کراچی اور سندھ کے شہری علاقوں کی سیاست میں ایک نیا موڑ اپنی تمامتر حقیقتوں کے ساتھ اجاگر ہورہا ہے‘ جس بنیاد پر ایم کیو ایم نے حیرت انگیز عروج کا دور دیکھا تھا وہ رومانس اب ٹمٹماتے دیئے کی طرح بجھنے کو ہے۔ اس کا جواب حاصل کرنے کیلئے کسی بڑی سوجھ بوجھ کی ضرورت نہیں کہ ایسا کیوں ہوا۔ اس کا جواب بہت سیدھا سادا ہے۔ وہ کچھ نہیں ہوا جن کا وعدہ کیا گیا تھا۔ وہ توقعات‘ وہ امیدیں جو کراچی میں رہنے والی اکثریتی آبادی اردو اسپیکنگ نے ایم کیو ایم سے وابستہ کی تھیں پوری نہیں ہوئیں۔ ایم کیو ایم کے طرز انداز اور طرز فکر نے وہ روشن راستے متعین نہیں کئے‘ جن کی ان سے توقع کی گئی تھی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ گزشتہ 40 سال میں وہ لوگ اور وہ جماعتیں جو سندھ کے شہری علاقوں میں خصوصاً اور پورے سندھ میں عموماً سرگرم عمل رہیں‘ اقتدار میں رہیں۔ وہ خود آج یہ سوچیں کہ انہوں نے سندھ کی ترقی‘ خوشحالی‘ باہم میل ملاپ‘ رواداری اور امن و سکون کیلئے کیا کیا۔ وہ ذرا مڑ کر دیکھیں کہ انہیں جو کردار ادا کرنا چاہئے تھا کیا انہوں نے وہ کردار ادا کیا یا نہیں تو جواب نفی میں ملے گا۔ ایسا لگتا ہے کہ کراچی کی سیاست میں ایم کیو ایم کا ٹائٹینک اب ڈوب رہا ہے۔ وسیم اختر یہ تسلیم کررہے ہیں کہ ایم کیو ایم زوال کا شکار ہے۔ پھر دلچسپ بات یہ ہے کہ ایم کیو ایم کامران ٹیسوری کے گورنر لگائے جانے کا بھی مدلل دفاع نہیں کرپارہی ، اس معاملے پر اس کے مختلف کیڈرز نہال اور پرجوش بھی نہیں۔ 2018ء میں ایم کیو ایم نے پہلے اپنے کنوینئر فاروق ستار کو اس کی سربراہی سے ہٹایا اور پھر 8 سال تک ایم کیو ایم کی نمائندگی کرتے ہوئے کراچی کے میئر رہنے والے فاروق ستار کی ممبر شپ بھی ختم کردی اور دلچسپ بات یہ ہے کہ جس شخصیت کی وجہ سے فاروق ستار جیسے ایم کیو ایم کے رہنما کے ساتھ یہ سلوک کیا گیا اسی شخصیت کو آج سندھ کا گورنر بنادیا گیا ہے۔ لیکن ان کی وجہ سے پارٹی سے نکالے جانے والے فاروق ستار ابھی تک پارٹی سے باہر ہیں اور پارٹی مسلسل زوال کا شکار ہے اور ساتھ ساتھ یہ معاملات بھی سامنے آرہے ہیں کہ اچانک حکومت کی جانب سے ایم کیو ایم کے کئی مطالبات کو تسلیم کیا جارہا ہے اور یہ بھی کہ ایم کیو ایم چاہتی تھی کہ کراچی میں بلدیاتی انتخابات ملتوی کردیئے جائیں جو کردیئے گئے ہیں۔ چیف سیکریٹری سندھ نے الیکشن کمیشن کو خط لکھ کر بتایا کہ سندھ حکومت کے پاس الیکشن کی صورت میں پولنگ اسٹیشنوں پر تعیناتی کیلئے 16 ہزار اہلکاروں کی کمی ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کیلئے یا تو رینجرز اور آرمی کے اہلکاروں سے پورا کیا جائے یا پھر الیکشن کو تین ماہ کیلئے ملتوی کردیا جائے‘ جس کے بعد الیکشن کمیشن نے بلدیاتی انتخابات ملتوی کردیئے۔ درحقیقت کراچی کی سیاست بدل رہی ہے۔ اس کی وجہ بظاہر نظر آرہا ہے کہ یہاں پر لوگ عمومی طور پر مایوس ہیں۔ کراچی کی معاشرت اور سماج میں کوئی مثبت تبدیلی نظر نہیں آتی۔ لوگوں کے مسائل ہیں جو بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ ٹرانسپورٹ‘ تعلیم‘ صحت اور امن و امان جیسے مسائل ہر شہری کی زندگی کو مشکل بنارہے ہیں۔ پھر مہنگائی نے ہر کسی کے کس بل نکال دیئے ہیں۔ کراچی کا پورا انفرااسٹرکچر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ سڑکیں ادھڑی ہوئی ہیں‘ ڈرینج اور نکاسی آب کا پوا ڈھانچہ خستہ حال ہے‘ صفائی کا کوئی مربوط اور منظم نظام موجود نہیں جس نے شہر کے ہر کونے کو کچرا کنڈی بناکر رکھ دیا ہے۔ 30 فیصد لوگوں کو صاف پانی ان کے نلکوں سے میسر نہیں۔ بجلی کے لمبے چوڑے بل اور اس کے ساتھ لوڈ شیڈنگ کا عذاب۔ آدھے سے زیادہ کراچی میں گیس پریشر کم ہونے کی شکایت ہے۔ ایسے میں ظاہر ہے کراچی والوں کی بے چینی اور اضطراب ایک فطری بات ہے۔ جہاں تک شہر میں بسنے والے اردو اسپیکنگ لسانی اکائی کا تعلق ہے۔ انہوں نے 80ء کی دہائی کے وسط سے ایم کیو ایم کا ساتھ دیا۔ یہ کم و بیش چار دہائیوں کا سفر ہے۔ 70ء کی دہائی میں سندھ میں رہنے والے اردو اسپیکنگ جن کو حرف عام میں مہاجر کہا جاتا ہے پروفیشنل کالجز میں داخلوں اور ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے تحت ہونے والی ناانصافی کا شکار تھے۔ درحقیقت اسی فرسٹریشن اور عدم تحفظ نے ایم کیو ایم کو پروان چڑھنے اور مقبولیت کی سیڑھیاں پھلانگنے کا موقع دیا۔ 72ء میں جب سندھ اسمبلی میں لینگوئج بل پاس ہوا اور اردو بولنے والے طبقے نے شدید احتجاج کرکے پیپلز پارٹی کی اس وقت کی حکومت کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ ان پہلوؤں پر ہونے والی ناانصافی کو ختم کرنے کیلئے کوئی ایسا منصفانہ اور قابل عمل فارمولا بنائے۔ بھٹو صاحب کو اندازہ تھا کہ پاکستان کے پورے ڈھانچے میں سیاسی اور معاشی طور پر کراچی کی کیا اہمیت ہے اور اگر کراچی عدم استحکام کا شکار ہوا تو اس کے کیا نتائج ہوں گے۔ ایک زیرک سیاستدان کے طور پر انہوں نے سندھ میں رہنے والی دونوں بڑی اکائیوں پرانے سندھی اور وہ لوگ جو اردو بولتے تھے اور آزادی کے وقت ہجرت کرکے پاکستان میں آبسے تھے ان دونوں لسانی اکائیوں کے مابین افہام و تفہیم کے ماحول کو قائم رکھنے کیلئے دونوں کے نمائندہ گروپوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ سرکاری ملازمتوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں خصوصاً پروفیشنل اداروں میں شہری 40 فیصد اور دیہی آبادی 60 فیصد کے حساب سے اپنا حصہ لینے کی حقدار ہوگی‘ لیکن اردو اسپیکنگ کو اس لئے ہمیشہ شکایت رہی کہ اس فارمولے کے تحٹ انہیں کبھی بھی ان کا حق نہیں دیا گیا۔ یہ فرسٹریشن بڑھی تو ایم کیو ایم سامنے آئی اور اس نے مہاجروں کے حقوق کیلئے جدوجہد کے عزم کا اعادہ کیا۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ ایم کیو ایم کو ان کی توقعات سے بڑھ کر پذیرائی ملی اور 1988ء میں جب پہلی بار انتخابی معرکہ آرائی کا میدان سجا اور سندھ کے شہری علاقوں میں ایم کیو ایم بلا غیرے شرکت سندھ کی سیاست میں ایک فیصلہ کن کھلاڑی کے طور پر سامنے آئی۔ ظاہر ہے آبادی کے تناسب اور اسمبلی میں نشستوں کی تقسیم کے اعتبار سے ایم کیو ایم اعداد کے مطابق حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں آئی‘ لیکن یہ ضرور ہوا کہ 1988ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی نے مرکز اور صوبہ سندھ میں حکومت بنانے کیلئے ایم کیو ایم کی معاونت حاصل کی اور 1990ء کے انتخابات میں پنجاب اور مرکز میں حکومت بنانے والی مسلم لیگ (ن) کو بھی اپنی حکومت کو استحکام دینے کیلئے ایم کیو ایم کا سہارا لینا پڑا۔ 1988ء میں محترمہ بینظیر بھٹو اور 1990ء میں نواز شریف ایم کیو ایم کی معاونت حاصل کرنے ان کے ہیڈ کوارٹر تشریف لائے۔ یہ ایم کیو ایم کی شہرت اور مقبولیت کا عروج تھا۔ 90ء کی دہائی میں ایم کیو ایم کیخلاف آپریشن بھی ہوا۔ یہ دہائی اس اعتبار سے کراچی کیلئے ایک طوفان لے کر آئی کہ اس میں کراچی میں امن و امان کی صورتحال بہت خراب رہی۔ اس کی وجوہات کیا تھیں‘ محرکات اور عوامل کیا تھے۔ لسانی اکائیوں کے مابین غلط فہمیوں اور رنجشوں کا طوفان کیوں امڈ پڑا تھا۔ اس کے پیچھے کون سے کردار موجود تھے۔ کڑوی کسیلی یادوں کے ساتھ یہ ایک تکلیف دہ تاریخ کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ آج ہم 2022ء میں کھڑے ہیں۔ (جاری ہے)