Common frontend top

ہارون الرشید


ماتمِ یک شہر آرزو


کب تک، آخر کب تک تاریخ کے چوراہے پرہم پڑے رہیں گے؟ کب ہماری آنکھ کھلے گی۔ کب سوچیں گے؟ کب تجزیہ کریں گے؟ سوئے منزل کب روانہ ہوں گے؟ پاکستان الیکشن کمیشن اور پی ٹی آئی کے تنازعے کو چھوڑیے۔ رات دن گردش میں ہیں سات آسماں ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا سوال یہ ہے کہ آئے دن اداروں میں تصادم کیوں ہے۔ کیسا یہ سماج ہے، بنیادی تضادات بھی جو حل نہیں کر سکتا۔ کہا یہ گیا تھا کہ پاکستان اسلام کی تجربہ گاہ ہوگا۔ سماجی اور معاشی انصاف کا نمونہ، پولیس، عدلیہ اور افسر
بدھ 17 مارچ 2021ء مزید پڑھیے

بت خانے کے دروازے پہ سوتا ہے برہمن

منگل 16 مارچ 2021ء
ہارون الرشید
برصغیر کے مقدر میں کشمکش ہے، جسے شائستہ اور مہذب کرنا چاہیے۔ یکایک دوستی کا تصور احمقانہ ہے کہ اوّل دشمنی ختم کی جاتی ہے۔اس کے بعد کسی پیش رفت کا امکان جنم لیتاہے۔ ہمارے ہاں بھی احمقوں کی تعداد کم نہیں مگر بھارتی سیاست کے تیور نرالے۔ دلّی حکومت بات چیت میں لگی ہے۔ بھارتی میڈیا نے حسبِ معمول آسمان سر پہ اٹھا رکھا ہے۔ بت خانے کے دروازے پہ سوتا ہے برہمن تقدیر کو روتا ہے مسلماں تہہِ محراب ذمہ دار ذرائع کا دعویٰ ہے کہ پاک بھارت تعلقات کی گرہیں کھولنے کے لیے ایک خاموش لیکن بھرپور
مزید پڑھیے


دفاع اور معیشت

جمعرات 11 مارچ 2021ء
ہارون الرشید
خان صاحب کو سوچنا ہوگاورنہ دوسروں کی طرح وہ بھی رزقِ خاک ہو جائیں گے۔ دوسرے قہرمانوں کی طرح، نامراد۔ اس خطے کی ہر معیشت ہم پہ بازی لے گئی۔ بھارتی روپیہ کبھی ہم سے آدھا تھا، دو گنا ہو چکا، حتیٰ کہ بنگلہ دیشی ٹکا بھی۔ ڈھاکہ میں زرِ مبادلہ کے ذخائر ہم سے دو گنا ہیں۔ بھارتی معیشت نو گنا بڑی۔کرونا سے مغربی معیشت برباد ہوئی تو بھارتی ماہرین چیخے کہ سرمایہ کاری اب وہاں سے نہیں ہوگی۔ شتابی سے نریندر مودی نے یوٹرن لیا اور چینی سرمایہ کار کمپنیوں پر عائد پابندی ختم کر دی۔
مزید پڑھیے


شرم تم کو مگر نہیں آتی

بدھ 10 مارچ 2021ء
ہارون الرشید
کوئی جائے اور جا کر انہیں بتائے کہ بربادی کے سوا وحشت سے کبھی کسی کو کچھ حاصل نہ ہوا۔بدزبانی سے سیاستدان اپنی جڑیں کھود رہے ہیں۔ بگٹٹ تاریخ کے کوڑے دان کو روانہ ہیں۔ دیکھے ہیں بہت ہم نے ہنگامے ’’محبت‘‘ کے آغاز بھی رسوائی، انجام بھی رسوائی اس دن کا صدمہ جی سے جاتا ہی نہیں۔ اقتدار کے بھوکے ایک دوسرے کی کردار کشی کے درپے رہا ہی کرتے ہیں۔ اس دن تو آخری حد سے بھی گزر گئے۔ المیہ یہ کہ کسی کو پرواہ ہی نہیں۔ جناب روحیل اصغر نے گندی گالیاں بکیں۔ پی ٹی آئی کے
مزید پڑھیے


منفرد

منگل 09 مارچ 2021ء
ہارون الرشید
ڈاکٹر خورشید رضوی سے پہلی ملاقات جدہ میں میاں محمد خالد حسین کے وسیع و عریض ڈرائنگ روم میں ہوئی۔ خالد صاحب مہمانوں کے تعارف میں تعجیل کرتے ہیں لیکن اس دن وہ بھول گئے۔ڈاکٹر صاحب موتی رول رہے تھے۔ کچھ اشعار ان کے سن رکھے تھے۔ان کے باذوق شاگرد فاروق گیلانی سے،غیر معمولی حافظے کے اظہر سہیل سے دو حرف تسلی کے جس نے بھی کہے اس کو تصویر دکھا ڈالی، افسانہ سنا ڈالا جو کھلی کھلی تھیں عداوتیں،مجھے راس تھیں وہ جو زہر خند سلام تھے،مجھے کھا گئے کچھ شعر ایسے ہوتے ہیں کہ سنتے ہی دل و دماغ پہ
مزید پڑھیے



ایک سپاہی کی یاد

جمعرات 04 مارچ 2021ء
ہارون الرشید
سینیٹ انتخابات میں اخلاقی افلاس سے اس جواں مردسپاہی کی یاد قلب و جاں میں چمک اٹھی۔کاش کہ ہماری سیاست اور اسٹیبلشمنٹ میں بھی ایسے کچھ امانت دار موجود ہوتے۔ادبار سے ہم بچ نکلتے، ضرور بچ نکلتے۔ فاروق گیلانی کے لہجے میں کسی چونکا دینے والی دریافت کی سرشاری تھی۔ ایک فوجی افسر کا ذکر کیا۔ وزارتِ زراعت جنگل اگاتی ہے۔ ادائیگی مشروط ہے کہ خاردار تار قائم ہو اور اسّی فیصد پودے صحت مند۔ بریگیڈیئر سے پوچھا: کتنے فیصد؟ جواب ملا: سوفیصد۔ حیرت سے سوال کیا کہ یہ کس طرح ممکن ہے؟ وجیہہ آدمی بولا: اس لیے کہ 120فیصد
مزید پڑھیے


گنجِ گمشدہ کی طرح

بدھ 03 مارچ 2021ء
ہارون الرشید
دل میں درد اور ذہن میں شعور کارفرما ہو، مشاورت اہلِ دانش سے ہو تو معجزے رونما ہوتے ہیں۔ باتوں سے نہیں، زندگی عزم و عمل کے ولولے سے تعمیر ہوتی ہے۔کپتان کو کوئی بتائے کہ خلقت پامال اور ملک کی سب سے بڑی دولت برباد ہوئی جاتی ہے۔ پاکستانی زراعت پیہم زبوں حال کیوں ہے؟ گرتے گرتے کپاس کی پیداوار ایک کروڑ چالیس لاکھ سے پچپن لاکھ گانٹھ رہ گئی۔ کپاس کے پھول دیکھ کر دل دکھتا ہے۔گویا پولیو کا مارامعصوم بچّہ۔ حکومتیں بے نیاز رہیں، بالکل بے نیاز۔ شعیب بن عزیز کا شعر ہے کچھ اپنے دل کی
مزید پڑھیے


ریگِ رواں پہ نقشِ قدم اور کتنی دیر

منگل 02 مارچ 2021ء
ہارون الرشید
نہیں، تادیر یہ تماشہ باقی نہ رہے گا۔ یہ بساط اب الٹنے والی ہے۔ کوئی دن جاتا ہے کہ دھماکہ ہو جائے گا۔ ریگِ رواں پہ نقشِ قدم اور کتنی دیر۔ایسے ہی بدنما کردار تھے، اقبالؔ نے جن کے بارے میں کہا تھا ابلیس کے فرزند ہیں ارباب سیاست اب باقی نہیں میری ضرورت تہہِ افلاک سپریم کورٹ کا فیصلہ بالاخر کیا نتائج مرتب کرے گا؟ ابھی کچھ کہنا مشکل ہے۔ گستاخی معاف،محسوس یہ ہوتاہے کہ معزز جج حضرات کے احتیاط کی حدود خوف سے جا ملیں۔ کسی ایک یا دوسرے فریق کی ناخوشی کا اندیشہ کہ عدالت کو جانبدار کہا
مزید پڑھیے


بھٹو اور ضیاء الحق

جمعرات 25 فروری 2021ء
ہارون الرشید
اقوام کی نشو ونما کاانحصار حکام نہیں بلکہ عوام کی بیداری پر ہوتا ہے۔ علمی فروغ، جذباتی اور فکری توازن میں،مگر افسوس کہ محبت اور نفرت تجزیہ کرنے نہیں دیتی۔ دیا جلانے نہیں دیتی۔ وزیرِ اعلیٰ کی بساط الٹ دی جاتی لیکن پھر جنرل محمد ضیاء الحق لاہور پہنچے۔ پنجاب اسمبلی کے ایوان میں کھڑے ہو کر انہوں نے اعلان کیا: نواز شریف کا کلّہ مضبوط ہے اور خدا کرے کہ میری عمر بھی اسے لگ جائے۔ 12اکتوبر 1999ء کے فوجی انقلاب میں اگرنواز شریف الگ نہ کر دیے جاتے تو کیا آج بھی شریف خاندان ان کے مزار پہ
مزید پڑھیے


ڈسکہ میں کیا ہوا؟

بدھ 24 فروری 2021ء
ہارون الرشید
سانحہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں خود کو رسوا کر رہی ہیں۔ ہیجان میں مبتلا، کمزور سے کمزور تر اور اسٹیبلشمنٹ مضبوط تر۔ وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا ڈسکہ کے الیکشن میں اصل سوال دھاندلی کا نہیں بلکہ فریقین کا اخلاقی افلاس۔ میڈیا بھی کنفیوژن پھیلانے کا ذریعہ بنا، حقائق واضح نہ کر سکا۔ کئی معتبر اخبار نویس بھی جذبات کا شکار ہو ئے۔ ہمیشہ تعجب رہا کہ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کے ہاتھ میں کون سا ہنر ہے کہ جنرل پرویز مشرف، آصف علی زرداری اور پھر کپتان کے لیے بھی قابلِ قبول
مزید پڑھیے








اہم خبریں