنیا کے قتل عام کے وقت دنیا کو میسر نہیں تھیں۔ اسی لیے دنیا کے ہر خطے میں عوام اپنی حکومتوں کے خلاف فلسطینیوں کے حق میں نکل آئے ہیں۔