نہ جانے یہ نوید ہے کون۔ایک غریب شخص پیشے کے اعتبار سے پلمبر یا کباڑیے کا کام کرنے والا۔ جو ابتدائی معلومات کے اعتبار سے وزیر آباد کے قریب ایک مضافاتی بستی میں رہتا تھا محلے کے لوگ بتاتے ہیں کہ وہ ایک خاموش طبع بلکہ گم سم رہنے والا شخص تھا۔نفسیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ ہر وقت سوچوں میں گھرا خاموش شخص بہت گہرا ہوتا ہے۔نہ جانے زیادہ خاموش رہنے والا شخص بہت سی مختلف سوچوں کے ہجوم میں گھرا رہتا ہے۔ایسا شخص اپنی فکر کے تابع ہوتا ہے یا پھر وہ خود کو حالات کے گرداب سے نکالنے کے لئے ہاتھ پائوں مارتا دکھائی دیتا ہے۔ایمل کانسی بھی خاموش طبع شخص تھا۔ لیکن وہ بہت بڑا منصوبہ ساز ثابت ہوا۔ہاں وہ غربت کا مارا ہی تھا وہ جذباتی تھا۔جس کے سبب اس میں قوت برداشت کم تھی۔لیکن خطرہ مول لینا اس کی سرشت میں شامل تھا۔اس کا کردار دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایڈونچرسٹ تھا۔جذباتی ہونے کے باوجود وہ بڑی کمال مہارت سے بہت سے روپ اپنے چہرے پر سجا لیتا تھا۔اندرا گاندھی کو موت کی نیند سلانے والا بینت سنگھ بھی خاموش طبع شخص تھا کوئی بھی نہیں پہچان سکا کہ اس کے دل و دماغ میں کیا چل رہا ہے۔اس نے کسی کو شبہ تک نہ ہونے دیا کہ گولڈن ٹیمپل پر حملے اور خونریزی پر اس کے وجود میں کیسا الائو دہک رہا ہے۔اس نے موقع ملتے ہی اندرا گاندھی پر گولی چلا دی۔بینت سنگھ بھی اندرا گاندھی کی حفاظت پر معمور تھا۔نفسیات کے ماہر کہتے ہیں کہ بعض اوقات انسان کسی دوسرے کے لئے نفرت بھرے جذبات میں اس حد تک بہہ جاتا ہے کہ اس کا ذہن جذبات کے تابع ہو جاتا ہے وہ خود کو حق بجانب سمجھتا ہے۔پھر وہ جو کچھ کرتا ہے اس پر اسے کبھی پچھتاوا نہیں ہوتا۔وہ اپنے کئے پر ہر طرح کے نتائج پر بصد خوشی راضی رہتا ہے۔امریکی صدر جان ایف کینڈی پر ڈلاس شہر کی شاہراہ پر نشانہ تاک کر گولی چلانے والا آسوالڈ بھی خاموش طبع شخص تھا۔آسوالڈ کو اس وقوعہ کے کچھ دیگر بعد جیک روبی نامی شخص نے جان سے مار دیا۔60سال بعد بھی اس ہائی پروفائل قتل کے متعلق آج بھی آپ یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ امریکہ کے اس ہر دلعزیز صدر کو مارنے والے اس کے ذمہ دار کون لوگ تھے۔جان ایف کینڈی کے قتل کے محرکات‘ اس کی منصوبہ بندی کرنے والے اور اس خطرناک کھیل کے پیچھے کن لوگوں کا ہاتھ تھا اس پر 200سے زیادہ کتابیں اور اس راز پر سے پردہ اٹھانے کی کوشش میں ہزاروں مضامین اور پیپرز لکھے گئے لیکن اس کا حقیقی اور کھوج آج تک نہیںلگا سکا ۔ سعودی عرب کے شاہ فیصل پر گولی چلانے والا خود ان کے بھائی کا بیٹا تھا۔اسے معلوم تھا کہ وہ جس جرم کا ارتکاب کر رہا ہے اس کے بعد وہ سزائے موت سے نہیں بچ سکے گا۔ہم اپنی تاریخ پر نظر ڈالیں شہید ملت لیاقت علی خان پر گولی چلانے والا شخص سید اکبر افغانی نژاد تھا۔اس نے پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کی جان تو لے لی لیکن چند منٹوں کے اندر وہ بھی اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔بے نظیر بھٹو کا قتل بھی آج تک معمہ ہے۔بہت سے حوالوں سے بہت سی کڑیاں ملائی جاتی ہیں کہاں پر منصوبہ بندی ہوئی کون منصوبہ ساز تھے کس طرح اس پر عملدرآمد کیا گیا۔یہ بھی حیران کن بات ہے کہ بے نظیر بھٹو 18اکتوبر جب پاکستان واپس آئیں تو ان پر خود کش حملہ کیا گیا وہ اس حملے میں محفوظ رہیں جبکہ اس خودکش حملے میں 250سے زائد افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔بے نظیر کو اندازہ تھا کہ موت ان کا تعاقب کر رہی ہے انہیں بھی بتایا گیا تھا کہ وہ احتیاط برتیں جلسوں میں نہ جائیں لیکن وہ ایک جرأتمند خاتون تھیں انہوں نے گاڑی سے سر نکال کر لوگوں کو ہاتھ لہرانے کی غلطی کی اور ان کی جان کے درپے قاتلوں کو گولی چلانے کا موقع مل گیا۔ وزیر آباد میں بھی یہی ہوا۔عمران کو اندازہ تھا کہ ان پر حملہ ہو سکتا ہے لیکن انہوں نے ضروری احتیاطی تدابیر اختیار نہ کیں وہ ایکسپوز تھے جب ان پر گولی چلائی گئی وہ بچ گئے ‘ اللہ رب العزت کو ان کی سلامتی مقصود تھی۔ اب کرائم سے کریمنل تک کا سفر شروع ہو گیا ہے۔کسی کا موقف درست ہے کس کے خدشات حقیقت کے قریب ہیں اور کس کے الزامات میں کتنی سچائی ہے۔اس کے لئے تفتیش ہونی چاہیے۔ یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے۔گولی چلانے والا پولیس کی تحویل میں ہے اس کے ڈانڈے کہاں سے کہاں ملتے ہیں۔ عمران خان اور پی ٹی آئی والے جلد بازی کا مظاہرہ نہ کریں اپنی مرضی سے کسی کو جرم کے کٹہرے میں کھڑا نہ کریں ہوش و حواس سے اس معاملے کو ڈیل کریں۔ درحقیقت ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں تو فوانین تو بہت سخت بنائے گئے۔ لیکن انصاف کا عمل اتنا نرم ڈھیلا اور طویل رکھا گیا کہ مدعیوں کی تین تین نسلیں فیصلہ سننے کی آس میں قبروں تک پہنچ جاتی ہیں۔ لیکن سماعتیں‘ پیشیاں ‘گواہیاں تاریخیں‘ ثبوت‘ بیانات‘ اسٹامپ پیپر اور شہادتیں مکمل نہیں ہوتیں۔ مجرموں کو معلوم ہو گیا ہے کہ اگر ان کے پاس چند پیسے ہیں تو قانون کی آنکھوں میں دھول جھونکنا اسٹے آرڈر لینا‘ پیرول پر رہائی حاصل کرنا اور ضمانت قبل گرفتاری کا بندوبست کرنا کوئی مشکل نہیں چنانچہ اس ملک میں جرائم ہوتے رہے۔ مجرم رہا ہوتے رہے۔کبھی پکڑو اور گولی مار کا فارمولا اپنایا گیا کبھی ملٹری کورٹس بنائی گئیں۔کبھی حکمران ہاتھ میں ڈھول لے کر انصاف انصاف کے نعرے لگاتے خود دائیں بائیں حالات کو تکتے رہے۔میں تو اس نتیجے پر پہنچا ہوںکہ ہمارے نظام عدل میں عدل کے علاوہ سب کچھ ہے اور یہ بھی طے ہے کہ اگر ہم نے یہ ملک چلانا ہے تو پھر ہمیں اس نظام کو بدلنا ہو گا۔ہمیں ایک ایسا نظام بنانا ہو گا جہاں فیصلے آزاد بھی ہوں اور فوری بھی۔ یاد رکھیں قدرت کا قانون ہے جن معاشروں میں مظلوم کو انصاف نہیں ملتا انہیں زمین چاٹ جایا کرتی ہے۔