یونان کشتی حادثے میں پاکستانیوں کی ہلاکت پر ملک بھر میںیوم سوگ منایا گیا۔ قومی پرچم سرنگوںرہااور جاں بحق افراد کیلئے خصوصی دعا کی گئی۔ وزیر اعظم نے واقعے کی تحقیقات کیلئے چار رکنی اعلیٰ سطح کمیٹی بھی تشکیل دے دی گئی۔ نیشنل پولیس بیورو کے ڈائریکٹر جنرل احسان صادق کو کمیٹی کا چیئرمین مقرر کیاگیا ہے۔ ایک بات سب جانتے ہیں کہ جو کام نہ کرنا ہو اس کیلئے کمیٹی بنا دی جاتی ہے۔ آج تک حادثات کے سلسلے میں کتنی کمیٹیاں بنیں اور کتنے کمیشن بنے، مگر نتیجہ کوئی سامنے نہیں آیا۔ آزاد کشمیر حکومت نے تین روز سوگ کا اعلان کیا ہے حالانکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ جاں بحق ہونیوالوں کے لواحقین کی اشک اشوئی کی جائے اور ان کو تیس ، چالیس لاکھ کے حساب سے معاوضے دیئے جائیں۔ حادثے پر اقوام متحدہ نے بھی دکھ اور صدمے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حادثہ المناک ہے اور اقوام متحدہ لواحقین کے غم میں برابر کا شریک ہے حالانکہ اقوام متحدہ کا بھی فرض ہے کہ وہ غربت کے خاتمے کیلئے اقدامات کرے اور پسماندہ اور غیر ترقی یافتہ ممالک کی مدد کیلئے آگے آئے اور ترقی یافتہ ممالک کو اس بات کا پابند بنائے کہ وہ ترقی پذیر ملکوں کا خون چوسنے کی بجائے اس کی مدد کیلئے آگے آئیں۔ اس بات کی تحقیق ضروری ہے کہ انسانی سمگلنگ میں کون لوگ ملوث ہیں؟ کتنے گرو ہ کام کر رہے ہیں، کہاں کہاں کام کررہے ہیں؟ ہماری ایجنسیوں کو سیاسی مخالفین کو پکڑنے، اُن کے کوائف جمع کرنے اور ان کی چھوٹی چھوٹی کوتاہیوں کا ریکارڈ رکھنے میں تو بڑی مہارت حاصل ہے مگر جو لوگ دولت کی خاطر غیر انسانی رویوں میں ملوث ہیں، اُن کا پتہ کیوں نہیں لگایا جاتا؟ یہ حقیقت ہے کہ انسانی سمگلر صرف پاکستان میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں موجود ہیں اور ان کے سہولت کار بھی موجود ہیں۔ جن لوگوں نے پیسے لے کر ان کو بھیجا آگے وصول کرنے والے بھی حصے کے شراکت دار ہیں، سب کا پتہ لگانا چاہئے۔ تحقیقات کا دائرہ وسیع کرنا چاہئے۔ بے نصیب لوگ جس ملک میں جا رہے تھے اس حکومت سے بھی رابطہ کرنا چاہئے۔ اٹلی کی حکومت اور اقوام متحدہ کا بھی فرض ہے کہ وہ اس معاملے میں پاکستان کی مدد کریں۔ ترقی یافتہ ممالک کو اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ پیاسہ ہمیشہ کنویں کے پاس جاتا ہے۔ جہاں بھوک، غربت اور قحط سالی ہو تو لوگ وہاں سے نقل مکانی کرتے ہیں۔ مسیحی پیشوا پوپ نے کچھ عرصہ قبل ترقی یافتہ ممالک کو ہدایت کی تھی کہ وہ تارکین وطن کے ساتھ نرمی اختیار کریں اور اُن کو ویزے کی سہولتیں دے۔ اگر قانونی طو رپر ویزے کی سہولت حاصل ہو تو پھر غیر قانونی طور پر موت کے سفر پر کون جاتا ہے؟ کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے لیکن یہ حقیقت ہے کہ عمران خان کے دور میں بھی بیروزگاری میں اضافہ ہوا اور اس کا ذمہ دار موجودہ حکمران تحریک انصاف کو دیتے رہے مگر جب یہ خود برسراقتدار آئے ہیں تو مایوسی میں ہزار گنا اضافہ ہوا ہے اور تلاش معاش کے سلسلے میں نوجوان تیزی کے ساتھ باہر نکل رہے ہیں اور وہ اس سلسلے میں جائز، ناجائز راستے اختیار کر رہے ہیں۔ کشتی میں حادثے کا شکار نوجوانوں کا تعلق پنجاب اور آزاد کشمیر سے تھا حالانکہ وہاں وسیب کی نسبت روزگار کے ذرائع زیادہ ہیں۔ وسیب میں بھی دو نمبری کے واقعات ہر آئے روز پیش آتے ہیں۔ ایف آئی اے کے پاس بہت بڑا ریکارڈ موجود ہے۔ وسیب میں دو نمبر ویزے کا کاروبار چل رہا ہے۔ غربت، بیروزگاری اور تنگدستی سے عاجز آکر وسیب کے نوجوان اپنے چھوٹے موٹے وسائل مثلاََ رقبہ، دکان، مکان یا کوئی زیور وغیرہ ، فروخت کرتے ہیں اور ایجنٹوں کو دو چار ، پانچ لاکھ دیتے ہیں مگر آگے دھوکہ ہو جاتا ہے۔ اس طرح کے حالات پر قابو پانے کا صرف ایک ہی حل ہے اور وہ ہے روزگار کی فراہمی۔ حادثے کی تفصیلات پڑھتے ہیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ اُن سے پوچھئے جن کے پیارے بچھڑ گئے۔ نوجوان تو خواب لے کر گئے تھے کہ ہم برسرروزگار ہو کر اپنے والدین کی خدمت کریں گے۔ بچوں کو تعلیم دلوائیں گے۔ بہن بھائیوں کی شادیاں کریں گے۔ کیا معلوم تھا کہ وہ خود بھی واپس نہ آسکیں گے۔ تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ لیبیا سے اٹلی جاتے ہوئے یونان میں حادثے کا شکار ہونے والی کشتی میں 310 پاکستانی سوار تھے جن میں سے صرف 12 بچ سکے، یونانی حکومت نے ریسکیو آپریشن بند کر کے تمام لاپتہ افراد کو مردہ قرار دے دیا۔ کشتی پچھلے کئی دن سے سمندر کے اندر خراب کھڑی تھی اسے چھوٹی کشتی سے کھینچا گیا تووہ الٹ گئی۔ حادثے کا شکار ہونے والے پاکستانیوں میں 135 کا تعلق آزاد کشمیر کے مختلف علاقوں سے ہے، یونانی حکومت کی طرف سے ریسکیو آپریشن چار روز تک جاری رہا جس میں کسی بھی تارکین وطن کو آخری دو دونوں میں ریسکیو نہیں کیا جا سکا۔ کہا جاتا ہے کہ جاں بحق ہونے والے 79 افراد کی لاشیں مل گئی ہیں جن کی شناخت نہیں ہو سکی، ڈی این اے کے بعد ہی جاں بحق ہونے والوں کی شناخت ممکن ہوگی، مگر یہ کب ممکن ہو گی؟ جو فوت ہو گئے وہ تو دکھوں سے جان چھڑا گئے مگر جو لواحقین ہیں وہ تو جیتے جی مر گئے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کشتی سانحہ میں مجموعی طور پر 104 افراد کو ریسکیو کیا گیا۔ دوسری جانب 12 پاکستانی شہریوں نے ایف ائی اے کو اپنے ایجنٹوں کے نام بھجوا دیے ہیں جس پر ایف آئی اے نے ایجنٹوں کی گرفتاری کیلئے کوششیں شروع کر دی ہیں۔ ہر حادثے کے بعد کوششیں شروع ہوتی ہیں مگر کبھی بارآور نہیں ہوتیں۔ کچھ روز پہلے بھی لیبیا میں کشتی ڈوبنے سے 17 پاکستانی اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ ابھی ہم لیبیا والوں رو رہے تھے کہ دوسرا حادثہ دیکھنا پڑ گیا۔ اگر پہلے والے حادثے پر ایکشن لے لیا جاتا، ملزمان گرفتار ہوتے، قانون حرکت میں آتا، کڑی سزائیں ملتیں تو خوفزدہ ہو کر انسانی سمگلر آئندہ غلط کام کی جرأت نہ کرتے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس حادثے کے بعد کیا ہوتا ہے؟