آزادی کے بعد بے شمار ایسے گھرانے تھے جنہوں نے نئے ارض پاک کی محبت میں گرفتار ہوکر زندگی سے لیکر جائیداد اور دنیاوی رکھ رکھاؤ کو خیرباد کہہ کر تمام خطرات سے پر یہ سفر طے کیا۔ آخر وہ کیا رومانس تھا جس کے سبب انسانوں کا یہ سیلاب یوں امڈ پڑا۔ ایسے جیسے انہیں جنت ملنے والی ہے۔ میں نے یہی سوال اپنے وقت کے ممتاز قانون دان محترم خالد اسحاق سے پوچھا تو انہوں نے برجستہ جواب دیا شاید آپ کی یہ بات درست ہے کہ یہ رومانس تھا۔ ایک خواب تھا۔ آزاد وطن کا ایک سہانا تصور تھا' لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ متحدہ ہندوستان کے بہت سے علاقوں میں ایسے فسادات پھوٹ پڑے تھے جن کے سبب مسلمان عدم تحفظ کا شکار ہوکر ہجرت پر مجبور ہوئے۔ وہ بتانے لگے کہ تحریک آزادی میں قائداعظم محمد علی جناح نے جو ولولہ انگیز تقریریں کیں۔ ایک آزاد مملکت کے تصور کو جس طرح بیان کیا وہ بڑا دلکش اور حسین تھا۔ قائد کا بڑا واضح نظریہ تھا۔ وہ تقریریں اس تصور کو منعکس کررہی تھیں کہ قائد کس قسم کا ملک چاہتے تھے۔ ہاں یہ درست ہے کہ ہم ایسا نہیں کرسکے۔ ہم خود کو اس تصور کے ہم پلہ نہ بناسکے۔ اس لئے ہم بہت پیچھے رہ گئے۔ میں یہ باتیں 1989ء میں جناب خالد اسحاق سے کررہا تھا۔ خالد اسحاق کی شخصیت میرے لئے ہمیشہ کشش رکھتی تھی۔ میں روزنامہ نوائے وقت میں عموماً اپنے فورم میں انہیں مدعو کرتا۔ وہ بڑی جاندار گفتگو کرتے کہ سننے والا ان کے علم اور انداز گفتگو میں کھوجاتا۔ جب میں نے ان کی لائبریری دیکھی تو سچ پوچھیں میں حیران رہ گیا۔ وہ قانون دان تھے۔ لازمی بات تھی 40 سے 50 فیصد کتابیں قانون سے متعلق تھیں۔ وہ مضمون جس میں قابلیت' محنت اور علمیت نے انہیں بام عروج پر پہنچایا تھا۔ اس کے علاوہ دنیا کا ایسا کونسا علم تھا جس سے متعلق کتب خالد اسحاق کی لائبریری میں موجود نہ تھیں۔ مجھے یہ تو علم نہیں کہ وہ لائبریری کس حال میں ہے۔ جب لائبریری کی بات چلی ہے تو علی احمد تالپور کی لائبریری بھی بڑی فقید المثال تھی۔ میں نے آزادی کی نعمت سے متعلق جب چار دہائیاں پہلے سندھ کے اس جدید سیاستدان اور باعلم انسان سے پوچھا وہ فوراً بولے۔ اگر آپ کو آزادی کی قدر و قیمت جاننی ہو تو کسی غلام سے پوچھیں۔ گاندھی قائداعظم سے کہتے رہے کہ متحدہ ہندوستان آنے والے زمانے میں دنیا کی سب سے طاقتور مملکت بن کر ابھر سکتا ہے لیکن قائداعظم اپنے تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں اپنے اس استدلال کے قائل تھے کہ ہندو اور مسلمان دو الگ شناخت ہیں۔ ہم ایک خدا اور ایک رسولﷺ اور ایک کتاب قرآن مجید کے ماننے والے ہیں۔ ہم ایک ایسی مملکت چاہتے ہیں جہاں ہم اپنے مذہب و دین کے مطابق آزادی سے اپنی ذمہ داریاں پوری کریں۔ ہمارے وسائل ہمارے ہوں۔ جب پاکستان بنا تو یہاں مہمانوں نے آنا شروع کیا۔ یہ اپنا سب کچھ گنواکر اس ملک میں آئے تھے۔ اس لئے ہمارے بڑوں نے انہیں سر آنکھوں پر بٹھایا تھا۔ یہ احسان نہیں تھا ہمارا فرض تھا۔ ہم نے اپنے گھروں کے دروازے ان سب کیلئے کھول دیئے تھے۔ یہ تھی پاکستان کی ابتدا جب سب یکجا ایک جان دو قالب تھے۔ تالپور صاحب بتاتے تھے کہ ایسے گھرانے بھی دیکھے جو اچھے دنوں سے یکدم گردش میں آگئے اور ایسے گھرانے بھی جو یہاں آکر خوب پھلے پھولے' لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس دھرتی نے سب کو اپنی آغوش میں پناہ دی لیکن اب جب میں دیکھتا ہوں کہ کیا کیا غلط فہمیاں پیدا ہوئیں۔ ہم لسانی اکائیوں میں بٹ گئے۔ ایک دوسرے کو شک کی نظر سے دیکھنے لگے۔ ایک دوسرے سے شکوہ کرنے لگے۔ شاید مذہب کا وہ رشتہ کمزور پڑگیا جس نے ہمیں مسلمان کے طور پر یکجا رکھا تھا۔ آپ دیکھ لیں وقت نے باہم محبت' رواداری اور اخوت کے رشتے پر گرد جمادی۔ تالپور صاحب کی باتیں تاریخ اور حقائق سے جڑی ہوئی تھیں اور کیوں نہ ہوتیں۔ ان کی وسیع و عریض لائبریری ان کے علمی ذوق کا پتہ دے رہی تھیں۔ خالد اسحاق کی طرح تالپور صاحب کی لائبریری بھی ان کی کتب بینی کے شوق کا نشان تھی۔ وہ اپنی گفتگو میں تاریخ کے اتنے حوالے دے رہے تھے لگتا تھا انہوں نے تاریخ کے تمام قدیم سے لیکر جدید قدموں کی ہر آہٹ کو اپنے ذہن میں سمولیا ہے۔ وہ اس ارض پاک میں قدم رکھنے والوں کی معاشرتی اور سماجی زندگی کو ہر زاویہ نگاہ سے کھرچ رہے تھے۔ وہ کہنے لگے آپ ذرا غور کیجئے کراچی کی معاشرت اور تمدن آپ کو پاکستان کے کسی بھی دوسرے شہر سے ہر دور میں ذرا مختلف دکھائی دے گی۔ یہاں کی طرز زندگی بھی ذرا مختلف اور انوکھی ہے۔ یہاں کے مکینوں کا مزاج بھی بڑا متنوع ہے۔ یہ بڑے Reachive ہیں یہ Vocal بھی ہیں اور کسی دوسرے شہر کے مکینوں کے مقابلے میں زیادہ پروفیشنل بھی۔ آپ نہیں کہہ سکتے کہ یہ سست لوگ ہیں اور یہ بات بھی انہوں نے بڑے اعتماد سے کہی کہ یہاں کے لوگ کمٹ منٹ کے زیادہ پکے ہیں۔ کاروباری سوجھ بوجھ میں بھی آگے ہیں۔ علی احمد تالپور کے بھائی رسول بخش تالپور کے کیا کہنے۔ یہ تو حیدر آباد کی پہچان تھے۔ ان کی بڑی مونچھیں ان پر خوب ججتی تھیں۔ پھلیلی میں پاور ہاؤس کے قریب ان کی رہائشگاہ تھی۔ لوگوں کا ان کے گھر جھمگٹا رہتا۔ بڑے خدا ترس انسان تھے۔ عوامی اسٹائل تھا۔ بھٹو کے قریبی ساتھی تھے۔ جب 71ء میں بھٹو صاحب کی حکومت بنی تو تالپور صاحب بھی صف اول کے رہنما تھے۔ پھر گورنر ہاؤس کراچی کے مکین بنے۔ علمی ذوق و شوق اور مطالعہ کے حوالے سے اپنے بھائی علی احمد تالپور کے بالکل دوسرا سرا تھے۔ پھر ایک دن جب 1972ء میں سندھ اسمبلی نے لینگوئج بل پاس کیا اور اس وقت پورا کراچی سراپا احتجاج بن گیا۔ یہ بھٹو صاحب کے ٹیلنٹڈ کزن ممتاز بھٹو کا سندھ پر حکمرانی کا دور تھا۔ احتجاجاً کراچی میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔ رئیس امروہوی کے ''قطعہ'' اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے' نے آگ پر تیل کا کام کیا۔ اس میں نہ جانے عوامی اسٹائل کی سیاست کرنے والے گورنر رسول بخش تالپور کو کیا سوجھی۔ ایک بیان دے ڈالا۔ ''چھٹی کے دن ہڑتال کا کیا مقصد' اگر ورکنگ ڈے پر ہڑتال کی کال دی جاتی تو پتہ چلتا کہ کامیاب ہے یا ناکام'' تالپور صاحب کے بے وقت اس بیان سے الٹا لینے کے دینے پڑگئے۔ کراچی ایک ہفتے کیلئے بند ہوگیا۔ دوسری طرف کراچی شہر کی اپنی ایک زندگی تھی۔ وہ تاریخ کے راستے پر دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہا تھا۔ کراچی کی تاریخ اور اس کی کہانی متعدد مدوجزر سمیٹے آگے بڑھتی رہی۔ قیام پاکستان کے بعد ابتدائی برسوں میں ملک تیزی سے ترقی کررہا تھا۔ اس حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ دنیا دیکھ رہی تھی کہ ابھرتا ہوا پاکستان کس طرح اپنی مسافت طے کررہا تھا۔ یہ چمکتا ہوا ملک تھا اور اس کا مرکز کراچی تھا۔ ترقی اور بہتری کے اس سفر میں کراچی ایک نیو کلیئس کا درجہ رکھتا تھا۔ (جاری ہے)