اردو دنیا کے ہر دل عزیز شاعر اور ڈرامہ نویس امجد اسلام امجد اپنے رب کے حضور پیش ہو گئے‘وہ جتنے عظیم تخلیق کار تھے‘اس سے کہیں بڑے انسان بھی تھے‘انتہائی تہذیب یافتہ اور شائستہ انسان‘جن سے مل کر زندگی سے عشق ہونے لگتا۔امجد صاحب کی ناگہانی موت نے پوری ادبی دنیا کو اداس کر دیا‘گزشتہ دو روز سے ان کے فن اور شخصیت پر مسلسل لکھا جا رہا ہے‘ادبی تقریبات اور تعزیتی ریفرینس بھی شروع ہو گئے‘ان کی شاہکار نظموں اور ڈراموں پر تبصرے ہو رہے ہیں‘امجد صاحب کے تخلیقی جہان کو مسلسل ڈسکس کیا جا رہا ہے ‘ میں سمجھتا ہوں یہ کسی بھی فنکار کے عظیم ہونے کی دلیل ہے کہ اس کے انتقال کے بعد اس کے کام کو زیادہ بہتر انداز میں زیرِ بحث لایا جائے۔ امجد صاحب سے درجنوں ملاقاتیں رہیں اور اس سے کہیں زیادہ یادیں اور باتیں ہیں جو لکھنا چاہتا ہوں مگر دل اداس ہے‘ایک خوبصورت اور شفاف انسان کا اچانک چلے جانا انتہائی تکلیف دہ ہے۔امجد صاحب کی سب سے بڑی خوبی یہی تھی کہ وہ اندر اور باہر سے صاف شفاف تھے‘وہ کسی کا برا نہیں چاہتے تھے اور نہ ہی کبھی کسی ادبی لابی یا پراپیگنڈے کا حصہ بنے‘درویش کی طرح اپنے ہجرے میں پڑے فکرِ سخن میں غرق رہتے۔وہ ادبی محافل کی جان تھے‘پاکستان اور پاکستان کے باہر کوئی بھی ادبی تقریب ان کے بغیر مکمل نہ ہوتی‘آپ کسی کانفرنس یا تقریب میں اسٹیج پر ہوتے تو یوں لگتا ہم سب اس کانفرنس اور تقریب کا حصہ ہیں‘وہ سب کو پیارے بھی تھے اور سب سے پیار بھی کرتے تھے لہٰذا کسی بھی تقریب یا مشاعرے میں ان کی موجودگی ادبی برکت کا باعث بنتی۔ امجد صاحب سے آخری ملاقات اکادمی ادبیات پاکستان کی گزشتہ عالمی کانفرنس میں ہوئی تھی‘آپ افتتاحی سیشن میں اسٹیج پر جلوہ افروز تھے‘بچوں کے ادب پر آپ کی گفتگو نے سماں باندھ دیا‘بعد از تقریب ان کے ساتھ سیلفیاں بنانے والوں کا ہجوم تھا‘شدید خواہش کے باوجود ان سے تفصیلی ملاقات نہ ہو سکی‘محض سلام پر ہی اکتفا کرنا پڑا۔گزشتہ برس ہماری دعوت پر بڑے بھائی محمد ضیغم مغیرہ کی کتاب’’خمار‘‘کی تقریبِ رونمائی میں شرکت کے لیے جم خانہ پھالیہ تشریف لائے اور پورا دن ہمارے ساتھ گزارا‘ درجنوں نظمیں سنائیں اور کتاب اور صاحبِ کتاب پر انتہائی سیر حاصل گفتگو فرمائی‘یہ ان سے آخری تفصیلی ملاقات تھی۔مجھے یاد ہے جب میں نے اس تقریب میں مدعو کرنے کے لیے رابطہ کیا تو گھر آنے کا حکم دیا‘عمران سانولؔ کے ہمراہ ان کی رہائش گاہ پر حاضری دی‘دو گھنٹے کی اس طویل ملاقات میںڈھیروں باتیں ہوئیں اورآپ کی میزبانی سے لطف اندوز ہوئے‘رخصت کرتے وقت اپنے دستخط شدہ قلم سے بھی نوازا۔ یہ سچ ہے کہ امجد صاحب نوآموز قلم کاروں سے بہت محبت کرتے تھے‘ان کو درجنوں مشوروں سے نوازتے اور انھیں آگے بڑھنے کی تلقین کرتے۔کوئی بھی دوست تقریب یا مشاعرہ کروانے کی بات کرتا تو میرے منہ سے پہلا نام امجد صاحب کا نکلتا‘میں نے انھیں جب بھی کسی تقریب میں مدعو کیا‘اگر پاکستان میں ہوتے تو انکار نہیں کرتے تھے‘منڈی بہائوالدین ’’خمار‘‘ کی تقریب میں بیماری کے باوجود شرکت کی‘اس کی وجہ ان کے دل میں دوستوں کا ادب اور احترام تھا۔امجد صاحب اخیر عمر تک مسلسل لکھتے رہے‘ان کا آخری کالم ان کی وفات سے پانچ روز قبل شائع ہوا جو مدینے کا سفرنامہ تھا۔جن دنوں عمرے پر جانے کی تیاری کر رہے تھے‘میں نے ان سے رابطہ کیا کہ ملاقات کے لیے حاضر ہونا چاہتا تھا‘آواز سے محسوس ہو رہا تھا کہ ان کی طبیعت بہتر نہیں‘کہنے لگے کہ ابھی تو عمرے پر جانے لگا ہوں‘واپسی آتے ہی ملاقات ہوگی۔ کیسے خوش قسمت انسان تھے‘وفات سے چند روز قبل ہی خدا کے دربار سے واپسی ہوئی تھی‘کہنے والے کہتے ہیں کہ کعبے کے سامنے وہیل چیئر پر گھنٹوں خاموش بیٹھے رہتے‘کچھ سوچتے رہتے اور خدا سے محو گفتگو رہتے۔آپ عمرے کے دوران بھی کالم بھیجتے رہے اور اپنے قارئین کو اس بابرکت سفر میں شامل رکھا۔آپ بڑے تخلیق کار اور انتہائی بڑے انسان تھے‘ایسے لوگ واقعی صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ہم یہ بات تو ہر شاعر کے انتقال پر کہتے ہیں کہ اس ہستی کے جانے سے ایک خلا ہو گیا جو کبھی پر نہیں ہوسکے گا‘ یہ جملہ اب ایک کلیشے بن چکا مگر سچ تو یہ ہے کہ مذکورہ جملہ صرف امجد صاحب جیسے قدآور قلم کاروں کے بارے ہی کہنا چاہیے کیوں کہ امجد صاحب کا خلا کوئی دوسرا شاعر پر نہیں کر سکے گا‘آپ تو آپ تھے جن کا جانا ایک سانحہ بن گیا ہے۔اس وقت امجد صاحب کے درجنوں شعر یاد آ رہے ہیں‘کئی شاہکار نظمیں کالم کی نذر کرنا چاہتا ہوں مگر ہمیشہ کی طرح کالم کی طوالت کا خدشہ پیش نظر ہے‘پھر بھی کچھ اشعار ملاحظہ فرمائیں اور اس خوبصورت روح کے لیے دعائے مغفرت کر یں۔جیسے وہ محبت کرنے والے انسان تھے‘خدا بھی ان سے محبت سے پیش آئے ۔آمین بڑے سکون سے ڈوبے تھے ڈوبنے والے جو ساحلوں پہ کھڑے تھے بہت پکارے بھی اس کے لہجے میں برف تھی لیکن چھو کے دیکھا تو ہاتھ جلنے لگے سوال یہ ہے کہ آپس میں ہم ملیں کیسے ہمیشہ ساتھ تو چلتے ہیں دو کنارے بھی جیسے بارش سے دھلے صحنِ گلستاں امجدؔ آنکھ جب خشک ہوئی اور بھی چہرہ چمکا جہاں ہو پیار غلط فہمیاں بھی ہوتے ہیں یہ بات بات پہ یوں دل برا نہیں کرتے