Common frontend top

ہارون الرشید


درویشی بھی عیّاری ہے سلطانی بھی عیاّری ہے


کسی قوم کا مزاج صدیوں میں ڈھلتا ہے اور محض نعروںِ سے بدل نہیں سکتا‘ پیہم ریاضت کا مطالبہ کرتا ہے‘ یہ پیہم ریاضت کا۔ مولانا فضل الرحمن کے بارے میں ناچیز کی رائے ڈھکی چھپی نہیں۔ ایک بات سمجھ میں آئی نہیں آئی۔ ان کے خلاف بغاوت اور جمعیت کی شکست و ریخت پر شادیانے کیوں بجائے جا رہے ہیں۔ سبکدوشی کے کئی برس بعد‘ جنرل مشرف کے ایک نائب نے اپنی خودنوشت رقم کی۔خودنوشت کیا‘ اپنے سابق باس کو انہوں نے چارج شیٹ کیا۔ایک سابق چیف آف آرمی سٹاف نے انہی دنوں ملاقات ہوئی۔ عرض کیا کہ
جمعرات 24 دسمبر 2020ء مزید پڑھیے

لاہور کی مال روڈ سے پوچھ لو

بدھ 23 دسمبر 2020ء
ہارون الرشید
اسرائیل کو تسلیم کرنے کی جس نے بھی جسارت کی، المناک انجام سے دوچار ہو گا۔ اینکر منصور علی خاں نے سچ کہا ’’لاہور کی مال روڈ سے پوچھ لو۔‘‘ اب ایک اور آواز اٹھی ہے۔ ایک نوجوان اینکر،جو کچھ عرصہ پہلے تک پاکستان میں جگمگایا کرتا۔ اب ایک اسرائیلی ٹی وی پہ نمودار ہوا۔فرمایا: پاکستانی عوام تیار ہیں۔ پاکستان اور اسرائیل میں کوئی تلخی،تنازعہ اور تصادم نہیں۔ ارشاد کیا: عمران خان ہی فیصلہ کر سکتا ہے کہ معتدل مزاج ہے۔ تجویز کیا کہ خان کی مدد کی جائے۔ بس ایک دھکے کی ضرورت ہے۔باہر سے لگے اور اندر سے بھی۔صیہونی
مزید پڑھیے


ہے شباب اپنے لہو کی آگ میں جلنے کا نام

منگل 22 دسمبر 2020ء
ہارون الرشید
تاریخ کوئی دوسرا خالد نہیں جنے گی۔ اس لئے کہ سرکارؐ اب کبھی نہ آئیں گے اور کسی کو سیف اللہ کا خطاب نہ دیں گے۔فرد ہو یا امت‘سہل پسندوں کو دلدل کے سوا کچھ نصیب نہیں ہوتا۔ پچھلے پندرہ دن فراغت کا بڑا حصہ ایک ضخیم کتاب کی نذر ہوا۔ کل شب آخری ورق پڑھا تو عالم یہ تھا کہ آنکھیں آنسوئوں سے بھری ہوئی۔ اپنی اور اپنی قوم کی درماندگی کا اذیت ناک احساس۔ کہاں سے آغا زکیا تھا اور کہاں آ پہنچے۔ کمالِ ریاضت اور کمال عرق ریزی سے لکھی گئی‘ یہ تاریخ کے سب سے بڑے فاتح کی
مزید پڑھیے


کل ایک اور معجزہ سرکارؐ کا دیکھا

جمعرات 17 دسمبر 2020ء
ہارون الرشید
ایک بار پھر اقبالؔ کو یاد کیجیے: اس کرّہ ء خاک پہ جہاں کہیں روشنی ہے، مصطفیؐ کے طفیل ہے یا مصطفیؐ کی تلاش میں۔ دنیا کے دو سو ممالک میں سے کوئی ایک بھی کرونا سے بچا نہیں۔ ممکن ہے، کوئی گاؤں موجود ہو لیکن کوئی شہر اور قصبہ نہیں۔ ہاں مگر ایک شہر ایسا ہے، جہاں کرونا کا کوئی شکار نہیں اور اگر ہے تو برائے نام۔ حیران کن بات یہ ہے کہ یہ پاکستانی شہر ہے اور ایسا شہر، جہاں ووہان سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں چینی موجود ہیں، جہاں سے یہ وبا پھوٹی اور ساری
مزید پڑھیے


جس طرح تارے چمکتے ہیں اندھیری رات میں

منگل 15 دسمبر 2020ء
ہارون الرشید
ایسے ہی لوگ ہیں جن سے اکتسابِ نور کیا جاتا ہے ۔ ایسے ہی لوگ ہیں جن کے بارے میں بیسویں صدی کے علمی مجدد نے یہ کہا تھا: توفیق عمل مانگ نیاگان کہن سے شاہاں چہ عجب گربنوازند گدار کبھی مزاحیہ کارٹون فلم کے کارٹونوں کی طرح سیاستدانوں کو دیکھ دیکھ کر دل بجھنے لگتا ہے ۔ تب حافظہ تلاش میں نکلتا ہے۔ چند عشرے پہلے کے وہ روشن کردار جو مشعلوں کی طرح اجالا کیے رکھتے: مرنے والوں کی جبیںروشن ہے ان ظلمات میں جس طرح تارے چمکتے ہیں اندھیری رات میں چار پانچ دن پہلے مولانا محمد علی جوہر کا یوم وفات
مزید پڑھیے



دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام

جمعرات 10 دسمبر 2020ء
ہارون الرشید
اقتدار سے جنون اور غلبے کی جبلّت میں‘ دانش کا چراغ بجھ جاتا ہے۔ ذہن کام ہی نہیں کرتا۔ سب سبق بھول جاتے اورسب آموختے ہوا ہوتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ایک بار پھر انہی کو مداخلت کرنا ہو گی‘ ایسے میں جو ہمیشہ کرتے آئے ہیں۔ کورونا ہے‘ باہمی اختلافات ہیں اور سخت ترین سرد موسم کی پیش گوئی‘فرض کیجیے‘ ان سب رکاوٹوں پر قابو پا لیا جائے؟۔فرض کیجیے‘ سب راستے ہموار ہو جائیں۔تمام تر موانع اور مشکلات پر قابو پا لیا جائے تو آخری نتیجہ کیا ہو گا؟۔ فرض کیجیے‘ عوام کے ہجوم امڈ پڑیں‘ اسٹیبلشمنٹ پیچھے ہٹ جائے
مزید پڑھیے


کہاں گئے شب فرقت کے جاگنے والے

منگل 08 دسمبر 2020ء
ہارون الرشید
اللہ کا وعدہ یہ ہے کہ خلوص اور حکمت کبھی رسوا نہیں ہوتے۔ پھر یہ کہ راہِ محبت میں پہلا قدم ہی شہادت کا قدم ہوتاہے۔ کہاں گئے شب فرقت کے جاگنے والے ستارہء سحری ہم کلام کب سے ہے اورنگ زیب عالمگیر نے تلوار نیام میں ڈالی اور بسترِ مرگ پر لیٹ گیا۔چالیس سال تک اسی تلوار کے دستے پر ہاتھ رکھ کر اس نے بر صغیر پر حکومت کی تھی۔ برصغیر کیا، افغانستان اور وسطی ایشیا پر بھی۔ کوئی دن پہلے شیوا جی کا خط ملا کہ یہ تمہارے اللہ اللہ کرنے کے دن ہیں۔ سلطان نے
مزید پڑھیے


شہنشاہ

پیر 07 دسمبر 2020ء
ہارون الرشید
کوئی انہیں بتائے کہ شہنشاہوں کے زمانے لد گئے اور کبھی لوٹ کر نہ آئیں گے۔ قوموں کی اقتصادی، سیاسی اور سفارتی ترجیحات اب خود اقوام طے کرتی ہیں، لیڈر لوگ نہیں۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا فیصلہ قوم کو کرنا چاہئیے یا فقط اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کی چند جید شخصیات کو؟اس پہ ریفرنڈم برپا ہوناچاہئیے یا قومی اسمبلی میں بحث۔ ایک نظریاتی ریاست کی بنیادی ترجیحات کے بارے میں کوئی فیصلہ بند کمرے میں کیسے ہو سکتاہے۔آئین کی تشکیل اور تحریکِ ختم نبوت کی طرح یہ فیصلہ بھی قوم کرے گی۔ واٹر گیٹ سکینڈل میں صدر نکسن اس طرح
مزید پڑھیے


رفتید ولے از نہ دلِ ما

جمعرات 03 دسمبر 2020ء
ہارون الرشید
مرحوم کی خطائیں غفور الرحیم معاف فرمائے۔ نیکیاں قبول فرمائے اور ان کی مرقد پہ نور برستا رہے۔ رفتید ولے از نہ دلِ ما عبد القادر حسن بھی چلے گئے۔عمر بڑھ گئی تھی اور صحت خراب۔ ویسا ہی مگر دھچکا لگا، جیسے کسی جواں عمر پر۔ جدید کالم نگاری میں ان کی حیثیت ایک استاد کی تھی۔ناچیز سمیت بہت سوں نے ان سے سیکھا۔ ایک بار اچانک کہا: مصرعے کی طرح جملے کا بھی ایک وزن ہوتاہے۔ بے شک اکثر لکھنے والے اس راز سے بے خبر ہیں۔ اب تو ماشاء اللہ انگریزی اور پنجابی کے الفاظ اس کثرت
مزید پڑھیے


شہبازشریف کا نیشنل ڈائیلاگ

بدھ 02 دسمبر 2020ء
ہارون الرشید
تو کیا تمام دروازے بند ہیں؟ جی نہیں سب دروازے کبھی بند نہیں ہوتے۔ یہ ابدی قوانین کیخلاف ہے۔ تو پھر کون ہے جو در کھول سکتا ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ صرف اسٹیبلشمنٹ، ہاں! مگر کس طرح اور کون اسے آمادہ کریگا۔ اس پر پھر کبھی۔ آپ بھی سوچئے، میں بھی سوچتا ہوں۔ قومی سطح کے جامع مذاکرات سے مراد کیا ہے؟’’نیشنل ڈائیلاگ‘‘ کل رات گئے تک شہباز شریف کے حوالے سے جس کا ذکر رہا۔ نون لیگ کے صدر کیا اس باب میں کوئی بنیادی اور اہم کردار ادا کر سکتے ہیں؟ بھتیجی کا طرزِ احساس ان
مزید پڑھیے








اہم خبریں