مکرمی ! اب جب کہ ڈالر کی قیمت میں تو کمی ہو گئی، مگر مہنگائی ہے کہ زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد کی مانند ٹس سے مس یعنی کم ہونے کو تیار نہیں۔ کیا اب بھی یہ پوچھنا نہیں بنتا کہ آ خر مہنگائی کو کم کروانے کی ذمے داری کس پر ہے؟ بلا شک وشبہ حکمران طبقہ پر۔ لیکن حکمران طبقہ عوام کا درد محسوس نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ نگران حکومت نے گھریلو صارفین کے لیے گیس کی قیمتوں میں 172 فی صد اضافے کی منظوری دے دی ہے۔ طلب اور رسد کے درمیان توازن پیدا کرنا ہی اصل کام ہوتا ہے جس سے مہنگائی کے دباؤ میں کمی آتی ہے۔ شرحِ سود میں اضافے سے لوگوں کو یہ ترغیب ملتی ہے کہ وہ اپنی قابل ِ خرچ آمدنی کو خرچ کرنے کے بجائے بچتوں میں لگائیں، جب کہ دوسری طرف حکومت اپنی بہتر حکمت عملی اور اچھی معاشی پالیسیوں کی مدد سے اشیاء ضروریہ کی قیمتوں پر کنٹرول کرسکتی ہے۔ پڑوسیوں کے ساتھ تجارت کا آغاز، زرعی پیداوار میں بہتری، ذخیرہ اندوزوں کے خلاف سخت کارروائی، سیاسی استحکام، بجٹ خسارے میں کمی، لوکل انڈسٹری کو فروغ دینا اچھی حکمت عملی کہلاتی ہے۔ تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہمیں ان تمام اشیا اور خدمات کی قیمت میں اضافے کی صورت میں بھی نظر آتا ہے ۔ ایندھن کی اونچی قیمتیں پیداوار اور نقل و حمل کے اخراجات میں اضافہ کرتی ہیں جس سے خوراک مزید مہنگی ہو جاتی ہیں لیکن پٹرول کے نرخوں می کمی سے اشیائے خورو نوش کی بڑھی ہوئی قیمتیں کم نہیں کی جاتیں۔عوام کے نکتہ نظر سے پاکستان کا مالیاتی بحران کسی بھی صورت آئی ایم ایف پروگرام (قرض) پر انحصار کرنے سے حل نہیں ہو سکتا، جب تک کہ کم خرچ طرز حکمرانی کی داغ بیل نہ ڈالی جائے۔پاکستان میں مہنگائی بڑھنے کی کئی وجوہات ہیں، بڑھتے ہوئے ملکی و غیر ملکی قرضے، سرکاری اداروں کو بھاری سبسڈیز سمیت دیگر کئی غلط اقتصادی فیصلے اور گورننس کے متعدد مسائل اس کی وجہ ہیں اور جن کی بدولت ہی ہم آج ان برے اقتصادی حالات تک پہنچے ہیں۔ حکومت اور اقتصادی ماہرین کو ان سوالوں کا جواب اور حل تلاش کرنا ہو گا، ورنہ مسائل بڑھتے جائیں گے جس سے مختلف نوعیت کے مسائل اور پیچیدگیاں پیدا ہوں گی۔ ملک کیے سب مقتدر اداروں اورسیاسی قیاادت کو مل کر میثاق معیشت کے حوالے سے کچھ کرنا ہو گا ورنہ ہم اقتصادی مسائغل کی دلدل میں دھنستے چلے جائیں گے۔ ( قاضی جمشیدعالم صدیقی،لاہور)