مکرمی ! پاکستان کا آئین عدلیہ کو ممتاز اور منفرد حیثیت فراہم کرتا ہے۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 2-A اور آرٹیکل 175(3) عدلیہ کی آزادی اور اسے ایگزیکٹو سے الگ رکھنے کا تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ آئین کے محافظ کے طور پر، آئین عدلیہ سے اس بنیادی دستاویز کے تحفظ اور دفاع کا متقاضی بھی ہے۔ عدلیہ کے معزز ججز یہ حلف اْٹھاتے ہیں کہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی حفاظت اور اس کا دفاع کریں گے۔عدلیہ کی آزادی کے ساتھ ساتھ آئین عدلیہ کے اندر خوداحتسابی کے طریقہ کار کو بھی وضح کرتا ہے۔ سپریم کور ٹ اور ہائیکورٹس کے ججز کے احتساب کے لئے آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل قائم کی گئی ہے۔ یہ کونسل پانچ اراکین چیف جسٹس آف پاکستان کے علاوہ سپریم کورٹ کے دو سینئر ترین ججز اور ہائیکورٹس کے دو سینئر ترین چیف جسٹس صاحبان پر مشتمل ہوتی ہے۔ صدر کی جانب سے موصول ہونے والے ریفرنس پر یا ازخود کارروائی کے ذریعے کونسل اس معاملے کی تحقیقات کرتی ہے کہ آیا جج جسمانی یا ذہنی معذوری کی وجہ سے فرائض منصبی کو صحیح طریقے سے انجام دینے سے قاصر ہوچکا ہے یا پھر کس مس کنڈکٹ کا شکار تو نہیں ہوا۔ تحقیقات کے بعد کونسل رپورٹ صدر پاکستان کو پیش کرتی ہے۔ کونسل کی رپورٹ کے مطابق اگر جج مس کنڈکٹ یا فرائض منصبی سرانجام دینے سے قاصر ہوچکا ہو تو صدر اس جج کو عہدے سے ہٹا سکتا ہے۔ پاکستان میں منتخب عوامی نمائندوں اور سیاستدانوں کے علاوہ پاکستان کے کسی محکمہ کے اعلی ترین عہدیدران کے خلاف احتسابی عمل نہ ہونے کے برابر ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس 27 اکتوبر 2023ء کوبلایا۔ بہرحال دیر آئد درست آئد۔سوا دو سال کے بعد ہونے والے کونسل کے پہلے اجلاس میں 29شکایات کا جائزہ لیا گیا اور کونسل نے 19شکایات کو خارج کردیا گیا ۔کونسل کے اجلاس میں یہ معاملہ بھی زیر غور لایا گیا کہ چونکہ کونسل ایک الگ آئینی ادارہ ہے۔ اس کے لیے ایک کل وقتی سیکریٹری اور مطلوبہ عملہ کے ساتھ ایک علیحدہ سیکریٹریٹ تشکیل دینا مناسب ہوگا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی زیر سرپرستی سپریم جوڈیشل کونسل کا فعال ہونا بہت ہی نیک شگون ہے۔ (ریاض احمد ایڈوکیٹ شیخوپورہ)