سی این این کی بیکی اینڈرسن نے عمران خان سے پوچھا کہ آپ جب ان تین افراد پر الزام لگا رہے ہیں تو کیا آپ کے پاس اس کے کوئی ثبوت ہیں جس پر پی ٹی آئی کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم نے ثبوت دینے کے بجائے الزام کا پس منظر بیان کرنا شروع کردیا۔ مسز اینڈرسن نے پوچھا آپ کو پیشگی اطلاع کیسے مل گئی؟ جس عمران خان نے کہا مجھے ادارے کے اندر سے یہ خبر ملی‘ یہ وہ لوگ ہیں جو آج کل ملک کے حالات سے خوش نہیں ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں فائرنگ خود کش حملوں اور ہلاکت خیز کارروائیوں کے درجنوں نہیں سینکڑوں واقعات رونما ہو چکے ہیں۔جب ہم جنرل مشرف اور لیفٹیننٹ جنرل احسن سلیم حیات پر کئے جانے والے حملوں پر نظر ڈالتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ خطرناک ترین حملہ آور بھی اپنا نشانہ خطا کر سکتا ہے، اگر اس میں چھوٹا سا سقم بھی رہ جائے۔ یہ 10جون 2004ء کی بات ہے، لیفٹیننٹ جنرل احسن سلیم حیات اپنے دفتر جا رہے تھے، جونہی ان کی گاڑی اس پر پہنچی جو بحیرہ عرب کے ساحل پر واقع آسودہ حال رہائشی علاقے کلفٹن کو کراچی شہر سے ملاتا ہے۔ان پر گولیوں کی بوچھاڑ ہوئی، اس حملے کے وار کی شدت آگے چلنے والی ملٹری پولیس کی جیپ نے برداشت کی لیکن وہ رکی نہیں اور چلتی رہی افسوس کہ کور کمانڈر کی گاڑی سے پچھلی جیپ میں سوار ساتوں محافظ اور دو راہگیر ہلاک ہو گئے کور کمانڈر کے ڈرائیور کے ماتھے پر گولی لگی اور وہ وہیں جاں بحق ہو گیا۔لیکن یہ قسمت کی بات ہے کہ ہلاک ہونے کے بعد ڈرائیور کے پائوں نے ایکسیلیٹر کو دبائے رکھا اور کار چلتی رہی اگر وہ رک جاتی ہے تو جنرل احسن حیات کا بچنا محال تھا، حملے کے باعث عام شہریوں کی گاڑیاں تتر بتر ہو گئی تھیں اور کور کمانڈر کی کار کا راستہ صاف تھا۔شروع میں گاڑی ادھر ادھر ڈولنے لگی لیکن ڈرائیور کی پچھلی نشست پر بیٹھے ہوئے کور کمانڈر کے اے ڈی سی نے آگے جھک کر اسٹیرنگ وہیل سنبھال لیا۔ کرنل حیات پر حملہ کرنے والوں نے بڑی ہوشیاری سے گھات لگا کر منصوبہ بنایا اور اس پر مہارت سے عمل کیا لیکن اگر پورے واقعے پر باریکی سے نظر ڈالی جائے تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ اس منصوبے کی ناکامی میں جنرل حیات کی خوش قسمتی کا ہاتھ تھا، ان کے قاتلوں نے دھماکہ خیز مواد سڑک پر رکھ دیا تھا، جیسے ہی ان کی گاڑی اس کے اوپر سے گزرتی اسے موبائل فون کا بٹن دبا کر اڑا دیا جانا تھا۔منصوبہ سازوں کا خیال تھا کہ جیسے ہی گاڑی رکے گی دونوں طرف سے اس پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی جائے گی لیکن قسمت کا اپنا ہی منصوبہ تھا، دھماکہ کرنے کے لئے موبائل فون نے کام نہیں کیا اور جنرل حیات کی کار بحفاظت دھماکہ خیز مواد کے اوپر سے گزر گئی، گھبراہٹ میں قاتلوں نے پل کے اوپر سے گاڑی کے سامنے سے ایک خالی جگہ سے گولیاں چلانی شروع کر دیں۔ایک ناکارہ موبائل اور مردہ ڈرائیور کا ایکسیلیٹر پر پائوں اور گاڑی کے اسٹیرنگ کو سنبھالنے میں اے ڈی سی کی حاضر دماغی اور پھرتی سے اگلی سیٹ پر جا کر گاڑی کو سنبھال لینے کی وجہ سے حملہ آور اپنا مقصد حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ پھر وہ واقعہ بھی یاد کریں،جب 30جولائی 2004ء کو شوکت عزیز کی کار پر اس وقت حملہ کیا جب انہوں نے ایک انتخابی جلسے سے خطاب کیا۔اس دن کافی دھکم پیل تھی خودکش حملہ آور نے گاڑی کے قریب آ کر خود کو دھماکے سے اُڑا لیا۔شوکت عزیز ایک بکتر بند گاڑی میں تھے۔جیسے ہی کار چلنی شروع ہوئی ایک خود کش بمبار لوگوں کی بھیڑ سے باہر نکلا کار کے آگے بائیں دروازے سے چند فٹ دور رُکا۔اپنا دایاں ہاتھ اوپر اٹھایا اور ایک بہت خوفناک دھماکے کے ساتھ اپنے آپ کو اڑا دیا۔ اس واقعے کو سابق وزیر اعظم نے یوں بیان کیا تھا کہ وہ پیچھے کی سیٹ پر اپنے برابر بیٹھے ہوئے شخص سے بات کرنے کے لئے دائیں جانب مڑے ہوئے تھے، خود کش حملہ آور ان کے بائیں جانب تھا، اس وجہ سے انہوں نے اسے نہیں دیکھا کیونکہ کار بکتر بند تھی، اس لئے انہیں صرف ایک ’’بھد‘‘ کی آواز سنائی دی، ہاں بم نے ڈرائیور کے دروازے کے شیشے میں ایک سوراخ کر دیا تھا، جس سے دھماکے کی گرم ہوا گاڑی کے اندر آئی شوکت عزیز نے اپنے ڈرائیور کی طرف دیکھا ،جو سیٹ پر ڈھلکا پڑا تھا، انہوں نے یہ سوچ کر کہ اسے نیندآ گی ہے، کندھے سے اسے ہلایا کہ وہ ہوش میں آ جائے، تب ان پر یہ انکشاف ہوا کہ وہ بے چارہ جاں بحق ہو چکا ہے، بم کا ایک وہ چھوٹا سا ٹکڑا جو کھڑکی کا شیشہ توڑ کر گاڑی میں آیا تھا اس نے ڈرائیور کی جان لی۔جب شوکت عزیز اپنی گاڑی سے باہر نکلے تو ایک پولیس آفیسر نے ان سے محفوظ مقام پر جانے کے لئے کہا کہ شاید ایک دوسرا قاتل انہیں گولی مارنے یا خود کش حملہ کرنے کے لئے موجود ہو، پولیس آفیسر نے صحیح کہا تھا کیونکہ وہاں ایک اور حملہ موجود تھا جو اپنا منصوبہ ترک کر کے وہاں سے فرار ہو گیا۔ بے نظیر بھٹو کے ساتھ بھی ایسا واقعہ پیش آیا تھا،18اکتوبر 2007ء کو جب وہ واپس کراچی ایئر پورٹ پہنچیں، تو ان کا فقید المثال استقبال کیا گیا۔یہ استقبالی جلوس بہت آہستہ آہستہ مزار قائد اعظم کے متصل میدان کی طرف بڑھ رہا تھا جہاں ایک جلسہ منعقد ہونا تھا۔لیکن سچ پوچھیں تو نہ جانے اس شام متعدد صحافیوں اور سیاسی اکابرین کو یہ دھڑکا ضرور تھا کہ جیسے شاید کچھ ہونے والا ہے اور پھر وہ لمحہ آ گیا دھماکہ ہوا سب کچھ تلپٹ ہو گیا،بے نظیر بھٹو اس وقت کنٹینر میں موجود تھیں، انہیں ہنگامی بنیادوں پر کنٹینر سے نکال کر بلاول ہائوس پہنچایا گیا، بے نظیر بھٹو کا دھڑکا اور خدشہ یقین میں بدل گیا تھا، موت دہشت گردی کی صورت میں ان کا تعاقب کر رہی تھی لیکن ماننا پڑے گا کہ وہ ایک نڈر‘ اولولعزم اور بڑے حوصلے والی خاتون تھیں۔پاکستان کی تاریخ ایسے ناگہانی واقعات اور غیر ذمہ دارانہ اور غفلت بھرے رویوں سے عبارت ہے، سیانے کہتے ہیں کہ اگر بھوسے میں چھپی چنگاریاں بروقت نہ بجھائی جائیں تو پورا گائوں جل کر راکھ ہو جاتا ہے۔