Common frontend top

ہارون الرشید


ایک اور فصل پک چکی؟


ابدیت سفر کو ہے، مسافر کو نہیں۔ طاقت قانون کی ہے، افراد کی نہیں۔ جو کوئی بھی فریبِ نفس کا شکار ہوا، تاریخ کے کوڑے دان میں ڈالا گیا۔ کبھی کسی کے لیے اصول بدلا ہے، نہ بدلے گا۔ ایسا لگتاہے کہ سیاسی گردنوں کی ایک اور فصل پک چکی۔ یہ ملک کن عظیم ہستیوں نے بنایا تھا اور کن کے حوالے ہوگیا۔ دن رات گریہ کرنے یا خود کو حالات کے حوالے کر دینے کی بجائے، رک کر سوچنا چاہیے کہ ایسا کیوں ہوا؟جس کسی کو بھی اختیارملتاہے، قوم کی سزا کیوں بن جاتاہے؟ رحمتہ اللعالمینﷺ کو اپنی امّت
منگل 26 جنوری 2021ء مزید پڑھیے

یا رب

جمعه 22 جنوری 2021ء
ہارون الرشید
زندگی عمل ہے لیکن عمل کا آغاز کیا دعا اور یکسوئی سے نہیں ہوتا؟ 17دسمبر 1971ء کی وہ خوں ریز شام، جب پاکستان کا پیکر دو حصوں میں کاٹ دیا گیا۔ دوسروں کی طرح اس آدمی کے دل پر بھی ایک کچل ڈالنے والی بھاری پتھر کی طرح گری تھی لیکن وہ شام اسے ہلاک نہ کر سکی۔ وہ دوسروں سے بہت مختلف تھا۔ اپنے مالک سے اس نے اپنی جان کا سودا کر لیا تھا۔ نہیں، وہ ایسا نہیں تھا کہ اس کے گرد روشنی کا ہالہ ہو اورخلقِ خدا اس کے ہاتھ چومنے کو ٹوٹی پڑتی ہو۔ وہ تودوسروں جیسا
مزید پڑھیے


ہارن کھیڈ فقیرا

بدھ 20 جنوری 2021ء
ہارون الرشید
معلوم نہیں کہاں سے پوٹھوہار کے اس لافانی شاعر میاں محمد بخش کی آواز سنائی دی ۔ جتن جتن ہر کوئی کھیڈے‘ ہارن کھیڈ فقیرا جتن دا مل کوڈی پیندا‘ ہارن دا مل ہیرا صاحب بقا نے یہ کہا تھا‘ بقا اسی کو ہے‘ جس کاوجود دوسروں کے لیے منافع بخش ہو۔ رات سوچا‘ شاعری آدمیت کے لیے کیا لاتی ہے۔ تین بجے تھے‘ جب آخری شاعر کا چراغ بجھا۔ شام آٹھ بجے سے یہ سلسلہ جاری تھا۔ خود اپنے ٹمٹماتے دیے کی بجھتی ہوئی لوکو بہت اذیت کے ساتھ بچانے کی کوشش کرتا رہا... تکان آنکھوں تک آ گئی‘ آنی ہی تھی۔ لاہور سے
مزید پڑھیے


وسوسے قطار اندر قطار آتے ہیں

منگل 19 جنوری 2021ء
ہارون الرشید
ہم سب پہ اللہ رحم کرے۔ یکسوئی سے ہم محروم ہیں۔ وسوسے قطار اندر قطار آتے ہیں اور آتے ہی چلے جاتے ہیں،سبب معلوم۔ حاجی نیامت کا قصّہ بارِ دگر۔ ایک انتخابی مہم کے دوران ان سے ملاقات ہوئی اور تکلف کا وقت نہ تھا۔ تجربہ تھا اور نہ ذوق۔ اوکھلی میں سر دیا تھا اور موسلوں سے ڈرتا تھا۔ حاجی صاحب نے کہا: گھبرایئے نہیں، 120کونسلر دسترس میں ہیں۔ ان کی آواز میں اعتماد بہت تھا مگر اندیشہ پلتارہا۔ جو آدمی اپنا نام ''نعمت‘‘ کی بجائے ''نیامت‘‘ بتاتا ہے، اس کے خلوص پہ بھروسہ مگر استعداد کس قدر؟ پیمان
مزید پڑھیے


خم و پیچ

جمعرات 14 جنوری 2021ء
ہارون الرشید
بے معنی بحثوں میں الجھے دانشور اور ان کی موشگافیاں ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا اپنی فطرت کے خم و پیچ میں الجھا ایسا آج تک فیصلہِء نفع و ضرر کر نہ سکا رات کا ایک بجا ہے اور آنکھیں نیند سے بوجھل۔ صبح سویرے سفر درپیش ہے۔ تکان کچھ زیادہ پریشان نہیں کرتی۔ سو کر اٹھیں گے تو انشاء اللہ ایک تازہ سحر کی نمود ہو گی۔ مسافرت طویل ہے تو کیا‘ اختتام پر ایک پورا دن آرام کیا جا سکتا ہے۔ اذیت دینے والی چیز دوسری ہے۔
مزید پڑھیے



رائیگاں

بدھ 13 جنوری 2021ء
ہارون الرشید
بساط کب لپیٹی جائے گی۔ ندیوں، آبشاروں اور سبزہ و گل سے آراستہ اس نیلگوں سیارے پرآدمی کو کب تک جینا ہے۔Brief History of Timeکے مصنف،اس نادرِ روزگار سٹیفن ہاکنگ نے کہا تھا:زیادہ سے زیادہ ایک سو برس۔کچھ دوسرے نابغہ یہ کہتے ہیں کہ چار ساڑھے چار سو برس۔ کروڑوں سال سے اچھلتی کودتی حیات کو پھر بجھ جانا ہے۔ پہاڑ جب روئی کے گالوں کی طرح اڑ جائیں گے، ریت کے ذروں کی طرح بکھر جائیں گے۔ کل شب دہلا دینے والا ایک حادثہ ہوا۔ سسکیوں اور آہوں کے درمیان عمر اقبال نے کہا: دادا جی فوت ہو گئے۔
مزید پڑھیے


جمہوریت

منگل 12 جنوری 2021ء
ہارون الرشید
صوفی تو کیا، شاعر وہ باکمال تھا، حسین بن منصور حلّاج۔اس نے کہا تھا: میں ان کے لیے روتا ہوں، جو چلے گئے اور ان کے لیے جو راستوں میں سرگرداں ہیں۔ یہ عبارت اس حال میں لکھی جا رہی ہے کہ پروفیسر احمد رفیق اختر پندرہ بیس سامعین کے مقابل موتی رول رہے ہیں۔ انہوں نے طلب کیا تھااور اصرار کے ساتھ ،لیکن اب کچھ انتظار کرنا ہوگا۔ایسا ہی ایک تجربہ تہران میں کیا تھا۔ 2013ء کے موسمِ بہار میں۔قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر آموختہ دہراتے رہے اور میں ان کے سامنے بیٹھا خامہ فرسائی کرتا رہا۔میرے ساتھی اخبار نویس
مزید پڑھیے


تضادات

جمعرات 31 دسمبر 2020ء
ہارون الرشید
مولانا فضل الرحمٰن اور میاں محمد نواز شریف کے پلّے کیا ہے کہ بیک وقت اسٹیبلشمنٹ اور کپتان کو للکاریں؟یہی بنیادی تضاد ہے،باقی تفصیلات۔ لاہور اسلام آباد موٹر وے پر کوہستانِ نمک سے نیچے اتریں تو ایک بورڈ نمایاں نظر آتاہے "slippery when wet"۔ سڑک بھیگی ہو تو پھسلواں ہوجاتی ہے۔ پی ڈی ایم کی گاڑی پھسل گئی ہے۔بعض کا خیال تو یہ ہے کہ صرف تجہیز و تکفین باقی ہے۔ ناچیز کی رائے قدرے مختلف ہے۔ اب بھی ہوش مندی سے کام لیا جائے تو کامل تباہی سے بچا جا سکتاہے۔ پی ڈی ایم کی تباہی کا آغاز نواز
مزید پڑھیے


چشمِ اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے

بدھ 30 دسمبر 2020ء
ہارون الرشید
کیسے کیسے لوگ۔ کوئی پھول بن گیا ہے کوئی چاند کوئی تارہ/ جو چراغ بجھ گئے ہیں تری انجمن میں جل کے۔ غیر معمولی جذباتی توازن کی حامل شخصیات کا ایک نمایاں وصف یہ ہوتا ہے کہ وہ آسانی سے شاد یا رنجیدہ نہیں ہوتے۔ غم کا زہر پی کر امرت کر دیتے ہیں۔ شادمانی کو رگ و ریشے میں جذب کرتے ہیں، شاخِ گل میں جس طرح بادِ سحر گاہی کانم۔ عصرِ رواں کے عارف سے ایک شب عرض کیا:ایک آرزو نے دل میں جنم لیا ہے: کاش کہ سرکارؐ سے متعلق قرآنِ کریم کی آیات یکجا کر کے ان
مزید پڑھیے


امید پہ دنیا قائم ہے

منگل 29 دسمبر 2020ء
ہارون الرشید
عروج کی طرح زوال بھی ہمہ گیر ہوتا ہے۔ سیاست میں کبھی قائد اعظم تھے۔ اب زرداری صاحب، میاں محمد نواز شریف اور عمران خان۔ ظفر علی خان اور محمد علی جوہر صحافت کی آبرو تھے۔ اب مجھ ایسے کج مج بیاں۔ اللہ جانے زوال کا یہ سفر کب تھمے گا۔ امید پہ دنیا قائم ہے۔ محترمہ مریم نواز سے تو عرض نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے والدِ گرامی سے التماس ہے کہ آگ اتنی نہ بھڑکائیں کہ سب کچھ ہی جل بجھے۔ انچاس برس ہوتے ہیں، پیپلز پارٹی کا ایک جلوس میکلوڈ روڈ سے گزرا۔ روزنامہ کوہستان مرحوم
مزید پڑھیے








اہم خبریں