کشمیر اور پنجاب کی سرحد پر توپوں کی گھن گھرج کا خاتمہ، یوم پاکستان پر مودی کا پیغام تہنیت، چین اور روس کی مغربی تہذیب کو دی گئی للکار اور شنگھائی تعاون تنظیم کے پرچم تلے اس سال پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف ہونے والی مشقیں۔ لگتا ہے تاریخ کا پہیہ پھر سے گھومنا شروع ہوگیا ہے، ہواوں کا رخ بدل رہا ہے، تبدیلی کا معاملہ ایک صحافی کی چھٹی حس کا نہیں بلکہ سائنسی طریقہ تحقیق کی روشنی میں نظر آنیوالے والے ناقابل تردید سچ کا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کچھ لوگ تبدیلی کی آہٹ کو محسوس نہ کرسکیں اور اسے محض اپنا واہمہ سمجھ کر نظر انداز کردیں۔ بجائے اس پر یقین کرنے کے وہ وہ تلخ ماضی کے واقعات کو دہرانے بیٹھ جائیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ آپ کے تبدیلی کے اصرار پر بلند و بالا قہقہے لگانا شروع کردیں۔ لیکن آپ نے گھبرانا بالکل نہیں اور نہ ہی آپکو دائیں بائیں جھانکنے اور جھنجھلانے کی ضرورت ہے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ سچ یقین کا مسئلہ ہے تو آپ تبدیلی کا انکار کرنے والوں کو قنوطیت پسند لوگ قرار دے سکتے ہیں اور انہیں ان لوگوں کی فہرست میں شامل کر سکتے ہیں جنکے لیے تبدیلی از حد ضروری لیکن وہ اس کارخیر کا سہرہ صرف اور صرف اس سیاسی پارٹی کے سر باندھنا چاہتے ہیں جن سے وہ پچھلی کئی دہائیوں سے وابستہ رہے ہیں۔ تبدیلی سے مایوس لوگ اصل میں میرے ارد گرد موجود ہیں اور مجھے ان لوگوں سے روزانہ کا واسطہ پڑتا ہے۔ ہماری آپسی بحث تو کب کی ختم ہوچکی ہے لیکن طعن و تشنیع کا سلسلہ جاری ہے۔ میں ان لوگوں کے مزاج اور نفسیات سے کافی واقف ہوں۔ دلی طور پر یہ لوگ تبدیلی چاہتے ہیں بلکہ ماضی میں وہ اس کے نعرے بھیلگاتے رہے ہیں لیکن چونکہ ان کی پارٹی اس ایجنڈے سے ہٹ گئی ہے اس لیے انہوں نے بھی اپنی خواہشات کو دبا لیا ہے۔ مجھے پتہ ہے کہ یہ تب تک تبدیلی پر یقین نہیں لائیں گے جب تک اسے اپنی آنکھوں کے سامنے چلتا پھرتا نہ دیکھ لیں، ہاتھ لگا کر محسوس نہ کرلیں! پچھلے انتخابات سے پہلے جب سیاسی بحث ومباحثہ عروج پر تھا، میں انہیں ازراہ مذاق خبردار کرتا تھا کہ اب وہ تبدیلی آنے والی ہے جو کسی نے نہ پہلے سنی، دیکھی نا محسوس کی۔ جب یہ لوگ مجھ سے میری سیاسی وابستگی کا پوچھتے تھے تو میں اس معاملے کو گول کر جاتا تھا اور دل ہی دل میں ہنستا تھا کہ ان لوگوں کو دیکھو کہ ایک رجعت پسند معاشرے میں یہ کیسے انتخابی سیاست سے وابستہ سیاسی پارٹیوں سے تبدیلی کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ تبدیلی سے ہر انکار پر میں یہی سمجھتا تھا کہ دہائیوں کی مایوسی نے ان لوگوں کو قنوطیت پسند بنا دیا ہے اور اب ان کی حالت یہ ہوچکی ہے کہ تبدیلی کی خواہش یا کوشش تو درکنار یہ اس کے ذکرتک پر بدک جاتے ہیں کہ کہیں ماضی میں انقلاب لانے کے نعرے پر انتخابات لڑنے والی اپنی پارٹی کی نظروں میں یہ لوگ مشکوک نہ ہوجائیں اور ان کی دہائیوں پر پھیلی وفاداری خطرے میں نہ پڑجائے۔ پچھلے ستر سال میں لوگوں نے امید ہی تو چھوڑ دی تھی کہ پاکستان اور بھارت کبھی علاقائی امن کے بارے میں سنجیدہ ہونگے۔ تقسیم ہند کی تلخیاں اور دنیا کی سب سے بڑی ہجرت کے مصائب، تین جنگیں اور نیوکلیائی ہتھیاروں سے لیس ہمسائیوں کے درمیان چوتھی تباہ کن لڑائی کا خوف۔۔۔ایسا لگتا تھا کہ اکیسویں صدی میں ہم پتھر کے زمانے کی طرف لوٹنے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ ابھی بھی جب ہم کورونا وائرس کا شکا ر ہیں اور خطے کی ریاستیں اس سے نمٹتے بے بسی کی کامل تصویر بنی ہوئی ہیں، یہاں تک کہ بنیادی فرائض ادا کرنے سے بھی قاصر ہیں، اتنی بے بس کہ جمہوری حکومتیں بھی پہلو تک نہیں بدل سکتیں۔ وہی بالواسطہ ٹیکسوں پر انحصار، بنیادی حقوق سے روگردانی اور استعماری دور کے لگے بندھے اصولوں اور ضابطوں پر انحصار۔ پہلی دفعہ اپنے آپ کو بے بس محسوس کر رہی ہیں اور یہ بے بسی ان کے لہجے کی تھکن سے عیاں ہورہی ہے۔ ریاستوں کے لیے یہی مناسب وقت ہوتا ہے اپنے آپ کو تبدیل کرنے کا۔ ایسا نہیں ہے کہ ماضی میں پہلے کبھی جنوبی ایشیا کو امن کا گہوارہ بنانے کی بات نہیں ہوئی۔ تحریک آزادی کی قیادت، بشمول مہاتما گاندھی اور محمد علی جناح، کا یہی خیال تھا کہ انگریزوں کے یہاں سے چلے جانے کے بعد حالات معمول پر آجائیں گے۔ نہرو دور میں بھی حالات زیادہ نہیں بگڑے۔ لیکن حالات نے پلٹا کھایا ،جنگیں ہوئی اور ہم نے اپنی دشمنی کے لیے اپنی خوشحالی کو غیروں کے پاس گروی رکھ دیا۔ ہمیں یاد نہیں رہا کہ جغرافیہ، دریا ، موسم اور ہواوں کی سانجھ کیا ہوتی ہے۔ اصل میں ہمارے ہاں تبدیلی کا سوال خطے کی صورتحال سے مشروط تھا جو کہ سرد جنگ کی ذہنیت اور سازشوں کا شکار ہوچکا تھا۔ یعنی ہم مجموعی طور پر جو تھے اپنے طور پر نہیں بلکہ دوسروں کی مرضی پر تھے۔ سرد جنگ کو ختم ہوئے زمانہ بیت گیا لیکن ہماری طرف کسی کا خیال نہیں گیا۔ کورونا وائرس کا کمال کہیں کہ اس نے دنیا کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے۔ طاقت کا توازن بدلا ہے تو اس خطے کو دوبارہ پہچان ملنا شروع ہوگئی ہے۔ ہمارا کیا ہے ، صرف یو ٹرن ہی تو لینا ہے، سیاسی قیادت کب سے مشق کر رہی تھی ، عسکری قیادت بھی اب ساتھ ہے تو پیچھے کیا رہ گیا ہے!