Common frontend top

ہارون الرشید


اعتماد کا رشتہ


معاملہ ہے ریاست اور عوام کے تعلق کا۔ ناقص رشتے پر اعتماد کیسے استوار ہو؟ لیڈروں کو چھوڑیے، کیا دانشور غور فرمائیں گے؟ دردمندی سے کسی نے سوال کیا ہے کہ ہمارے لیڈر اور حکمران ٹیکس کیوں ادا نہیں کرتے۔ تاجر اور صنعت کار بھی۔ اوّل تو یہ تبلیغ کا کام نہیں۔ ہزاروں برس پہلے انسان نے ریاست تشکیل دی اور اپنے بعض حقوق سے دستبردار ہوا تو یہ عین فطری تھا۔ سب سے بڑھ کر آدمی کو امن اور انصاف کی ضرورت ہے۔ حیاتِ اجتماعی میں یہ موزوں لیڈروں کے انتخاب ہی سے ممکن ہے۔ جنہیں اختیار دیاجائے، وہ
منگل 23 فروری 2021ء مزید پڑھیے

کب تک

جمعرات 18 فروری 2021ء
ہارون الرشید
کب تک، آخر کب تک آزمائے ہوؤں سے امید وابستہ کی جائے گی۔ ایک نئی سیاسی جماعت نہیں تو صاحبِ درد اور ہوش مند لوگ کم از کم ایک پریشر گروپ ہی قائم کر دیں جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا یہ جو بہت بے چینی ہے،کنفیوژن کے طفیل ہے۔ مفروضے بے حساب، خلط مبحث بے پناہ۔ قرآن کریم کہتاہے: تمہیں صبر کیسے آئے، تم جانتے جو نہیں۔ حکمرانوں کو ہم کوستے اور روتے ہیں کہ لیڈر شپ کا بحران ہے۔ دانشور نرگسیت کے مارے ہوئے۔ کہیں سے کوئی
مزید پڑھیے


امکانات

بدھ 17 فروری 2021ء
ہارون الرشید
اسلام آباد میں اٹلی کے سفیر نے پچھلے دنوں کہا: پاکستان امکانات کی سرزمین ہے۔ ایسا ہی تھا، 1960ء کے عشرے میں ساری دنیا یہ کہتی تھی۔ پھر ہم باہم الجھنے لگے اور مایوسی کی دلدل میں اترتے چلے گئے۔ اجلال حیدر زیدی مرحوم ان لوگوں میں سے ہیں، سول سروس کی تاریخ میں ہمیشہ جو یاد رکھے جائیں گے۔ شائستگی، اہلیت اور دیانت کی ایک نادر مثال۔ وہ کہ جنہیں ہمیشہ اس اعتماد کے ساتھ ذمہ داری سونپی جاتی کہ منصوبہ اور مقصد تکمیل کو پہنچے گا۔ ایک کے بعد دوسرے حکمراں کو ان پر بھروسہ تھا۔ ریاضت ان کا
مزید پڑھیے


پاکستانی قوم اور غلبے کا آرزومند بھارت

منگل 16 فروری 2021ء
ہارون الرشید
کبھی آزمائش اور امتحان کامیابی اور ظفرمندی سے زیادہ ثمر خیز ہوتے ہیں۔ پاکستانی عوام کیلئے موسمِ گل شاید اب چند برس کی بات ہے ع وصل میں مرگِ آرزو‘ ہجر میں لذتِ طلب آخری تجزیے میں پاکستانی قوم‘ بھارتیوں سے بہت بہتر ہے۔ 1988ء سے شروع ہونے والے جمہوری دور سے پہلے‘ کم و بیش ہر میدان میں پاکستان کو بھارت پہ برتری حاصل تھی۔ یہ جمہوری نظام کا نہیں‘ صدیوں میں تشکیل پانے والے ہمارے مزاج کا نقص ہے۔ ادنیٰ لوگوں کی حکمرانی ہم گوارا کرتے ہیں۔ ہیجان میں ہم مبتلا ہیں۔ غلط تجزیوں کی بنیاد پر
مزید پڑھیے


کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے

جمعه 12 فروری 2021ء
ہارون الرشید
قلم لیکن خیال کی پیروی کرتا ہے۔ نہ کرے تو گل بوٹے کیسے کھلیں۔ خیالات کی اپنی ایک جنت ہے‘ ایک فردوسِ بریں۔ اقبالؔ نے کہا تھا: اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبانِ عقل لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے پاکستانی تاریخ کے ایک منفرد کردار میجر عامر نے اچانک پوچھا: گلگت بلتستان میں کیا رکھا ہے کہ اس کے گن گائے جاتے ہیں؟۔خود مخاطب کے ذہن میں بھی یہی سوال تھا۔ محمد علی ست پارہ کے لئے بہت سے لوگ دعا کر رہے ہیں۔یہ ناچیز بھی ان میں شامل ہے۔ جی ہاں!یہ ست پارہ ہے۔ نواحِ سکردو کی ایک
مزید پڑھیے



صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے‘ پابہ گِل بھی ہے

بدھ 10 فروری 2021ء
ہارون الرشید
زندگی آدمی سے سمجھوتہ نہیں کرتی، آدمی کو زندگی سے سمجھوتہ کرنا ہوتاہے۔ صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے‘ پابہ گِل بھی ہے اور نج ٹرین ایک نئی دلدل ہے۔ چند ہفتوں میں 35کروڑ کی بجلی برتی گئی۔ آمدن صرف 24 لاکھ روپے۔لاہور میں میٹرو بس پہ کام کا آغاز ہوا تو شریف برادران کے ایک دیرینہ رفیق سے پوچھا: ان کا مسئلہ کیا ہے؟ پرویز الٰہی دور میں بننے والا زیرِ زمین ریلوے کا منصوبہ ترک نہ کیا جاتا تو خزانہ برباد نہ ہوتا۔ بی اوٹی، (بناؤ‘ چلاؤ اور حکومت کے حوالے کرو) کی بنیاد پر تھا۔ٹرین اپنی بجلی
مزید پڑھیے


اِک چراغ اور چراغ اور چراغ اور چراغ

منگل 09 فروری 2021ء
ہارون الرشید
معاشرے کے سب سے بڑے دشمن شاید وہ دانشور ہیں، جوصبح شام مایوسی کا گیت گاتے ہیں جو بتاتے ہیں کہ ہماری تقدیر کا انحصار نیم خواندہ سے چند لیڈروں پر ہے۔ اقبالؔ سے تو وہ کچھ نہ سیکھ سکے، ڈاکٹر شان اینکر ہی سے سیکھ لیں۔ ایک طالب علم نے ڈاکٹر شان اینکرکے نظریے پر روشنی ڈالی تو وہ نکتہ اور بھی اجاگر ہوا، جس پر بہت دن سے سوچ رہا تھا۔ شان اینکر آکسفرڈ یونیورسٹی میں نفسیات کے استاد ہیں۔ اپنی تعلیم مکمل کر چکے تو انہیں اپنی مادرِ علمی سے وابستہ رہنے کی پیشکش ہوئی۔ آکسفرڈ یونیورسٹی
مزید پڑھیے


سوال کرنا پڑتا ہے، جواب ڈھونڈنا پڑتا ہے

بدھ 03 فروری 2021ء
ہارون الرشید
اطلاعات کا بے ہنگم طوفان نہیں، آدمی کو حکمت درکار ہے اور حکمت بازار میں نہیں بکتی۔ علم سے پھوٹتی ہے، تربیت سے صیقل ہوتی ہے۔ سوال کرنا پڑتا ہے، جواب ڈھونڈنا پڑتا ہے۔ گاڑیوں کی قطار رینگتی رہی‘ حتیٰ کہ پاکستانی کرنل ایک ذرا سا مضطرب ہوا۔ ایک مطالعاتی دورے پر وہ جرمنی آیا تھا۔ دروازہ کھول کر اس نے نظر دوڑائی۔ بائیں ہاتھ اتنی بہت سی جگہ خالی تھی۔ میزبان سے اس نے پوچھا: موقع سے فائدہ اٹھانے میں حرج کیا ہے؟ ایسا نہیں کہ حد سے زیادہ وہ بے چین تھا اور ایسا نہیں کہ مہمان کی
مزید پڑھیے


عزمِ سفر بھی لوٹا

جمعرات 28 جنوری 2021ء
ہارون الرشید
غالبؔ نے کہا تھا: گھر میں تھا کیا کہ ترا غم جسے غارت کرتا۔ دل میں تھی اک حسرتِ تعمیر سو ہے۔ افسوس کہ حسرتِ تعمیر بھی غارت ہونے لگی۔ قافلے لٹتے ہی رہتے ہیں گزرگاہوں میں لوٹنے والوں نے کیا عزمِ سفر بھی لوٹا؟ ایک نجی یونیورسٹی کے واقعے نے دہلا کر رکھ دیا۔ جامعات میں جانے کا اتفاق ہوتا ہے۔ حسنِ ظن رکھنے والے یاد کرتے ہیں تو سویا ہوا دل جاگ اٹھتا ہے۔ طلبہ سے بات کرنے کے لیے تیاری کرنا پڑتی ہے۔ اگر وہ بے باکی سے سوال کرنے والے ہوں تو ان کے استفسارات سے سیکھنے
مزید پڑھیے


عمران حکومت کیا رخصت ہونے والی ہے؟

بدھ 27 جنوری 2021ء
ہارون الرشید
حکم لگانے کی بجائے ابھی شاید انتظار کرنا چاہئیے۔ کوئی دن اور، کوئی دن اور۔ دیکھیے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا گنبدِ نیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا آنے والا کل کیا لائے گا؟ عمران خان کا اقتدار باقی رہے گا یا نہیں۔ اگر نہیں تو اس کی جگہ ٹیکنو کریٹس لیں گے یا کوئی اور؟ نئے الیکشن برپا ہوں گے یا اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے کوئی ایک پارٹی یا بھان متی کا ایک اورکنبہ؟ 92نیوز کے ٹی وی پروگرام میں عرض کیا تھا کہ ٹیکنو کریٹس کی حکومت کا ایک منصوبہ زیرِ غور ہے۔ اصرار کے ساتھ یہ
مزید پڑھیے








اہم خبریں