ملکہ وکٹوریہ کی پولیس کا نامہ اعمال تو ہمارے سامنے ہے جو 1860 میں قائم کی گئی اور تھوری سی رفوگری کے باوجود آج بھی اپنے اسی نو آبادیاتی ڈھانچے پر قائم ہے اور اس ’’ خوبی‘‘ کا اعتراف پنجاب پولیس کی ویب سائٹ پر بھی موجود ہے کہ ہم اسی ڈھانچے پر کھڑے ہیں جو برطانوی غلامی کے دور میں نیپئر صاحب نے وضع کیا تھا۔لیکن سوال یہ ہے کہ مغلیہ دور کی پولیس کیسی تھی؟ ایسٹ انڈیا کمپنی کے اعلی سطحی اہلکاروں کی تیار کردہ دستاویزات کے مطابق مغل پولیس کا ڈھانچہ اور اس کے اصول کچھ یوں تھے: 1۔ پولیس کے مقامی سربراہ یعنی کوتوال کے عہدے پر فائز ہونے کے لیے ضروری تھا کہ متعلقہ آدمی دلیر ہو ، تجربہ کار ہو ، متحرک ہو ، اور چیزوں کو جلد سمجھ لینے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ 2۔ کوتوال کے لیے ضروری قرار دیا گیا کہ راتوں کو گشت کی حساسیت کو سمجھتا ہو۔تا کہ راتوں کو لوگ اس اطمینان کے ساتھ سکون کی نیند سو سکیں کہ کوتوال نگرانی کے لیے موجود ہے۔ 3۔ کوتوال کا یہ فرض تھا کہ وہ ایک ایسا رجسٹر رکھے جس میں وہ تمام گھروں اور آمدو رفت والی سڑکوں کی تفصیل درج کرے۔کوتوال کی ذمہ داری تھی کہ وہ سب لوگوں کو یوں جوڑ کر رکھے کہ وہ ایک دوسرے کی خوشی اور غموں میں شریک ہوں اور ایک دوسرے سے تعاون کریں اور ضرورت ہو تو ایک دوسرے کی مدد بھی کریں۔ 4۔ کوتوال کی ذمہ داری تھی کہ شہروں کو محلوں اور وارڈز میں تقسیم کرے اور وہاں ہر محلے اور وارڈ کا ایک مناسب اور موزوں آدمی نگران اور منتظم ( میر محلہ) مقرر کرے۔ 5۔ میر محلہ ہر روز اپنی مہر اور دستخطوں سے کوتوال کو اس محلے کی تفصیلی رپورٹ بھیجنے کا پابند تھا جس میں ہر اہم واقعہ درج ہوتا تھااور یہ تفصیل بھی موجود ہو تی تھی کہ اس محلے میں کون آیا اور کون گیا۔ 6۔ حکم تھا کہ میر محلہ من مانی نہیں کرے گابلکہ اس کے طرز عمل کی بھی نگرانی ہو گی اور کوتوال کا یہ فرض ہو گا کہ وہ میر محلہ پر جاسوس مقرر کرے گا۔ ایک مقامی آدمی اور ایک ایسا آدمی جسے وہ جانتا ہی نہ ہو۔ یہ جاسوس میر محلہ کی رپورٹ تحریری طور پر کوتوال کو دیا کریں گے۔ 7۔ اجنبی مسافروں کو سیدھا سرائے میں لے جا کر اتارا جائے گا۔ اور ان کی نگرانی کر کے انٹلی جنس کے ذریعے معلوم کیا جائے گا کہ وہ کون ہیں اور کیوں آئے ہیں۔ 8۔ کوتوال کی ذمہ داری ہو گی کہ وہ ہر آدمی کے ذرائع آمدن سے آگاہ رہے ( تا کہ وہ ان ذرائع سے زیادہ بہتر زندگی گزار رہا ہو تو معلوم ہو سکے )۔ کوتوال کا یہ بھی فرض ہو گا کہ وہ اپنے علاقے میں ہونے والے ہر کاروباری سودے سے آگاہ رہے۔ 9۔ ہنر مندوں میں سے وہ کسی ایک کو ان کا سربراہ بنائے گا اور ایک کو ان کی اشیاء کی خریدو فروخت کے لیے ان کا ایجنٹ مقرر کرے گا۔یہ دونوں شخص کوتوال کو تحریری رپورٹ پیش کیا کریں گے اور وہ ان رپورٹس کی روشنی میں ان کے کاروبار کو ریگولیٹ کرے گا۔ 10۔ سڑکوں اور گلیوں کو صاف کروانا بھی س کی ذمہ داری ہو گی۔ 11۔ شہر کے داخلی راستوں پر بیرئر لگائے جائیں گے اور کوتوال اس بات کو یقینی بنائے گا کہ رات کے اوقات میں کوئی شخص نہ شہر میں دا خل ہو سکے نہ شہر سے باہر جا سکے۔ 12۔کوتوال کی ذمہ داری ہو گی کے بے کار لوگوں کو کوئی ہنر سیکھنے میں لگائے۔ 13۔ وہ کسی کو بھی کسی دوسرے کے گھر میں زبردستی داخل ہونے سے روکے گا اور اس کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ 14۔ کہیں چوری ہو جائے تو کوتوال کی یہ ذمہ داری ہو گی کہ چور کو پکڑے اور مال مسروقہ برآمد کر کے اصل مالک کو پیش کرے۔ 15۔ اگر کوتوال مال مسروقہ کی تلاش میں ناکام رہتا ہے تو چوری کے مال کی قیمت اپنی جیب سے اس کے مالک کو ادا کرے گا۔ 16۔ کوتوال مارکیٹ کی بھی نگرانی کرے گا اور اس بات کو یقینی بنائے گا کہ اشیاء کی قیمتیں اعتدال میں رہیں۔ اگر اشیاء کی قیمتیں بڑھ جائیں اور لوگوں کو خریداری کے لیے کہیں اور جانا پڑے تو یہ کوتوال کی نا اہلی سمجھی جائے گی اورا س سے باز پرس ہو گی۔ 17۔ کوتوال اس بات کو بھی یقینی بنائے گا کہ مارکیٹ میں مصنوعی قلت پیدا نہ ہو اور کوئی امیر شخص اپنی ضرورت سے زیادہ اشیاء نہ خرید سکے۔ 18۔ مارکیٹ میں اوزان کو چیک کرنا بھی کوتوال کی ذمہ داری ہو گی۔ 19۔ کوتول کو اس بات کی اجازت نہیں ہو گی کہ وہ اس تجسس میں پڑا رہے کہ لوگ اپنے گھروں میںکیا کر رہے ہیں۔ 20۔ کوتوال کا فرض ہو گا کہ وہ اس بات کوو یقینی بنائے کہ کوئی کسی کو حبس بے جا میں نہ رکھے اور کوئی کسی کو غلام نہ بنا ئے۔ 21۔ کوتوال مذہبی جعل ساز ملنگوں اور قلندروں کو شہر سے نکال دے گا یا انہیں کہے گا کہ وہ یہ طرز زندگی چھوڑدیں۔ 22۔ البتہ کوتوال کو ایسے لوگوں کو تنگ کرنے کی اجازت نہیں ہو گی جو مذہبی نکتہ نظر سے تارک الدنیا ہو کر غربت کی زندگی گزار رہے ہوں۔ اس قدر ذمہ داریوں کے ساتھ کوتوال کی تنخواہ بھی غیر معمولی تھی۔ برطانیہ کے بنائے پولیس کمیشن1902کی رپورٹ کے مطابق مغل دور میں کوتوال کی تنخواہ (9000) نو ہزار روپے تھی۔جب کہ برطانوی نو آبادیاتی نظام کے تحت جب پولیس قائم کی گئی تو اس کی تنخواہ انتہائی کم تھی۔ مغل اقتدار کے خاتمے کے چار عشرے بعد یعنی 1900 میں ایک کانسٹیبل کی ماہانہ تنخواہ صرف (7) سات روپے تھے ۔( سات سو نہیں ، صرف سات روپے)۔ انسپکٹر جنرل یعنی آئی جی جو اس فورس کا سب سے برا منصب تھا اس کی ماہانہ تنخواہ( 2500) پچیس سو روپے تھی۔یعنی 1560 میں مغل بادشاہ جلال الدین اکبر اپنے کوتوال کو جو تنخواہ دے رہے تھے وہ 1900 میں برطانوی پولیس کے آئی جی کی تنخواہ سے قریب ساڑے تین سو فیصد زیادہ تھی۔معروف ادیب جارج آرول ( Geore Orwell) جب ہندوستان میں برطانوی پولیس میں اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ سپرنٹنڈنٹ کے طور پر کام کر رہے تھے تو ان کی تنخواہ 525 روپے ماہانہ تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے لوگ امن عامہ کے لیے تو اس پولیس کی کارکردگی کے مداح تھے لیکن ان کو اس پولیس سے صرف ایک شکوہ تھا جس کی وجہ سے بعد میں نو آبادیاتی پولیس کھڑی گئی۔ وہ شکوہ کیا تھا؟ برطانوی پولیس کمیشن کی اپنی رپورٹ کے مطابق شکوہ یہ تھا کہ پولیس کا ڈھانچہ برطانیہ کی سیاسی ضروریات پوری نہیں کرتا تھا اور اس برطانوی قبضے کو مستحکم کرنے میں معاون ثابت نہیں ہوتا تھا۔چنانچہ ایک مقصد کے لیے ایک نئی پولیس کھڑی کی گئی جو آج تک معاشرے کا امتحان لے رہی ہے۔