دیکھا جائے تو نواز شریف کا اگر کوئی بیانیہ تھا تو وہ اسی دن اپنی موت آپ مرگیا تھا جب عدلیہ سے ناسازی طبع کی بنیاد پہ ضمانت لینے کی خاطر خواجہ حارث نے کہا تھا کہ نواز شریف نے تو کبھی پاکستان میں علاج کروایا ہی نہیں۔یہ کسی ایسے نو دولتیے کے وکیل کا بیان توہو سکتا ہے جس کا کوئی جیک پاٹ لگا ہو اور اب اسے پاکستان میں چھینکنا اور کھانسنا بھی عزت کے منافی معلوم ہوتا ہو یا پھر کسی ایسے بزنس مین کا جس کا آدھا کاروبار یورپ میںاور آدھا ملک میں ہو اور اسی باعث اس کا ایک قدم ملک میں اور دوسرا اکثر بیرون ملک پایا جاتا ہو۔ غور کریں تو یہ ایسے ہی کسی شخص کے وکیل کا بیان ہے۔یعنی اس کا جس کا جیک پاٹ لگا ہو اور وہ جنرل جیلانی کے گملے سے جنرل ضیا کی نرسری میں بحفاظت و اہتمام منتقل کر دیا گیا ہو یا ایسے بزنس مین کا جس کا کاروبار،جائداد حتی کہ اولاد بھی بیرون ملک موجود ہو۔اس حساب سے خواجہ حارث کا عدالت میں بیان مجھے اور آپ کو منہ پہ تھپڑ تو محسوس ہوسکتا ہے لیکن ہے حقیقت ہی۔خواہ آپ خوامخواہ کلستے رہیں کہ تین بار وزیراعظم رہنے اور سب سے بڑے صوبے پہ اکثر و بیشتر واری گانٹھنے والوں نے میثاق جمہوریت کے دوسرے فریق کے ساتھ سیاسی تمتع کرکے بھی ایک ڈاکٹر ایسا پیدا نہیں کیا جو برے وقت میں کام آسکتا ۔ سنا میں نے بھی یہی ہے کہ نواز شریف شدید بیمار ہیں۔واقعتا بیمار۔پھر انہیں چھ ہفتے ادھر ادھر گھمانے کی بجائے ان کا علاج کیوں نہ کیا گیا۔یہ تو جائے عبرت ہے کہ ان کے ساتھی اور حواری ان کی بیماری کو اپنی سیاست چمکانے کے لئے استعمال کرتے رہے۔ ملک کے اعلی ترین منصب پہ فائز رہنے والے شخص کے ساتھ اس کے چاہنے والوں کا ایسا سلوک کچھ سمجھ نہیں آیا۔جب وہ وزارت عظمی کے منصب پہ فائز تھے اور حکومت میں ہر جگہ ان کے منتخب اور غیر منتخب اراکین خاندان،دوست رشتہ دار المعروف سمدھی ، بیٹی کے سمدھی،بھائی بھتیجے وغیرہ تعینات تھے تو انہیں اختیارات اور مناصب کے ان بٹواروں میں تھوڑی بہت جگہ غیروں کے لئے بھی رکھ لینی چاہئے تھی۔شاید وہ کسی کام آجاتے۔ جب عدلیہ میں سوال کیا گیا کہ نوا ز شریف کا علاج لندن میں ہی کیوں ممکن ہے تو جواب میں لندن کے مختلف ڈاکٹروں کے خطوط پیش کئے گئے۔عدلیہ نے اعتراض کیا کہ یہ علیحدہ خطوط کیوں ہیں اور ان پہ کیونکر اعتبار کیا جاسکتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ڈاکٹروں کا بورڈ بٹھایا جاتا اور اس کی سفارش عدالت میں پیش کی جاتی۔ اب یہ تو برادر خورد کا کام تھا نا کہ وہ لندن میں مارک اینڈ اسپیسنر کے اسٹور پہ شاپنگ کرتا گھوم رہا تھا یا اسٹیشن پہ بس کے انتظار میں اپنے ٹریڈ مارک یعنی زرد ماو سوٹ میں بیٹھا دھیمے دھیمے مسکرا رہا تھا یا گٹر کے ڈھکن پہ پیر رکھ کر فوٹو سیشن کروا رہا تھا لیکن برادر کلاں کے علاج واسطے طبیبوں کا بورڈ نہیں بٹھوا رہا تھا۔ یہ کام اس نے عین اس دن کیا جب برادر کلاں کی ضمانت درخواست مسترد کردی گئی۔اس کے ساتھ ہی نواز شریف کی پارٹی میں عہدوں کی بندربانٹ شروع ہوگئی۔عدالت سے سزایافتہ مجرموں کی تالیف قلب کے لئے عہدے ایجاد کئے گئے۔ کوئی ایک بھی محروم نہ رہا۔ساری وراثت ایک گھنٹے کے اندر اندر تقسیم ہوگئی۔یہ پھرتی اور تیزی ایسی برق رفتاری سے دکھائی گئی گویا وصیت پہلے سے تیار رکھی ہو۔ایسی عجلت تو بے نظیر کی شہادت کے بعد زرداری نے نہیں دکھائی۔ادھر برادر خورد جو پبلک اکاونٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ کے لئے مرنے مارنے پہ تیار ہوگئے تھے اور اس کے بعد ای سی ایل سے نام نکلتے ہی لندن میں پائے جاتے تھے،اچانک انہیں یہ عہدہ اپنے کاندھوں اور غالبا ضمیر پہ بوجھ معلوم ہونے لگا اور انہوں نے سبکدوشی کا اعلان کردیا۔ انہیں اس کام کی خاصی پریکٹس ہے۔وہ فرار ہوتے ہی پرانے رشتے ایک فون کال پہ توڑنے کے ماہر سمجھے جاتے ہیں ۔اگر وہ لندن میں ڈاکٹروں کا بورڈ بٹھا کر عدالت میں اس کی سفارش پیش کردیتے تو برادر کلاں کے واسطے صورت حال مختلف ہوسکتی تھی۔اب اگر کوئی" نظریے "کا مارا صحافی ، مخبر یا تجزیہ نگار یہ سمجھانے کی کوشش کرے کہ جیل میں بیٹھا نواز شریف، لندن میں بیٹھے نواز شریف سے زیادہ خطرناک ہے تو اس کو دور سے سلام کریں اور جتنا ہوسکے اس سے محفوظ فاصلہ رکھیں کیونکہ ایسے خوش فہم نواز شریف کو نہیں جانتے۔نیلسن مینڈیلا بننے کی ناکام کوشش کرنے والے نواز شریف کی نازک جلد اور اس سے بھی نازک دل و دماغ جیل کی سختیاں جھیلنے کے لئے بنا ہی نہیں۔ وہ تو جنرل جیلانی کے ناشتے کے مہمانوں کو کلف زدہ سفید شلوار سوٹ پہن ، انتہائی مودب ہو،کٹ گلاسوں میںانار کا جوس پیش کرنے والا سرخ و سفید نوجوان ہے۔ اس کی پوری تاریخ میں کہیں سیاسی جدوجہد اور تحریک جیسی خرافات کا کوئی گزر ہو تو خاکسار کو ضرور مطلع کیجیے گا۔ ایسے میں نواز شریف کو عدالت سے ریلیف نہ ملنا کوئی سوچی سمجھی اسکیم نہیں کہ اسے نیلسن مینڈیلا بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔انہیں جو ریلیف ملنا تھا وہ مل چکا۔ باقی ماندہ ریلیف اس پہ منحصر ہے کہ وہ کیا دے کر جیل سے باہر آسکتے ہیں۔عمران خان نے بار بارشریف خاندان کے دوستوں کے رابطے کے باوجود سختی سے کسی بھی ڈیل کے امکان کو مسترد کردیا ہے۔ یہی اعلان وہ اعلی فوجیقیادت کے سامنے بھی کرچکے اور کم سے کم میں نے کسی خاکی ٹوپی والے ماتھے پہ کوئی شکن نہیں دیکھی۔ عمران خان نے گیند نیب کے کورٹ میں ضرور پھینک دی ہے۔ یعنی کہ نواز شریف کے پاس ابھی پلی بارگین کا آپشن موجود ہے لیکن اس آپشن پہ ان کی اپنی اولادیں ہی پیر رکھ کر کھڑی ہوجائیں تو وہ کیا کریں گے۔یعنی کہ ایک ناکام نیلسن مینڈیلا کو جیل سے باہر لانے کے لئے وہ جائدادیں اورسوئس اکاونٹ کیوں بیچے او ر کھولے جائیں جن پہ ابھی آنے والی نسلیں عیش کرسکتی ہیں۔یعنی کہ اگر یہ ڈیل کھلم کھلا ہوئی جو کہ ہوئی تو ایسے ہی ہوگی ، کہ عمران خان کا نیب کی جانب اشارہ ایسے ہی نہیں ہے تو ووٹ کو عزت کیسے دی جائے گی؟یعنی کہ لے کے رشوت پھنس گیا ہے دے کے رشوت چھوٹ جا پہ عمل کرکے کیا بچی کچھی عزت بھی نہ گنوالی جائے گی۔ اگر ایسا ہوا تو یہ مشرف کے بعد دوسری بار ہوگا لیکن اس بار مشاہد حسین ہکا بکا رہ جائیں گے نہ جاوید ہاشمی کہ یہ ڈیل رات کے اندھیروں میں نہیں ہوگی۔اگر پلی بارگین ہوئی اور نواز شریف بھی لندن سدھار گئے تو باقی ماندہ مسلم لیگ کے پاس اس خاندان سے جان چھڑانے کا اچھا موقع ہوگا ۔مسلم لیگ الف سے بڑی یے تک بنائی جاسکتی ہے۔اس میں حرج ہی کیا ہے۔ایک سوال معترضہ یہ ہے کہ پلی بارگین کا قانون صرف ٹیکس چوروں اور کالا دھن سفید کرنے والوں کے لئے ہے یا قومی خزانے میں غبن کرنے والے بھی اس سے یکساں مستفید ہوسکتے ہیں؟