دسمبر کا وسط گزر چکا مگر لاہور میں کڑاکے دار روایتی سردی کا موسم ہنوز نہیں آیا ۔ فضا مسلسل ایک دھوئیں اور دھند کی ملغوبے کی لپیٹ میں رہی۔ اسی دھند آلود زہریلی سموگ کی فضا میں گیندے کے پیلے اور کیسری رنگوں کے پھولوں کے تختے لاہوریوں کو امید کا پیغام دلاتے ہیں۔ سوچتی ہوں باغوں کا شہر سموگ آلود کیسے ہوا اتنا کہ فضا میں زہر بھرا ہوا ہے۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ ایسی فضا میں بچوں کا سانس لینا ایسا ہے کہ وہ 30 سگرٹوں کا دھواں اپنے اندر اتار رہے ہیں۔ بظاہر دھند اور سموگ ایک ملتا جلتا سا منظر بناتے ہیں۔سردیوں میں اترنے والی دھند مجھے بے حد پسند ہے۔ایسی دھند جنوبی پنجاب کے علاقوں میں سرد موسم میں بہت پڑا کرتی تھی، اسے کہرا پڑنا بھی کہتے پیں۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں قیام کے دوران ہاسٹل سے کیمپس تک پھیلے ہوئے وسیع و عریض راستے اور راہداریاں جب سفید دھند کی لپیٹ میں آجاتے تو ایک طلسم کی صورت پیدا ہوتی، یوں کہ دودھیا دھند کے اس سمندر میںصرف آپ تنہا رہ جاتے۔ اس طرح کہ آپ کے ارد گرد سفید دھند کا ایک جہان آباد ہے اور اس میں جو کچھ بھی موجود ہے وہ آپ کی نظر سے اوجھل ہے۔ یہاں تک کہ ساتھ چلتی ہوئی سہیلیاں بھی دھند آلود منظر میں کہیں غائب ہو جاتیں اور اس جادوئی منظر میں ہماری باتیں اور قہقہے ایک دوسرے کے ہونے کا احساس دلاتے رہتے۔ پہلی بار جب اتنی دبیز اور وسیع و عریض دھند دیکھی تو اس روز کیمپس واپس آکر اپنی ڈائری میں حیرت بھری دھند کے طلسم پر ایک نثر پارہ لکھا تھا۔ دسمبر اور جنوری کے چند ہفتوں میں یہ دھند پنجاب کے علاقوں میں پڑتی ہے اور اسے ہی ہم کڑاکے کی سردی بھی کہتے ہیں۔ یہ جو سموگ ہے دھند سے الگ کوئی اور بلا ہے جو سرد موسم کے آغاز سے پہلے ہی لاہور کی فضا کو میلا اور کثیف کر دیتی ہے۔ابھی سردی آنے سے پہلے ہی لاہور کی فضا میلی اور کثیف ہو گئی تھی اسی سموگ کی وجہ سے لاہور کو دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں جب سر فہرست گردانا جاتا ہے تو دل کو ایک عجیب تکلیف ہوتی ہے۔ ہماری نسل نے تو ایک زندگی گزار لی ہے سوال یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کے لیے کیا چھوڑ کے جائیں گے۔ایک ایسی زہر آلود فضا جس میں سانس لینے سے آپ کے اندر کئی قسم کے قاتل زہر اترتے ہیں۔ لاہور پر جمی میلی اور کثیف تہ کو صاف کرنے کے لیے مصنوعی بارش کا ایک تجربہ کیا گیا جس سے بہت خفیف سی تبدیلی آئی۔بارش برسانے کا یہ مہنگا پراجیکٹ یو اے ای کی طرف سے تحفہ دیا گیا تھا۔اس ساری سرگرمی سے کچھ زیادہ فائدہ نہیں ہوا۔ سموگ کا دھواں صرف بھارت کے دہقانوں کا دھان کے منڈھ جلانے سے ہی نہیں بنتا بلکہ ہمارے لوگ بھی اس میں حصہ ڈالتے ہیں۔ بھارت سے آنے والے زہریلے دھوئیں سے پاکستان میں سموگ بنتی ہے پاکستان کو چاہیے کہ اس مسئلے کو بین الاقوامی فورم پر اٹھائے۔ مقامی طور کوڑا کرکٹ کو آگ لگانے سخت ممانعت ہونی چاہیے۔ کوڑے کرکٹ کو جمع کرکے آگ لگانے کی پریکٹس یہاں عام ہے۔ اس کوڑے میں پلاسٹک کے شاپنگ بیگز بھی جلتے ہیں جن کے جلنے سے فضا میں زہریلے مادے شامل ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح زہریلا دھواں چھوڑنے والی تمام گاڑیوں پر پاپندی ہونی چاہئے۔فیکٹریاں اور کارخانوں میں بھی فلٹر نصب کرنے چاہیں ۔ وہاں سے نکلنے والا دھواں زہریلی گیسیں فضا میں نہ چھوڑے۔ سموگ تو سال کے کچھ حصوں میں بنتی ہے اور احساس دلاتی ہے کہ فضا آلودہ ہے۔ اس آلودگی کو کم کرنے کے لیے ہمیں کچھ کرنا ہوگا۔ہر فرد کو سوچنا ہوگا کیونکہ یہ ہمارا اجتماعی اثاثہ ہے۔ سکول، کالج اور یونیورسٹی کے نصاب میں ماحولیات کو بطور مضمون شامل کرنا چاہیے۔ اس مضمون میں طالب علموں کو سکھایا جائے کہ ماحول کو صاف رکھنا کتنا ضروری ہے۔فطری ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کے لیے بطور فرد ہم اپنا حصہ کیسے ڈال سکتے ہیں۔ عملی باغبانی کو بھی بطور مضمون شامل کرنا چاہیے۔اب وقت آگیا ہے کہ نصاب کو نئے سرے سے ترتیب دئیے جائیں اور ایسے مضامین شامل کرنے چاہیں جن کا تعلق جدید دور کے مسائل اور ان کے حل سے ہو۔گلی محلے کی سطح پر بھی لوگوں کی تربیت کرنی چاہیے کہ وہ کوڑے کو آگ نہ لگائیں۔ اس پر سخت جرمانے ہونے چاہیں۔ ہمارے پاکستانی تو ایسے ہیں کہ سیر و تفریح کے لیے قدرت کے حسین مناظر کو بھی اپنی بدتہذیبی سے آلودہ کر کے آتے ہیں۔اس کی روک تھام کے لیے بھی سخت جرمانوں کا کوئی سسٹم بنانا چاہیے۔تیزی سے بنتی ہوئی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے کلچر نے درخت اجاڑ دیے ہیں۔ ملتان میں آم کے باغات کا بے دردی سے قتل عام کیا گیا ۔یہ بہت بڑا سانحہ ہے۔جدید دور کا انسان ترقی کی دوڑ میں جس طرح سرپٹ بھاگ رہا ہے ایسا لگتا ہے کہ اس نے فطرت کے ساتھ ایک جنگ شروع کر رکھی ہیں۔ فطرت انسان کی سب سے بڑی محافظ ہے۔ پھول ،پودے ، درخت، صاف ہوا ،پرندے یہ انسان کے حقیقی دوست ہیں۔ فطری مظاہر کی قربت اور ان سے ہم آہنگ رہنا بہت سی جسمانی، روحانی اور ذہنی بیماریوں کا علاج ہے۔ لیکن یہ آج کے انسان کو کون بتائے کہ وہ دوا کے نام پر بھی زہر پھانکتا ہے۔ قدرت نے جو نظام اس کی حفاظت اور دل جوئی کے لیے بنایا ہے وہ اس نظام کو تباہ کر کے دراصل خود اپنی تباہی کا سامان کر رہا ہے۔ میں تو سمجھتی ہوں کہ ہمیں سموگ کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ یہ سال کے چند مہینوں اور ہفتوں میں جب ہماری فضا میلی کرتی اور ہمارے منظر کو دھند آلود کرتی ہے تو کم از کم ہم یہ سوچتے تو ہیں کہ ہماری فضا کتنی زہریلی ہورہی ہے۔ یہی احساس ہمیں اس بات پر آمادہ کرتا ہے کہ ہم اپنی فضا اور ماحول کو صاف رکھنے کے لیے بھرپور کردار ادا کریں۔ یہ شعور بیدار کرنا ہوگا کہ یہ زمین، فضا اور پانی ہم سب کا وہ اجتماعی اثاثہ ہے جو ہمیں اپنی اگلی نسلوں کو منتقل کرنا ہے اور ہم کس صورت میں اپنے بچوں کو یہ اثاثہ منتقل کریں گے۔کل کو یہی بچے ہمیں کوسیں گے۔ ہوا کے رخ پر کوئی دریچہ نہیں بنایا میرے بزرگوں نے سوچ کر گھر نہیں بنایا