دلچسپ بات یہ تھی کہ ایم کیو ایم کو ان کی توقعات سے بڑھ کر پذیرائی ملی اور 1988ء میں جب پہلی بار انتخابی معرکہ آرائی کا میدان سجا اور سندھ کے شہری علاقوں میں ایم کیو ایم بلا شرکت غیرے سندھ کی سیاست میں ایک فیصلہ کن کھلاڑی کے طور پر سامنے آئی۔ ظاہر ہے آبادی کے تناسب اور اسمبلی میں نشستوں کی تقسیم کے اعتبار سے ایم کیو ایم اعداد کے مطابق حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں آئی‘ لیکن یہ ضرور ہوا کہ 1988ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی نے مرکز اور صوبہ سندھ میں حکومت بنانے کیلئے ایم کیو ایم کی معاونت حاصل کی اور 1990ء کے انتخابات میں پنجاب اور مرکز میں حکومت بنانے والی مسلم لیگ (ن) کو بھی اپنی حکومت کو استحکام دینے کیلئے ایم کیو ایم کا سہارا لینا پڑا۔ 1988ء میں محترمہ بینظیر بھٹو اور 1990ء میں نواز شریف ایم کیو ایم کی معاونت حاصل کرنے ان کے ہیڈ کوارٹر تشریف لائے۔ یہ ایم کیوایم کی شہرت اور مقبولیت کا عروج تھا۔ 90ء کی دہائی میں ایم کیو ایم کیخلاف آپریشن بھی ہوا۔ یہ دہائی اس اعتبار سے کراچی کیلئے ایک طوفان لے کر آئی کہ اس میں کراچی میں امن و امان کی صورتحال بہت خراب رہی۔ اس کی وجوہات کیا تھیں‘ محرکات اور عوامل کیا تھے۔ لسانی اکائیوں کے مابین غلط فہمیوں اور رنجشوں کا طوفان کیوں امڈ پڑا تھا۔ اس کے پیچھے کون سے کردار موجود تھے۔ کڑوی کسیلی یادوں کے ساتھ یہ ایک تکلیف دہ تاریخ کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ آج ہم 2022ء میں کھڑے ہیں۔ اس وقت یہ نظر آرہا ہے کہ عمران خان کی پی ٹی آئی نے کراچی کی سیاست میں اپنے قدم جمالئے ہیں۔ 2013ء کے انتخابات میں گو کہ عمران نے بہت نمایاں کامیابی حاصل نہیں کی تھی‘ لیکن ان کے حاصل کردہ مجموعی ووٹوں کی تعداد سات لاکھ کے لگ بھگ تھی اور یہ گزشتہ چار دہائیوں سے کراچی کی سیاست پر آندھی اور طوفان کی طرح چھائی ہوئی ایم کیو ایم کیلئے خطرے کی پہلی گھنٹی تھی، اسے محسوس بھی کیا گیا۔ کچھ لوگوں کیلئے یہ بدلتی ہوئی رت حیرت انگیز تھی اور کچھ کیلئے پریشان کن بھی تھی۔ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ ایم کیو ایم نے اردو بولنے والی کمیونٹی کے مسائل کو اس طرح اجاگر نہیں کیا اور نہ ہی ان کے مسائل کو حل کرنے کیلئے کوئی ایسی کوشش کی جس سے ان کے بنیادی مسائل حل ہوسکتے۔ لوگ آج سوال کرتے ہیں کہ اس طویل سفر میں ایم کیو ایم نے کوٹہ سسٹم کو ختم کرانے کی کتنی سنجیدہ کوشش کی۔ ایک ایسا مطالبہ جو خود ایم کیو ایم کے وجود میں آنے اور اس کی آواز میں توانائی پیدا کرنے کا محرک تھا۔ پھر لوگ سوال کرتے ہیں کہ کیا اس دوران میں پروفیشنل کالجز اور یونیورسٹیوں میں طلبا اور طالبات کو میرٹ پر منصفانہ انداز میں داخلے ملے۔ وہ یہ بھی پوچھتے ہیں کہ سرکاری ملازمتوں میں اردو اسپیکنگ کو ان کی آبادی کے تناسب سے حصہ ملا۔ ان کا سوال یہ بھی ہے کہ سندھ کے شہری علاقوں میں ترقی کے حوالے سے اور لوگوں کو تمام شہری سہولتوں کے حصول کے حوالے سے ایم کیو ایم کا کردار کیسا رہا۔ لوگ پوچھ رہے ہیں کہ مشرف دور میں جبکہ ایم کیو ایم کے پاس خاصے اختیارات تھے اور جنرل مشرف نے اسی دور میں کراچی کی ترقی اور اسے جدید خطوط پر تعمیر کرنے اور سہولتوں کی فراہمی کے حوالے سے جس فراخدلی کا مظاہرہ کیا‘ کیا ایم کیو ایم نے اپنے ووٹرز کیلئے اس دور میں وہ حقوق حاصل کئے۔ سیکڑوں نہیں ہزاروں سوالات ہیں‘ جن کا تعلق سیاست‘ معاشرت‘ تہذیب و تمدن‘ سماجی ڈھانچے‘ ترقی کے مختلف زاویوں سے ہے۔ لوگ سوال کررہے ہیں۔ میں مانتا ہوں تنقید دنیا کا سب سے آسان کام ہے‘ لیکن کچھ حقائق ایسے ہوتے ہیں جو اپنے نقوش چھوڑ جاتے ہیں۔ یہ نقوش چیخ چیخ کر حقیقت احوال کی گواہی دیتے ہیں۔ عمران خان نے بنیادی طور پر کراچی میں جگہ اس لئے بنائی کہ ایم کیو ایم کا ووٹر اور سپورٹر اس سے مایوس ہورہا تھا۔ عمران ایک قد آور اور متحرک شخصیت تھے۔ وہ صحیح یا غلط‘ دلکش نعرے لگارہے تھے۔ کراچی والوں سے اپنی محبت جتلارہے تھے۔ اس پیدا ہونے والے خلا میں وہ غیر محسوس طریقے سے اپنی جگہ بناتے چلے گئے۔ نوجوان ان سے متاثر ہیں۔ بحیثیت کرکٹر اور سوشل ریفارمر ان کا ریکارڈ اچھا ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ اپنے 4 سالہ دور حکومت میں انہوں نے کراچی کے مسائل کو حل کرنا تو دور کی بات کراچی کے مسائل پر بذات خود کوئی توجہ بھی نہیں دی۔ لوگ ان سے مایوس ہونے لگے تھے‘ لیکن پھر ان کا اقتدار سے الگ ہونا اور مظلومیت کی چادر اوڑھ لینے سے وہ دوبارہ نت نئے بیانئے بنارہے ہیں‘ انہیں اپنی بات کہنی آتی ہے۔ وہ اپنی بات بار بار کہتے ہیں‘ جیسے وہ 100 فیصد سچ کہہ رہے ہوں۔ دوسری طرف ایم کیو ایم نے خود کو یکجا کرنے کے بجائے اپنی اناؤں اور ضد کے سبب خود کو کئی حصوں میں بانٹ لیا۔ فی الحال یہی نظر آتا ہے کہ کراچی کے لوگوں کے پاس زیادہ آپشن نہیں ہیں۔ ایم کیو ایم کے تمام دھڑوں کو چاہئے کہ وہ سر جوڑ کر حقائق کا ادراک کریں۔ اپنی غلطیوں کا احساس کریں‘ حالات و وقت کے مطابق قابل عمل حکمت عملی ترتیب دیں۔ دوسری صورت میں کراچی کی سیاست میں ایک تبدیلی اور بھی آسکتی ہے۔ آنے والے برسوںمیں کوئی دلکش نعرے‘ کوئی کرشماتی شخصیت‘ کوئی نئی باتیں‘ نئے وعدے‘ کسی نئے انداز سے شاید ایک بار پھر کوئی اور نہیں کہا جاسکتا کون‘ لیکن حالات جس نہج پر پہنچ گئے ہیں‘ لوگ نئی تبدیلی چاہتے ہیں۔ میرا گمان کہتا ہے کہ عمران کے دعوے اور بہلاوے بھی عمل کے بغیر زیادہ نہیں چلیں گے۔ ان کی اس شہر میں گرفت زیادہ دیر مضبوط نہیں رہے گی اور اگر ان کا وہی رویہ رہا جو گزشتہ 4 سالہ دور حکومت میں تھا تو ان کی مقبولیت اس طرح کریش ہوجائے گی جس طرح اسٹاک ایکسچینج ہوتی ہے۔کراچی کے لوگ بڑے باشعور ہیں۔ ہاں جذباتی بھی ہیں لیکن وہ تھک گئے ہیں۔ اب اپنی زندگی میں ایک خوشگوار تبدیلی کے خواہاں ہیں۔ دیکھیں یہ موقع کس کے ہاتھ آتا ہے،یہ آئے گا ضرور۔ اس کا علم کسی کو نہیں لیکن یقین سب کو ہے۔(ختم شد)