’ اے آئی‘روبوٹ شاعر اپنی شاعری کو بھرپور جذبات کے ساتھ پیش کرتا ہے

مصنعی ذہانت یا آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے تخلیقی استعمال سے متعلق دلچسپ فیچر

 

 

شبیر سومرو

 

I am a coal-truck

by a broken heart

I have no sound

the sound of my heart

I am not

I am a coal-truck

’’میں، کوئلہ ڈھونے والا ایک ٹرک 

دل شکستہ ہوں 

لیکن کوئی آواز نہیں 

میرے دل کے دھڑکنے کی کوئی آواز نہیں 

اوربھلا میرا وجود ہی کیا !

میں کوئلہ ڈھونے والا ایک ٹرک ‘‘۔

یہ ایک آزاد نظم ہے جو ہماری دنیا کے ایسے ’شاعر‘نے تخلیق کی ہے ،جس کا نام یا تخلص جاننے کے لیے آپ جتنے بھی تُکّے لگالیں، کامیاب نہیں ہوسکتے!۔کیوں کہ وہ میری اور آپ کی طرح گوشت پوست کا انسان نہیں اور نہ ہی وہ فی الحال انسان جتنی سوچ، جذبات، احساسات رکھتا ہے۔ مگر پھر بھی شاعری کر رہا ہے۔

یہ نظم ایک روبوٹ نے تخلیق کی ہے۔ایسے روبوٹ نے، جس کے اندر سائنس دانوں نے مصنوعی ذہانت کا تڑکا ذرا زیادہ لگا دیا ہے۔ مصنوعی ذہانت یا آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی حامل مشینوں سے کل تک چھوٹی اور کمتر سطح کی مشینیں بنانے کا کام تو لیا جاتا رہا ہے ،حتیٰ کہ ان کی پروگرامنگ ایسی بھی کی جاچکی ہے کہ وہ اس کے ذریعے مصوری کے فن پارے بناسکیں مگر انھیں اس قابل نہیں سمجھا گیا کہ وہ ہم انسانوں کی طرح خود سے سوچیں اور کوئی تخلیقی شہہ پارہ، جیسا کہ شاعری تخلیق کرسکیں۔ لیکن آج یہ ممکن ہو چکا ہے اور Artificial Inteligence کے شعبے میں اتنی ترقی ہو چکی ہے کہ اس کے ذریعے مشینیں خود شعر شاعری کرنے لگی ہیں ۔اور وہ دن دور نہیں ،جب کسی ہال میں یہ مشینی شاعر یا روبوٹس اپنا مشاعرہ کرتے نظر آئیں گے۔ نہ صرف اتنا بلکہ وہ مصرعہ طرح پہ گرہ لگاتے بھی دیکھے اور سنے جاسکیںگے!۔

آئیے، دیکھیں کہ روبوٹ شاعروں کا معاملہ کہاں تک پہنچا ہے؟

سب سے پہلے گوگل نے ایسا روبوٹ تیار کیا جو شاعری کرتا ہے ۔ اس نے 3 ہزار کے قریب رومانوی کتابیں بھی ’پڑھی‘ ہیں۔ابتدا میں اس روبوٹ شاعر کے ساتھ ایک مسئلہ یہ تھا کہ وہ درست تلفظ کے ساتھ الفاظ کی ادائیگی کرنے اور چہرے کے تاثرات دے کر بولنے کی کوشش میں ہکلاہٹ اور تتلاہٹ کا شکار ہوجاتا تھا۔اس لیے اسے ’باتونی‘بنانے کے لیے ہزاروں کتابیں پڑھنے کے لیے دی گئیں ہیں، جن میں تین سو رومانوی ناول بھی شامل تھے۔ کہتے ہیں کہ یہ کتابیں پڑھنے کے بعد وہ روبوٹ اب مصنوعی ذہانت رکھنے والی مشینوںکا ’’مزرزا نوشہ‘‘ یعنی شاعر بن گیاہے۔اس کے موجدوںنے مصنوعی ذہانت استعمال کے حامل اس روبوٹ کا نام ’اے آئی‘(Artificial Inteligence) رکھا ہے۔پہلی مرتبہ اسے لرننگ ری پریزنٹینشن کے موضوع پر ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس میں پیش کیاگیاتھا۔جہاں بتایاگیا کہ اس روبوٹ کو 11 ہزار غیر مطبوعہ کتابیں نیورل نیٹ ورک کے ریعے پڑھائی گئی ہیں۔کانفرنس میں اس روبوٹ کو ایک جملہ دے کر، اس کے ہم معنی کچھ دوسرے جملے بنانے کا کہاگیا، جن میں شاعری کے قافیے اور ردیف کی پابندی بھی رکھی گئی ۔اس پر’ اے آئی‘ تخلص والے اس مشینی شاعر نے کئی نظمیں بنا کر پیش کر دیں۔ اس کی اکثر نظمیں انتہائی اداس کیفیت کی حامل تھیں۔

 ’ اے آئی‘روبوٹ مختلف الفاظ ادا کرتے ہوئے ،ضرورت کے مطابق چہرے کے تاثرات بھی بدلتا ہے اور یوں وہ اپنی شاعری کو بھرپور جذبات کے ساتھ پیش کرتا ہے۔کہتے ہیں کہ یہ روبوٹ کسی بھی موضوع پر کتابیں پڑھنے کے بعد ،نہ صرف ان کے متن کے حوالے سے بات کر سکتا ہے بلکہ متعلقہ موضوع پر اپنی طرف سے بھی کچھ لکھ کر پیش کرنے کی ’صلاحیت‘رکھتا ہے۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ صرف رومانوی کتابیں پڑھا کر اگر روبوٹ کو شاعر بنایا جا سکتا ہے تو مستقبل میں ایسے روبوٹس کو  فکشن کی کتابیں پڑھا کر، انھیں ادیب ، ناول نگار یا نقاد بھی بنایا جاسکتاہے۔

گوگل، جس نے پہلا روبوٹ شاعر تیار کیا ، وہ اب اسٹینفورڈ اور میساچوسیٹس یونیورسٹیوں کے اشتراک سے recurrent neural network language model (RNNLM)کے پروجیکٹ کے تحت روبوٹوں کی ’زبان دانی‘ کی صلاحیتیں بڑھانے پر کام کر رہا ہے۔اس سے پہلے RNNLMمشینی ترجمے اور کیپشن تیار کرنے کے کام میں مددگار تھا۔اس پروگرام میں شاعری کی تخلیق کرنے کے لیے ماہرین کو بہت زیادہ کام کرنا پڑا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی جو شاعر ہو، اسے تو پیشگی پتا ہوتا ہے کہ وہ جو کچھ لکھنے والا ہے، وہ نظم ہے، غزل ہے یا ہائیکو ہوگا۔اس کی بحر کون سی ہے اور اس میں کس خیال کو منظوم کیا جانا ہے۔مگر ایک روبوٹ کو یہ سب پہلے سے معلوم نہیں ہوتا۔ وہ اپنی یادداشت میں موجود الفاظ، گرافکس، تصاویر اور دوسرے مواد میں سے انتخاب کر کے، کوئی نئی ’چیز‘ مرتب کرتا ہے، جس میں ردھم اور روانی موجود ہو۔ماہر اسے اس کی شاعری قرار دیتے ہیں۔روبوٹس کی شاعری(Poetry) کوGnoetry کا نام دیا گیا ہے۔یہ اصل میں ایک کمپیوٹر پروگرام ہی ہے، جس میںمتعلقہ الفاظ کا انتخاب کرکے انھیں کسی خاص ترتیب میں رکھنے کی صلاحیت ہے۔

کچھ برس پہلے کسی شاعر (یعنی اصلی ، قدرتی، انسان شاعر) کا ایک مصرعہ پڑھا تھا:

’’انساں کے لیے موت، مشینوں کی حکومت‘‘۔

مجھے یاد آتا ہے کہ جب جنرل ضیاء الحق فضائی حادثے میں ہلاک ہو گیا تھا تو امریکا میں مقیم پاکستانی شاعر جوہر میر کی ایک مختصر نظم، یہاں کے ایک روزنامے میں شایع ہوئی تھی،پہلے وہ نظم دیکھ لیں:

’’نہ آئی رُت کوئی ایسی کہ وہ رلا نہ سکا

وہ مرگیا تو میں حیرت سے مسکرا نہ سکا

عجیب حادثہ ہے مشینوں کی باضمیری بھی

جہاز اس کے گناہوں کا بوجھ اٹھا نہ سکا!‘‘

اس نظم نما قطعے میں مشینوں کی باضمیری کی ترکیب پڑھ کر ،ہم جیسے کم پڑھے لکھے نوجوان بہت محظوظ ہوئے تھے کہ شاعر نے مشینوں کے اندر بھی ضمیر ڈال دیا ہے۔ کیا عجیب بات کی ہے!۔ 

 اس وقت ہمیں کیا معلوم تھا کہ ہمیں اپنی اسی زندگی میں ایسی مشینیں دیکھنے کا موقع ملے گاجو ضمیر والی ہوں یا نہ ہوں ، مگر مشاعرہ لوٹنے والے شاعروں کی طرح، اسپرنگوں اور تاروں سے حرکت کرنے والے آ ہنی بازو ہلا ہلا کر اور ایل ای ڈی لائٹ والی اپنی ’آنکھیں‘پٹپٹا کر کہتی نظر آئیں گی:

’’حضور والا!مطلع عرض ہے!... ... ‘‘

 یہ مصنوعی ذہانت یہاں تک نہیں رکے گی بلکہ اس سے دنیا کے بڑے بڑے فکشن نگاروں کی روزی روٹی کو خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔مگر پہلے بات ہمارے اس مشینی شاعر، متخلص بہ ’’اے آئی‘‘کی۔۔۔ جس کو شاعری کی تخلیق کے لیے پہلے اس کی مطالعے کی عادت پختہ کی گئی۔ اسے تقریباً 3 ہزار رومانی ناول اور ہزاروں اشعار ’پڑھائے‘ گئے۔ اس کے ذہن میں ہزاروں الفاظ اور ان معانی فیڈ کیے گئے اور ان کے مختلف استعمالات بھی ’سمجھائے‘ گئے۔

تبھی جاکر ’اے آئی صاحب‘ اداس قسم کی نظمیں لکھنے کے لائق ہوئے ہیں۔  

 کیوٹو یونیورسٹی کے تحقیقی جرنلarXivمیں شایع ہونے والے ایک مقالے میں کہا گیا ہے کہ ’’اے آئی‘‘ کی کچھ خوفناک قسم کی بے معنی نظموں کو چھوڑ کر کوئی ماہر نقاد بھی اس کی بقیہ شاعری کے لیے یہ نہیں بتا سکتا کہ یہ کسی قادر الکلام شاعر یعنی ہم جیسے جیتے جاگتے انسان کی لکھی نظمیں ہیں یا مشین کی اختراع ہیں؟۔  

جن نظموں کو روبوٹ کی ’ خوفناک قسم کی بے معنی نظمیں‘ کہا گیا ہے ، ان میں سے ایک نظم دیکھ لیجیے :

the sun is a beautiful thing

in silence is drawn

between the trees

only the beginning of light

’’سورج کتنا خوب صورت ہے 

(جس نے )خاموشی کے ساتھ کھینچے ہیں 

درختوں کے درمیان 

صرف روشنی کے خطوط ‘‘۔

کیوٹو یونیورسٹی کے شعبہ ادب نے Amazon's Mechanical Turkکے سروے کے تحت مصنوعی ذہانت کے حامل ایسے روبوٹس کی ترتیب دی ہوئی نظمیں تقریباً 5 سو افراد کے حوالے کیں مگر انھیں یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ شاعری روبوٹس کی تخلیق ہے۔ ان لوگوں میں 30 ایسے ماہرین تھے، جن کو شاعری کے مستند نقادوں کا رتبہ حاصل تھا۔  

آپ کو حیرت ہوگی کہ اتنے سارے افراد میں سے کسی ایک نے بھی یہ نہیں کہا کہ اسے یہ نظمیں، شاعری نہیں لگتیں یا یہ عجیب ہیں!۔۔۔ حالاں کہ تحقیق کرانے والوں کی ان تیس ماہرینِ شاعری سے امیدیں وابستہ تھیں کہ کم از کم ان میں سے بیشتر اس شاعری کو پڑھتے ہی اٹھا کر ایک طرف پھینک دیں گے اور غصّے کا اظہار کرتے ہوئے،کہیں گے:

 ’یہ کیا مذاق ہے؟۔۔۔یہ کس قسم کی بیکار لفّاظی کی گئی ہے؟‘۔

مگر مجال ہے کہ کسی نے کوئی اعتراض کیا ہو۔انھیں جو مشینی نظمیں فراہم کی گئی تھیں، ان میں سے کچھ کے ساتھ موضوعاتی تصویریں بھی شامل کی گئی تھیں۔سروے کروانے والے منتظمین، محققین اور ماہرین نے اس نئی سائنسی پیش رفت کے حوالے سے خوشی کے ساتھ ساتھ خدشات کا اظہار بھی کیا ہے۔ اور یہ خدشات اگر خدانخواستہ سچ ہوگئے تو انسان ذات کے لیے بہت مہلک ثابت ہو سکتے ہیں۔

 آج کل ہم آن لائن کوئی اکائونٹ کھولتے ہیں تو آخر میں کچھ تصویریں پیش کر کے ،ان میں سے یکساںیا ایک جیسے مناظر کی تصویریں منتخب کر کے انھیں ٹک کرنے کے لیے کہا جاتا ہے۔ یہ شرط اس لیے عائد کی جاتی ہے کہ اکائونٹ بنانے والا انسان ہی ہے، کوئی روبوٹ نہیں اور اس پر لکھا بھی ہوتا ہے:

I m not Robot  

اسی لیے اب سائنسدانوں کو خطرہ ہے کہ آگے چل کر یہ ذہین مشینیں،انسانوں کے ساتھ معاملات کرنے کرتے ہوئے ، خود کو ہماری طرح کا آدمی بتا کر، دھوکہ فراڈ نہ کرنے لگیں۔ 

خیر، یہ تو آگے کی بات ہے جو آگے دیکھی جائے گی۔ آپ اسے روایتی جملہِ معترضہ قرار دے کر نظر انداز کر دیں اور آگے چلیں تا کہ آپ روبوٹس کی دوسری شاعری کا لطف لے سکیں:

’اے آئی‘ صاحب کی ایک مختصر نظم دیکھیے:

’’سورج  چمکے ، ہوا چلے 

ٹنڈ منڈ بوٹے ہیں 

اور تم رقصاں!‘‘۔

ایک اور تخیّل، جسے انگریزی ہی میں پڑھنے کا لطف لیجیے:

and now I am tired of my own

let me be the freshening blue

haunted through the sky bare and cold water

warm blue air shimmering

brightly never arrives

it seems to say

اس شاعری کو دیکھتے ہوئے ایک ماہر مائیک وینر کہتے ہیں:

’’سائنس فکشن نے جو کچھ ہمیں سکھایا ہے، وہ یہ ہے کہ ہم جس طرح مشینوں کو مصنوعی ذہانت سے ’مسلح‘ کرتے جارہے ہیں، یہ ایک دن ہمارے گلے پڑے گی اور بالآخر انسان ذات کے خاتمے کی راہ ہموار کرے گی۔مگر اس میں ابھی دیر لگے گی، تب تک ہم اصلی انسانوں کو، ان مشینوں کے شاعرانہ تخیل و تخلیقات سے حظ اٹھانا چاہیے‘‘۔

مشینی شاعروں کی ایجاد پر صرف جاپان کی اجارہ داری نہیں، آسٹریلیا کے ماہرین نے بھی ٹورنٹو یونیورسٹی کینیڈا کے ماہرین کے اشتراک سے ایسا ہی ایک شاعر روبوٹ تیار کیا ہے جو عمدہ قسم کی شاعری کرتا ہے۔یہ ’شاعر‘ گوگل کے ’اے آئی‘ سے بھی دو قدم آگے ہے۔ وہ اس طرح کہ آسٹریلیائی شاعر روبوٹ اپنی مشقِ سخن میں انگریزی شاعری کے قواعد (بحر وزن!) کی پابندی بھی کرتا ہے اور قافیے کی ’صفائی‘ کا خیال بھی رکھتا ہے۔ اس کے لیے وہ فیڈ کی گئی میموری کی مدد لیتا ہے۔اس طرح اس کی شاعری یا نظمیں اتنی ’تخلیقی ‘ بہرحال مانی جا رہی ہیں کہ ان کے حوالے سے اب تک کسی نقاد نے تنقید برائے تنقید یا تنقید برائے اصلاح نہیں کی ۔اس کے موجد ماہرین کے مطابق انھوں نے اس روبوٹ کو ’تربیت‘ کے دوران ہزاروں سانیٹس(sonnets) ’ہضم‘کرائے ۔اس کے بعد اس روبوٹ شاعر نے ان سانیٹس میں استعمال شدہ الفاظ کے معنی کو ’سمجھا‘اور ان کی ترتیب کو آگے پیچھے کر کے اپنی نئی نظمیں تیار کر لی ہیں، جنھیں اب عوام تک پہنچانے اور قبولِ عام کا درجہ دلوانے کے لیے مختلف ادبی جرائد کو بھیجا جا رہا ہے تا کہ شاملِ اشاعت کی جاسکیں۔ آسٹریلیائی نژاد اس کینیڈین روبوٹ شاعر کی ایک نظم یہاں پیش کی جا رہی ہے،پڑھیے اور سر دھنیے۔۔۔اگر پسند نہ آئے تو سر دھننے کے بجائے سر پیٹیے :

With joyous gambols gay and still array

No longer when he twas, while in his day

At first to pass in all delightful ways

Around him, charming and of all his days

شوخی اور مستی میں اٹھتے تیز قدم ،ہم رفتار قدم 

لیکن جب ہُوا دن کا آغاز، پڑ گئے مدھم 

ابتدا ہی میں گزرجاتے ہیں اپنی رنگینی کے ساتھ 

اس کے گردا گرد ، وہ سحر اور اس کے دن ساتھ ساتھ 

اس طرح کی مشینی شاعری کے نقاد کہتے ہیں کہ روبوٹ شاعری کے قواعد کی عام شاعروں سے زیادہ پابندی کرتے ہیں، اس لیے یہ بھی ممکن ہے کہ آگے چل کر ان کے مجموعہِ کلام ہمارے فیض،فرازکی کتابوں کی طرح بیسٹ سیلرز کی صورت بِکنے لگیں۔

وہ ماہرین جو اس معاملے کا روشن پہلو دیکھتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ اس کے باوجود مصنوعی ذہانت والی مشینیں، ہماری طرح شاعری اور فکشن کے شعبوں میں آگے آرہی ہیں اور یہ بھی کہ ہوسکتا ہے کہ  آگے چل کر وہ اس میدان میں ہمیں شکست دے دیں مگر پھر بھی وہ انسانیت کی معراج پر نہیں پہنچ سکتیں۔کیوں کہ وہ اپنے اندر، ہماری طرح پیار، ہمدردی، مزاح،طنز،رقّت انگیزی اور وہ تخلیقیت کا قدرتی جذبہ کہاں سے لائیں گی جو ایک انسان کو دل سوزی کے ساتھ کچھ تخلیق کرنے پر اکساتا ہے؟اور جس کے طفیل ہم ادب، مصوری، فلمزجیسے میدانوں میں اعلیٰ تخلیقیت کے جھنڈے گاڑتے رہتے ہیں۔    

روبوٹ شاعروں کی ’پیداوار‘ کے سلسلے میںمائیکروسافٹ کمپنی بھی گوگل سے پیچھے نہیں رہی۔ اس کے دو ریسرچر ز، بی لیو اور جیان لونگ فو نے مل کر ایک شاعر روبوٹ ’Xiaoice‘ تیار کیا ہے، جس نے شاعری کی پوری کتاب لکھ ڈالی ہے۔یہ کتاب کمپنی نے ہارڈ کاپی کی شکل میں شایع کروائی ہے۔اخبار سائوتھ چائنامارننگ کی رپورٹ کے مطابق chatbotنام کے اس شاعر روبوٹ کا مجموعہِ کلام The Sunlight That Lost The Glass Windowکے عنوان سے چھپا ہے، جس میں اس کی 139نظمیں شامل ہیں۔Nanjing University of Science and Technologyکے شعبہِ شاعرانہ تحقیق کے سربراہ پروفیسر زھینگ زونگانگ کہتے ہیں کہ روبوٹس  کی شاعری ، مصنوعی ذہانت کی حامل مشینوں کی جانب ہماراروّیہ تبدیل کر سکتی ہیں۔ یہ شاعری ایک نئی دنیاپیداکرسکتی ہے، جس میں ہم ذہین مشینوں کو اہلِ خانہ کی طرح سمجھنے لگیں گے اور ان کی بات یا رائے کو اہمیت دی جانے لگے گی۔روبوٹس کی شاعری ، دنیائے ادب میں تخلیق کی ایک بڑی جَست سمجھی جا رہی ہے۔اس طرح کی ایک اچھی نظم کسی حساس دل خاتون کا دل جیتنے کا باعث بن سکتی ہے اور اس طرح روبوٹ شاعروں اور  ہمارے مابین رقابت پیدا ہونے کے امکانات بھی خاصے روشن ہوسکتے ہیں۔ 

چین کی ادبی تنظیم Menglong Poetry Societyکے صدر Mu Ye کہتے ہیں کہ آپ مانیں یا نہ مانیں، ہم انسانی ترقی کی نئی منزل پر پہنچ چکے ہیں۔آج تک ہماری شاعری دوحصوں میں منقسم سمجھی جاتی تھی،جن میں سے ایک کلاسک اور دوسری جدید تھی۔مگر آنے والے دنوں میں ایک تیسری قسم روبوٹک شاعری کی بھی ہوگی ‘‘۔

مگر ایک معروف چینی شاعر Din Shaoguoاس حوالے سے خبردار کرتے ہیں:

’’ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ تیسری قسم یعنی ذہین مشینوں کی شاعری ،روایتی شاعری کی بقیہ دونوں اقسام سے زیادہ مقبول ہوجائے اور ان کا خاتمہ کردے۔مگر اگر مجھ سے پوچھا جائے تو میں ایمانداری سے کہوں گا کہ میں اب تک یہ قبول کرنے کے لیے خود کو تیار نہیں کر پایا کہ ایک کمپیوٹر جس نے ہم انسانوں کی طرح زندگی کے دکھ سکھ کا تجربہ نہیں کیا، جس کے پاس ہماری طرح دل ہے اور نہ ہی وہ دردِ دل رکھتا، محض مشین ہے، جسے میرے جیسے انسانوں نے بنایا ہے، وہ میری طرح نازک اور نفیس جذبوں کی ترجمانی کرتے ہوئے شاعری کر سکتا ہے ‘‘۔

ایک اور چینی شاعر Yu Jian مصنوعی ذہانت کے زور پر سامنے آنے والی مشینی شاعری کے سخت مخالف ہیں اور کہتے ہیں:

’’یہ شاعری۔۔۔بلکہ مجھے تو لفظوں کی اس مشینی بازیگری کو شاعری کہنے میں بھی تامل ہے، بہرحال یہ جو بھی ہے، اس کی کرخت مگر پھسلواںتال اور ترنم مجھے غصہ دلاتی ہے۔اس کے جملے، جنھیں مصرعے قرار دیا جا رہا ہے، وہ بے معنی الفاظ کی سطریں ہیں۔ان میں اندرونی جذبات، ذومعنویت کی خوبصورتی اور اظہار کی برجستگی کا شدید فقدان ہوتا ہے۔اب اگر شاعری جیسی نفیس چیز بھی مشینیں کرنے لگیں گی تو پھر یہ دنیا بے کیف نہیں ہوجائے گی؟ پھر ہم جیسے تخلیق کاروں کا کیا کام رہ جائے گا؟‘‘۔

شاعر Yu Jian  اپنی بات کی حمایت میں ایک روبوٹک نظم مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں، جو اُن کے بقول بے معنی، بے ربط الفاظ کے مجموعے کے سوا کچھ نہیں:  

Roses are red

violets are blue

and white and blue and white

and green bay Packers and movers and shakers

the same Soda stream of consciousness

and blue and white and blue and gold

white striped Bassett furniture.

The Bridport Prize awaits

یہ اعتراض اور تنقید و تنقیض اپنی جگہ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ روبوٹس کی جانب سے کئی خوبصورت نظمیں بھی سامنے آرہی ہیں، جن میں نفاست اور نازک خیالی بھی پائی جاتی ہے:

The rain is blowing through the sea

A bird in the sky

A night of light and calm

Sunlight

Now in the sky

Cool heart

The savage north wind

When I found a new world.

The spirit of Tay's teenage angst lingers on 

it would seem.

ادھر امریکا کے علاقے نیو ہیمپشائر میںDartmouth's Neukom Instituteکی جانب سے تین سال پہلے آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی حامل مشینوں کی شاعری کا مقابلہ شروع کرایا گیا ہے۔اس میں اس نظم کو پہلا انعام دیا جاتا ہے، جو عام انسانوں کی شاعری سے قریب تر لگتی ہے۔اس مقابلے کے ججوں میں پلتزر پرائز جیتنے والے معروف ادیب و شاعر شامل ہوتے ہیں۔گذشتہ سال اس مقابلے میں جو نظم پہلے نمبر پر آئی، وہ یہ ہے:

there is no one else in the world.

there is no one else in sight.

they were the only ones who mattered.

they were the only ones left.

he had to be with me, she had to be with him.

i had to do this. i wanted to kill him.

i started to cry.

i turned to him.

سچّی بات تو یہ کہ اپنی محدود عقل میں تو یہ نظم نہیں آئی۔۔۔آپ کیا کہتے ہیں؟۔ 

 

روبوٹس کی شاعری ، دنیائے ادب میں تخلیق کی ایک بڑی جَست سمجھی جا رہی ہے

ممکن ہے کہ ذہین مشینوں کی شاعری ،روایتی شاعری سے زیادہ مقبول ہوجائے اور اس کا خاتمہ کردے

’اگر شاعری بھی مشینیں کرنے لگیں گی تو پھر ہم جیسے تخلیق کاروں کا کیا کام رہ جائے گا؟‘جاپانی شاعر کا سوال

مستقبل میںروبوٹس کو فکشن کی کتابیں پڑھا کر ادیب ، ناول نگار یا نقادتیار کیے جاسکتے ہیں

 مصنوعی ذہانت والے روبوٹ ’اے آئی‘کو شاعری کی تخلیق کے لیے پہلے 3 ہزار رومانی ناول اور ہزاروں اشعار ’پڑھائے‘ گئے