فنانشنل ٹائمز کو دیئے گئے اپنے انٹرویو میں امریکہ کے خلاف اپنے بیانیے پر عمران خان اس طرح پیچھے ہٹے ہیں جیسے کوئی بائولر اپنی گیند پر حریف بیٹسمین سے چھکا کھانے کے بعد بوکھلاہٹ اور پریشانی کے عالم میں اپنے رن اپ کی طرف لوٹتے ہوئے اگلی گیند پھینکنے کی منصوبہ بندی کرتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ انہیں اپنے نت نئے بیانیے بنانے کی بابت کون مشورے دیتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکی سازش یا مداخلت اور امپورٹڈ حکومت کے بیانیہ کو عوامی مقبولیت ملی لیکن اب شاید وقت اور حالات نے جو ہر انسان کے استاد ہوتے ہیں یہ سبق دیا کہ وہ غلطی پر تھے ۔ انہیں بین الاقوامی امور اور دنیا کی واحد سپر پاور کے کردار اور اہمیت کے بابت حساسیت اور نزاکت کا علم ضرور تھا۔ انہیں یہ بھی علم تھا کہ امور خارجہ کے معاملات میں پالیسی کے تسلسل کی کیا اہمیت ہوتی ہے لیکن بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ عمران خان سمجھتے تھے کہ امریکہ مخالف نعرہ پاکستان میں خوب مقبول ہوتا ہے۔ انہوں نے اس کے اثرات و مضمرات اور اس سے مستقبل میں پیش آنے والی مشکلات و مسائل کا جائزہ لیے بغیر بائونسر گیند پر ہک شاٹ کھیلنے کا شوق پورا کیا۔ ظاہر ہے اس کا نتیجہ چھکے یا کیچ آئوٹ کی صورت میں نکلنا تھا۔ اب انہوں نے فنانشنل ٹائمز کے انٹرویو میں آقا اور غلام کی تھیوری پیش کی۔ یہ حقیقت ہے کہ ان کی آقا اور غلام کی تھیوری بھی حقائق پر اسی طرح استوار نہیں جس طرح انہوں نے امریکی سازش کا بیانیہ بنایا تھا۔ اب ذرا تاریخ اور حقائق پر نظر ڈالیں۔ سب سے پہلے اس اہم دلیل پر بات کریں کہ امریکیوں نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر ہمیشہ نہ صرف مزاحمت کی بلکہ اس پر پا کستان کو سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکیاں بھی دیں۔ 1976ء میں امریکی وزیر خارجہ ڈاکٹر ہنری کسنجر نے لاہور ایئرپورٹ کے وی آئی پی لائونج میں پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر آپ نے پاکستان کو نیوکلیئر پاور بنانے کی کوشش ترک نہ کی تو ہم آپ کو عبرت کی تصویر بنا دیں گے۔ بھٹو کے بعد غلام اسحاق خان‘ ضیاء الحق‘ بے نظیر بھٹو اور نوازشریف نے پاکستان کی جوہری صلاحیت حاصل کرنے کی کوششوں پر کوئی کمپرومائز نہیں کیا اور بالآخر 1998ء میں نوازشریف نے تمام دبائو اور ترغیبات کے باوجود ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان کو اس کلب کا ممبر بنایا۔ یہی صورت حال میزائل ٹیکنالوجی کے حصول کی رہی۔ اس میں بھی پاکستان پر دبائو تھا لیکن پاکستان نے اس میدان میں بھی قابل فخر کام کیا۔ افغانستان کے معاملے پر بھی ہم نے کئی اہم موڑ پر اسٹینڈ لیا۔ پھر سرد جنگ کے دور میں امریکیوں کا یہ دبائو تھا کہ پاکستان چین کی طرف دوستی کا ہاتھ اتنا دراز نہ کرے لیکن ہماری کسی حکومت نے کبھی کمپرومائز نہیں کیا۔ سی پیک کا منصوبے پر بھی امریکیوں کو تحفظات تھے لیکن پاکستان کی حکومتوں نے امریکہ کے ساتھ ساتھ چین اور سعودی عرب کے س اتھ اپنے خوشگوار اور دوستانہ تعلقات برقرار رکھے اور تمام حکمران یہ سمجھتے رہے کہ چین ہمارا سب سے زیادہ قابل بھروسہ دوست ہے۔ سعودی عرب ہمیشہ ہر آزمائش میں پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ گزشتہ صدی میں حکومتوں اوران کے زیرک اور سوچ بوجھ کے حامل حکمرانوں نے اپنے ملکوں کی پالیسیوں خصوصا امور خارجہ اور بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے اس میں یکسانیت اور تسلسل کو قائم رکھا۔ اسی عرصے میں بے شمار تغیرات آتے رہے۔ تعلقات میں نشیب و فراز بھی آئے۔ ایک دوسرے پر الزامات بھی لگائے گئے۔ شکوے اور شکایتیں رہیں لیکن ایسے الزامات نہیں لگائے گئے جن سے امریکہ جیسے ملک سے دوستانہ تعلقات پر اس درجے غلط فہمی پیدا ہوئی۔ یہ درست ہے کہ امریکیوں کو علم ہے کہ عمران پاکستان کے ایک مقبول لیڈر ہیں۔ پاکستان کے چار یونٹس میں ان کی حکومت ہے۔ وہ دوبارہ حکومت میں آ سکتے ہیں۔ حکومت کی غلطیوں اور ابھرتے ہوئے مسائل کے سینکڑوں زاویے ہیں جن پر عمران ایک مضبوط بیانیہ بنا سکتے ہیں ان کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ اپنی بات بڑے اعتماد سے کرتے ہیں۔ وہ صحیح ہوں یا غلط وہ اپنے استدلال ثابت کرنے کے لیے بار بار دہراتے ہیں پورے جوش و جذبے سے بیان کرتے ہیں۔ یہ بھی ان کی ان کی خوش قسمتی ہے کہ ان کے فالورز ان کی کسی بھی یوٹرن اور بیانیے کے تضادات پر مائنڈ نہیں کرتے۔ پھر یہ بھی ان کی خوش قسمتی ہے کہ اس وقت سیاسی میدان میں ان کی رفتار کے ساتھ اپنی بات اس جوش و جذبے سے کہنے والا دوسرا لیڈر میدان میں نہیں ہے۔ نوازشریف اور مریم نوا ملک سے باہر ہیں۔ یہ بھی ان کی خوش قسمتی ہے کہ نوجوان خواتین و مردوں میں بے پناہ مقبول ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عمران خان ایک ہیرو کے طور پر سکرین پر گزشتہ پچاس سال سے موجود ہیں وہ پچیس سال تک کرکٹ کے میدان میں جگمگاتے رہے۔ پھر وہ ایک سوشل ریفارمر کے طور پر سامنے آئے۔ ان کا اپنے مداحوں کے ساتھ محبت کا رشتہ جڑا رہا۔ پھر وہ سیاست میں آئے۔ انہوں نے انقلاب اور تبدیلی کی باتیں شروع کردیں۔ وہ پاکستان کے محروم لوگوں کے لیے انصاف اور میرٹ کی بات کررہے تھے۔ ان پانچ دہائیوں میں انہوں نے خود کو ایک غیر معمولی شخصیت کے طور پر پیش کیا۔ وہ ایک خوبصورت شخصیت کے مالک ہیں۔ ستر سال کا ایک شخص چھ ماہ میں ستر سے زیادہ جلسوں سے خطاب کرتا ہے۔ وہ جہاں جاتا ہے جم غفیر اس کا منتظر ہوتا ہے۔ اس کی غلطی یہ ہے کہ اس نے منزل تک پہنچنے کے لیے ایک مشکل راستہ اختیار کیا ہے۔ ممکن ہے عوامی طور پر وہ اس راستے پر چلتے ہوئے انجوائے کر رہے ہوں لیکن انہیں طاقتور اداروں کو چیلنج کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ کسی دانشور نے انہیں بتایا تھا کہ موٹروے پر چلنے کے بجائے کسی بارودی سرنگ سے گزر جائیں۔ وہ سیاسی مخالفین کو پیچھے دھکیلنے اور ان کو تتر بتر کرنے کے بجائے اپنی باتوں سے انہیں یکجا کر رہے ہیں اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ شہرت اور پذیرائی ہمیشہ قائم رہتی ہے تو ایسا ہرگز نہیں۔ 10 اپریل 1986ء کو جب بے نظیر بھٹو پاکستان آئی تھیں تو لاہور میں ان کا ایسا فقیدالمثال استقبال ہوا تھا جو آج تک پاکستان کی تاریخ میں کسی نے نہیں دیکھا لیکن 1988ء کے انتخابات میں وہ ا اس درجے کی کامیابی حاصل نہ کرسکی۔ نوازشریف نے اقتدار سے الگ ہونے کے بعد اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ایک بیانیہ ترتیب دیا اور اسے مجھے کیوں نکالا کے عنوان میں ڈھالا۔ عمران خان کی دور حکومت میں انہوں نے 18 میں سے 16 ضمنی انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کے عوام مزاحمت کو پسند کرتے ہیں اب عمران خان مزاحمت کر رہے ہیں لیکن جیسے ہی وہ اپنے کہے کو خود غلط ثابت کرتے ہیں ان کے مداح یہ ضرور سوچیں گے کہ ان کے پسندیدہ رہنما نے ان سے غلط بیانی سے کام لیا لیکن لگتا یہ ہے کہ اپنی تمام تر پیشقدمی اورپسپائیوں کے باوجود عمران ایک بار پھر انتخابات میں کم از کم سادہ اکثریت ضرور حاصل کرلیں لیکن انہیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ شہرت اور پذیرائی ہمیشہ نہیں رہتی۔ تاریخ صرف ان لکیروں پر رکتی ہے جہاں انسانوں کے نجات دہندہ ہوئے ہوتے ہیں۔