دسمبر کا مہینہ ہمارے ہاں کئی اعتبار سے بہت اہم اور منفرد احساسات لئے آتا ہے۔ ہم پنجاب کے لوگ کئی ماہ کی شدید گرمی اور سانس روک دینے والی حبس سے اتنے تنگ آئے ہوتے ہیں کہ سردی کے تین ماہ خوشگوارلگتے ہیں۔ ہمارا ایک دوست کہا کرتا تھا کہ نومبر آنے کے بعد سکون کا سانس لیتا ہوں، یہ سوچ کر کہ کم از کم اگلے تین چار مہینے تو گرمی نہیں ہوگی ، اس کے بعد دیکھی جائے گی۔ دسمبر سے فروری تک کا بھیگا، خنک اور گاہے یخ موسم میرے لئے مزے دار کھانوں، کتابوں ،کتاب میلوں، شاعری،موسیقی ،رات رات بھر جاگ کر دیکھی جانے والی فلموں اور سیزنزکا نام ہے۔ اس بار دسمبر میں فٹ بال ورلڈ کپ نے رونق لگائی اور خوب لطف آیا۔ مراکش جیسی ٹیم نے توجہ کھینچی اور ان لڑکوں کے جذبے نے بڑا متاثر کیا۔ اس بار ہم نے کچھ وقت نکال کردورحاضر کے بڑے فٹ بالرز کے یاد گار میچز ملاحظہ فرمائے، ان کے یاد گار گول دیکھے اور میسی فین کلب کی رکنیت لینے کا فیصلہ کیا۔ فٹ بال کے مداحین ارجنٹائن کے مشہور فٹ بالر لیونل میسی اور پرتگال کے شہرہ آفاق فٹ بالر کرسٹیانو رونالڈو کے درمیان بٹے ہوئے ہیں۔ کھلاڑی تو اور بھی مشہور ہیں جیسے برازیل کا نیمار جونیئر، فرانس کا امباپے، کروشیا کا موڈرچ،پولینڈ کا لیونڈوسکی وغیرہ ، مگر میسی اور رونالڈو کا شمار دور حاضر کے دو عظیم فٹ بالروں میں ہوتا ہے۔ ان کے فینز البتہ اپنے ہیرو کو عظیم ترین (GOAT)قرار دیتے ہیں، ہرسطح پر بے شمار مباحث اس حوالے سے ہوچکے، دونوں فریقوں کے پاس اپنے اعداد وشمار اور بے شمار دلائل ہیں۔ ہمارا رونالڈو کے لئے بھی نرم گوشہ ہے، مگر ہم نے میسی کے پلڑے میں اپنا وزن ڈال دیا ہے۔ اب دنیا بے شک کچھ بھی کہتی رہی، ہمارے حساب سے تو میسی ہی گوٹ یعنی گریٹیسٹ آف آل پلیئر (GOAT)ہے۔ اسی اتوار کو البتہ یہ فیصلہ ہوجائے گا کہ میسی ورلڈ کپ ٹرافی جیت کر امر ہوجائے گا یا اسے یہ زخم ہمیشہ کے لئے اپنے دل میں سجا کر رکھنا پڑے گا۔ بات کتابوں کی ہو رہی تھی،رواں سال کے ابتدائی کئی ماہ ضائع ہوگئے ، کچھ ایسی مصروفیت رہی کہ کتابیں پڑھنے کے لئے زیادہ وقت نہ نکال سکا۔ پچھلے ماہ سے اس پر فوکس کیا ہے اور الحمداللہ کئی کتابیں نمٹا دی ہیں۔ عرصے بعد بعض کتابیں ایک نشست میں بھی پڑھی ہیں۔ ایک نشست میں کتاب پڑھنے کی اپنی سرشاری ہوتی ہے۔ بہت سی نئی کتابیں ان چند ہفتوں میں شائع ہوئی ہیں۔ یہ سب اس قابل ہیں کہ ان پر الگ الگ لکھا جائے ۔ آج البتہ دو ایسی کتابوں کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں جنہیں میں ایک طویل نشست میں پڑھنے پر مجبور ہوگیا، تحریر اتنی دلچسپ تھی کہ اٹھا ہی نہیں گیا۔ ان میں ایک کتاب اصغرندیم سید صاحب کے خاکوں کا مجموعہ ’’پھرتا ہے فلک برسوں‘‘ جبکہ دوسری کتاب مشہور نیوز ریڈر یا خبر خواں ماہ پارہ صفدر کی خود نوشت ’’میرا زمانہ، میری کہانی ‘‘ ہے۔ اصغر ندیم سید کو کون نہیں جانتا، پاکستان کے نامور ڈرامہ نگار ہیں، ان کے لکھے ڈراموں نے پی ٹی وی کے زمانے میں تہلکہ مچا دیا تھا۔ پیاس، خواہش جیسے مقبول ترین ڈرامے اور پھر نجی چینلز کے آغاز ہی میں این ٹی ایم سے چاندگرہن جیسا شاندار ڈرامہ ان کے زورقلم کا نتیجہ تھا۔ شاہ جی نے صرف ٹی وی ڈرامے نہیں لکھے، وہ بنیادی طور پر شاعر ہیں ،استاد ہیں، برسوں ملتان پھرضیا دور میں بطور سزا شکرگڑھ اور پھر لاہور کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پڑھاتے رہے۔ نجی یونیورسٹی میں فلم اینڈ ٹی وی کے موضوع پر بھی پڑھایا، اخبار ات میں کالم بھی لکھتے ہیں،شائد افسانے بھی لکھے ہوں۔ ادبی تقریبات کے روح رواں رہے ہیں۔ اپنی خوبصورت تحریر کی طرح بہت خوبصورت گفتگو کرتے ہیں۔ چند ماہ قبل ملتان میں برادرم خالد مسعود اور شاکر حسین شاکر نے ریشم دِلان ملتان کانفرنس کرائی تو اس کے مرکزی مقررین میں شاہ جی بھی تھے۔ اصغر ندیم سید نے بڑی عمدہ گفتگو کی اورکلاسیکل انداز میں ملتان ، ملتانی تاریخ اور کلچر پر روشنی ڈالیں، ان کی گفتگو ایسی پرمغز تھی کہ نوٹس لینے پر مجبور ہوگیا۔ ’’پھرتا ہے فلک برسوں‘‘اصغر ندیم سید کے خاکوں کا مجموعہ ہے۔ بڑے کھلے ڈلے انداز میں انہوں نے خاکے لکھے، تیکھے ، کٹیلے جملے، کہیں پر لحاظ کیا، کہیں پر پردے ہٹا کر دبنگ انداز میں سب کچھ کہہ ڈالا۔ خاکے تفصیلی ، دلچسپ اور خاصے جرات مندانہ ہیں۔ بعض اہم اور قد آور شخصیات کے حوالے سے انہوں نے چند ایسے پہلوئوں پر روشنی ڈالی جن پر عام طور سے خاکہ نویس جرات نہیں کرتے۔ ان میں حبیب جالب اور عبداللہ حسین سرفہرست ہیں۔ زاہد ڈار ہمارے ادبی منظر کا منفرد کردار ہیں۔ اصغر ندیم سید کے لکھے خاکے میں زاہد ڈار کی شخصیت کے بعض ایسے پہلو سامنے آئے جن کا عام طور سے کوئی تذکرہ نہیں کرتا۔ احمد فراز، کشور ناہید اور سنگ میل پبلی کیشنز کے نیاز احمد کے خاکے شاہ جی نے بڑی محبت سے لکھے مگر وہ بھی نہ صرف دلچسپ ہیں بلکہ ان سے شخصیت کی مختلف پرتیں سامنے آتی ہیں۔ اے حمید کا خاکہ پڑھ کر اداسی پیدا ہوئی۔ خاکہ نگاری کے حوالے سے اہم یہ ہے کہ لکھنے والا جرات سے کام لے کر وہ لکھ ڈالے جسے عام طور سے چھپا دیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں اکثر خاکے ایک طرح سے توصیفی مضامین ہوتے ہیں یا مثبت ، دل خوش کن یاداشتوں کا تذکرہ۔ چند ایک ہی ایسی کتابیں پڑھیں جو کاٹ دار تھیں۔ ان میں احمد بشیر کے خاکوں کا مجموعہ ’’جو ملے تھے راستے میں‘‘اور ڈاکٹر انوار احمد کے خاکے ’’یادگار زمانہ ہیں جو لوگ‘‘ سرفہرست ہیں۔ احمد بشیر نے بھی کمال کر دیا اور ڈاکٹر انوار احمد کے خاکے بھی ایسے سفاک ، نوکیلے قلم سے لکھے گئے کہ پڑھنے والا ششدر رہ جاتا ہے۔ انہوں نے نہ صرف اپنے دوستوں اورملتان کے معروف کرداروں بلکہ اپنے بعض قریبی عزیزوں کے بارے میں بھی لکھتے ہوئے کسی رورعایت سے کام نہیں لیا۔ کتاب کا جب پہلا ایڈیشن پڑھا تو یہی احساس ہو ا کہ ڈاکٹر صاحب کے دوست پچھتاتے ہوں گے کہ ان سے تعلق کیوں رہا۔ ڈاکٹر انوار کے خاکے پڑھ کر مگر یہ احساس ہوا کہ اگر ایسی دیانت اور سچائی سے کام نہیں لے سکتے تو خاکہ لکھنے کی زحمت ہی نہیں کرنی چاہیے۔ اصغر ندیم سید کا اپنا انداز اور اسلوب ہے، یہ وضع دار اور مجلسی آدمی ہیں، مگر انہوں نے بڑی شائستگی اور عمدگی سے عمدہ خاکے لکھے ہیں، کمال فنکاری سے خاصا کچھ صاف لکھ دیا، بہت کچھ بین السطور میں جھلک رہا ہے۔ اپنے حوالے سے بھی انہوں نے دیانت داری دکھائی اور ایک حوالے سے تو وہ محترم ایاز امیر کے’’ پیر بھائی‘‘ لگے۔ ایاز امیر بھی کچھ نہیں چھپاتے ، ہمارے شاہ جی نے بھی اس کی زحمت نہیں فرمائی ۔ سنگ میل نے یہ خوبصورت کتاب شائع کی ہے۔ دوسری کتاب مشہور براڈ کاسٹر اورنیوز ریڈر ماہ پارہ صفدر کی خودنوشت ’’میرا زمانہ، میری کہانی‘‘ہے۔ ماہ پارہ صفدر پہلے ماہ پارہ زیدی کے نام سے ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی پر کام کرتی تھیں، پھر ریڈیو کے مشہور پروڈیوسر صفدر ہمدانی سے شادی کے بعد ماہ پارہ صفدر ہوگئیں۔ بعد میں وہ بی بی سی سے وابستہ ہوگئیں اور طویل عرصہ کام کیا۔ اس کتاب میں انہوں نے اپنے نیوز ریڈر زمانے کے بعض اہم واقعات کا تذکرہ کیا ، مگر اس موضوع تک محدود رہنے کے بجائے اپنی پوری زندگی کا ایک احاطہ کرنے کی کوشش کی۔ سرگودھا میں گزرے سکول، کالج کے دن پھر لاہور میں یونیورسٹی اور پھر ریڈیو، ٹی وی کا زمانہ، ساتھ ساتھ وہ سیاسی شخصیات اور واقعات کا بھی ذکر کرتی رہی ہیں۔ بھٹو صاحب کا دور، جنرل ضیا کا زمانہ جس میں پی ٹی وی نیوز کاسٹر خواتین پر کئی پابندیاں بھی عائد ہوئیں۔ پھر برطانیہ کی کچھ یادیں، نوے کے عشرے میں انہیں بی بی سی کے لئے بلوچستان کو بھی کورکرنا پڑا، انہوں نے نواب خیر بخش مری اور نواب اکبر بگٹی سے ملاقاتوں کا دلچسپ احوال بیان کیا۔ پاکستانی معاشرے میں در آتی شدت پسندی اور تشدد کے عنصر پر بھی لکھا۔ ماہ پارہ صفدر ایک معتدل لبرل، سیکولر، فیمنسٹ خاتون ہیں، انہوں نے اپنی سوچ اور فکر کے حساب سے پاکستانی سماج اور حکومتی ادوار کا جائزہ لیا ہے۔ ان کی تحریر رواں، سلیس اورعلمی شائستگی لئے ہے۔ جہاں انہیں ضرورت محسوس ہوئی، وہاں انہوں نے معروف دانشور اور اہل قلم حضرات کی آرا بھی نقل کر ڈالیں۔ دلچسپ آپ بیتی ہے، اس کے بعض اقتباسات بی بی سی اردو ڈاٹ کام پر شائع ہوئے، اب کتاب چھپ گئی ہے تو اخبارات میں بھی خاصا کچھ چھپتا رہے گا۔، ان کی بعض آرا سے اختلاف ہوسکتا ہے،مگر خلوص اور دردمندی اس سے جھلکتی ہے۔ بک کارنر جہلم نے اپنے مخصوص انداز میں یہ حسین کتاب شائع کی ہے۔ مجھے ایک کمی کا احساس ہوا کہ اگر ماہ پارہ صفدر اپنے نیوز ریڈر زمانے پر کچھ مزید تفصیل سے لکھتیں تو کتاب زیادہ وقیع ہوجاتی۔ ان کی اصل شناخت خبر اور خبریں پڑھنے کے حوالے سے ہے، مگر اس کا تذکرہ کتاب کا بمشکل دس پندرہ فیصد ہوگا۔ ممکن ہے اس پر الگ سے کچھ لکھنے کا ارادہ ہو۔ بہرحال سال کے آخری دنوں میں ایک اچھی خودنوشت شائع ہوئی ہے جو سنجیدہ قارئین کی توجہ کی مستحق ہے۔