60اور 70کی دہائی پاکستان کی تاریخ میں بڑی فیصلہ کن تھی۔کراچی میں ایک صنعتی تبدیلی کا آغاز ہو گیا تھا۔سرمایہ کاری کا رجحان بڑھ رہا تھا اور ظاہر ہے ملک کی واحد بندرگاہ ہونے اور بحیرہ عرب کے چاروں طرف پھیلے ہوئے وسیع کناروں کے ساتھ فخریہ اپنے وجود کا احساس دلانے والا یہ شہر اپنے مکینوں کی صلاحیتوں‘ توانائیوں اور محنت کے ثمرات سمیٹنے کے لئے بے تاب تھا۔65ء کی جنگ میں وطن عزیز کا دفاع کرنے میں حوصلہ مندی اور عزم و حوصلے میں یہ شہر کسی سے کم نہ تھا۔پھر ایوب خان کے خلاف مادر ملت کے حق میں فیصلہ دینے والے اس شہر نے سیاسی بصیرت اور فراست میں اپنی ایک الگ اور منفرد پہچان بنائی تھی۔60ء کی دہائی ختم ہونے سے قبل ہی فیلڈ مارشل ایوب خان کے خلاف جو سیاسی طوفان اٹھ کھڑا ہوا تھا چینی کی قیمت میں 2آنے کے اضافے نے اضطراب کی پہلی لہر کو جنم دیا تھا اور پھر ذوالفقار علی بھٹو کی سرکردگی میں ان کی بھارت مخالف جوشیلی تقریروں اور روٹی کپڑا مکان کے پرکشش اور دلفریب نعروں نے انہیں سیاسی طور پر پاکستان کے مغربی حصے کا ہیرو بنا دیا تھا حکومت نے بھٹو کی اس پیشقدمی کو اپنے لئے خطرہ بھانپتے ہوئے انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیلا لیکن اس مرحلے پر ایئر مارشل(ر) اصغر خان نے میدان میں آ کر حکومت کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔یہ وہ وقت تھا جب اصغر خان کو پاکستان ایئر فورس کا معمار سمجھا جاتا تھا اور پاکستان کی افواج میں انہیں انتہائی عزت و احترام کے ساتھ دیکھا جاتا تھا۔اس لئے ایوب حکومت ان کے خلاف براہ راست کارروائی کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھی۔مارچ 1969ء میں ایوب خان نے اقتدار یحییٰ خان کے سپرد کر دیا ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا گیا۔ ایوب خان کا گیارہ سالہ اقتدار میں متعدد آمرانہ فیصلوں کے ساتھ ساتھ پاکستان میں خصوصاً کراچی میں صنعتی ترقی نے پوری رفتار سے اپنا سفر شروع کر دیا تھا۔سائٹ ایریا کا قیام اور یہاں جابجا فیکٹریوں اور کارخانوں کی چمنیوں سے اگلتادھواں اور اس علاقے میں صنعتی گہما گہمی گواہی دے رہی تھی کہ کراچی کی قیادت میں ملک کی ترقی کا سفر پوری رفتار سے آگے بڑھ رہا ہے۔ آزادی کے بعد کراچی میں نئی ابھرنے اور تیزی سے پھیلنے والی آبادی ناظم آباد تھی۔یہ وہ دور تھا جب پیر الٰہی بخش کالونی اپنی مختص اراضی پر اپنے مکینوں سے آباد ہو چکی تھی۔ضرورت کی مارکیٹیں ‘ چائے کے ڈھابے‘ ہوٹلز، بس اسٹینڈ‘ ہسپتال اور اسکول کی سہولتیں آ چکی تھیں۔یوں تو کراچی کے ہر علاقے نے ایسے جوہر قابل پیدا کئے جن پر یہ علاقے فخر کر سکتے ہیں۔ناظم آباد اور پی آئی بی اِن میں بڑے نمایاں تھے۔آپ اس دور کے کراچی کو تصور میں لائیے جب آج کے گلشن اقبال سے متصل کراچی یونیورسٹی شہر سے کتنی دور تھی۔اس دور میں مشہور ادیب و کالم نگار ابن انشا روزنامہ جنگ میں ہر ہفتے باقاعدگی سے ’’شہر سے 12میل پرے‘‘ کے عنوان سے کراچی یونیورسٹی میں ہونے والی سرگرمیوں جامعہ سے متعلق خبروں کے تبصروں پر مشتمل بڑا دلچسپ کالم لکھتے تھے۔یہ ایک پرسکون کراچی کا دور تھا۔ان وقتوں کو یاد کرتے ہوئے سابق صدر جنرل مشرف نے بھی اپنا حصہ ڈالا ہے اپنے پرانے محلے کو یاد کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں۔’’ہمارا محلہ ناظم آباد رہنے کے لئے ایک دشوار جگہ تھی۔ہر لڑکے کا وہاں رہنے کے لئے ہوشیار ہونا ضروری تھی۔جہاں پر بھی اس طرز کے دوسرے علاقوں کی طرح لڑکوں کے ٹولے (Gang)تھے اور ظاہر ہے میں بھی اس میں شامل ہو گیا اور میں اپنے ٹولے کے سخت جان اراکین ہی سے ایک تھا ۔دوسرے لڑکوں کی طرح پتنگ اڑانے اور لوٹنے کا شوق تھا اس میں کبھی کبھی جھگڑے بھی ہو جاتے تھے۔ہمارے علاقے میں ایک غنڈہ لڑکا تھا۔ جو دوسروں سے لوٹی ہوئی پتنگیں لوٹ لیتا تھا ۔اکثر لڑکے ڈر کے مارے اسے لوٹی ہوئی پتنگ دیدیتے تھے۔ایک دن وہ میرے بھائی سے لوٹی ہوئی پتنگ چھیننے لگا۔میں نے آئو دیکھا نہ تائو اسے دو تین مکے جڑ دیے اس کی خوب ٹھکائی کی اس کے بعد محلے والے مجھے باکسر سمجھنے لگے۔ یہ وہ دور تھا جب کراچی کے لوگوں کے لئے فلم دیکھنا ایک مزے کی تفریح تھی۔ عموماً ایک دن پہلے بکنگ ہوئی ورنہ پھر ٹکٹ گھر پر لائن میں کھڑا ہونا پڑتا اور گھنگریالے بالے والے مکرانی لائن درست کرانے کے لئے کبھی چھڑی استعمال کرتے اور کبھی لالچ دے کر بلیک میں ٹکٹ بیچتے تھے۔ روزانہ اخبارات میں فلموں کے بڑے بڑے اشتہارات چھپتے جو یہ خبر دیتے کہ کون سے سینما میں کس فلم نمائش ہے۔ان میں اداکاروں اور اداکارائوں کی تصاویر بھی چھپتی۔60اور 70ء کی دہائی پاکستانی فلموں کے عروج کا دور تھا اور اس وقت سب سے کامیاب اداکاروحید مراد تھے۔ان کے چاہنے والے انہیں چاکلیٹی ہیرو بھی کہتے تھے۔ نوجوان بڑی تعداد میں ان کے ہیئر اسٹائل کی نقل بھی کرتے۔ان کی پہلی فلم اولاد تھی۔لیکن یہ فلاپ ہو گئی۔وحید مراد کو اصل شہرت ’’ہیرا اور پتھر‘‘ نامی فلم سے ملی اس میں وحید نے ایک گدھا گاڑی والے کا کردار ادا کیا۔1964ء میں جب وہ محض 23سال کے تھے وہ ایک ہر دلعزیز ہیرو کا روپ دھار چکے تھے اس زمانے میں مسرور انورو‘ سہیل رانا اور پرویز ملک کے ساتھ ان کی ایک مکمل ٹیم بن گئی جنہوں نے اپنے اپنے شعبوں میں ابھرتے پاکستان کے فلم شائقن کو متعدد بڑی خوبصورت فلمیں دیں۔ وحید مراد کے والد نثار مراد مشہور پروڈیوسر اور فلم ڈسٹری بیوٹرز تھے۔وحید مراد نے 1960ء میں کراچی یونیورسٹی سے ایم اے انگلش کیا۔زیبا اور شمیم آراء کے ساتھ ان کی جوڑی خوب سجی، یوں تو اس زمانے کی تمام ہیروئنز ان کے ساتھ کام کرنا اعزاز سمجھتی تھیں کیونکہ وحید مراد کا نام ہی فلم کی کامیابی کی ضمانت تھا لیکن پھر ان کی شہرت کو گہن لگ گیا۔ان کی پے درپے فلمیں فلاپ ہو گئیں کئی فلموںمیں انہوں نے محمدعلی اور ندیم کے ساتھ سائیڈ رول بھی کئے۔ان دھائیوں کی فلموں کی بیشتر شوٹنگ مری ، ایوبیہ یا کراچی میں ہوا کرتی تھیں۔وحید مراد پر ایسا بُرا وقت بھی آیا جب بدر منیر جو ایک وقت میں نثار مراد کے ملازم اور وحید مراد کی گاڑی چلاتے تھے انہیں فلموں میں وحید مراد لائے اور وہ پشتو فلموں کے مقبول ہیرو بن گئے اور اس وقت وحید مراد کے ستارے گردش میں دیکھ کر بدر منیر انہیں بحیثیت پروڈیوسر اپنی فلم میں کام دیا۔وحید مراد شاید ڈھلوان پر لڑھکتی اپنی شہرت کو برداشت نہ کر سکتے ایک دن جب وہ کراچی میں اپنی منہ بولی بہن ممتاز ایوب کے گھر کی بالائی منزل پر سو رہے تھے۔صبح بیدار نہ ہو سکے۔دروازہ توڑا گیا تو وہ بستر سے گرکر فرش پر گرے ہوئے پائے گئے۔ رات کے کسی پہر وہ اس دنیا کو ہمیشہ خیر باد کہہ گئے تھے۔مسز ایوب ممتاز ٹی وی آرٹسٹ اور ماڈلز انیتا ایوب اور امبر ایوب کی والدہ ہیں۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب وحید مراد کا جسد خاکی ایک باکس میںکراچی سے لاہور روانہ ہوا تو اسے رخصت کرنے والوں میں ایئر پورٹ پر میں اور برادرم سلیم باسط بھی تھے۔پھر یہ بھی اتفاق دیکھیں کہ ایک دن جب میں اور برادرم اسد جعفری اداکار محمد علی کے گھر واقع نزد فردوس مارکیٹ گلبرگ گئے اور علی صاحب نے اپنی چھت سے ہمیں بتایا کہ وحید صاحب کی قبر یہاں سے صاف نظر آتی ہے۔دوسرے دن ہم نے قبرستان جا کر ان کی قبر پر مغفرت کی دعا کی۔(جاری ہے)