تو کیا تمام دروازے بند ہیں؟ جی نہیں سب دروازے کبھی بند نہیں ہوتے۔ یہ ابدی قوانین کیخلاف ہے۔ تو پھر کون ہے جو در کھول سکتا ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ صرف اسٹیبلشمنٹ، ہاں! مگر کس طرح اور کون اسے آمادہ کریگا۔ اس پر پھر کبھی۔ آپ بھی سوچئے، میں بھی سوچتا ہوں۔ قومی سطح کے جامع مذاکرات سے مراد کیا ہے؟’’نیشنل ڈائیلاگ‘‘ کل رات گئے تک شہباز شریف کے حوالے سے جس کا ذکر رہا۔ نون لیگ کے صدر کیا اس باب میں کوئی بنیادی اور اہم کردار ادا کر سکتے ہیں؟ بھتیجی کا طرزِ احساس ان سے مختلف ہے، عملاً جو پارٹی لیڈر کا کردار ادا کر رہی ہیں۔ عدالتِ عظمیٰ سے نا اہل قرار پانے کے بعد میاں محمد نواز شریف نے اپنے بھائی کو جماعت کی قیادت سونپی۔ صاف الفاظ میں اعلان کیا کہ باقی ماندہ مدت کے لیے وہ ملک کے وزیر اعظم ہوں گے لیکن پھر کیا ہوا؟ برائے نام پارٹی کی صدارت تو ان کے پاس رہی لیکن وزارتِ عظمیٰ شاہد خاقان عباسی کے حوالے کر دی گئی۔ اس ناچیز سمیت، بہت سے لوگ جنہیں ایک مرد شریف خیال کرتے ہیں لیکن بہت سے اخبار نویسوں اور سیاستدانوں کی رائے میں، وہ محض شریفوں کا ایک مہرہ ہیں۔ اس سلسلے میں قطر میں سوئی گیس کے سودے اور ایل این جی کے دو عدد Terminals کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ باخبر صحافیوں کا اصرار ہے کہ ٹرمینل حکومت خود تعمیر کر سکتی تھی، زیادہ سے زیادہ چار پانچ ارب روپے میں، مگر ان پر 13ارب روپے فی کس ’’لاگت‘‘ آئی۔ اس لیے کہ یہ نجی کمپنیوں کے حوالے کر دیئے گئے۔ استعمال ہوں یا نہ ہوں، سرکاری خزانے سے‘ ہر روز 5لاکھ ڈالر کی ادائیگی کرنا پڑتی ہے۔ اس سوال کا بھی کبھی جواب نہیں دیا گیا کہ آخری دنوں میں، ترقیاتی منصوبوں کے نام پر 200ارب روپے کی جو رقوم ارکان اسمبلی کی خواہش پر انہوں نے جاری کیں، اس کا جواز کیا تھا۔ سابق سینیٹر طارق چوہدری کا شمار سیاسی حرکیات کے شناوروں میں ہوتا ہے۔ خاقان خاندان سے ان کے دیرینہ مراسم ہیں۔ ان سے پوچھا تو یہ کہنے پر اکتفا کیا ’’وہ بہت ہی سادہ آدمی ہیں‘‘ اس کا مطلب کیا ہے؟ کیا وہ صرف ثانوی حیثیت بروئے کار آ سکتے ہیں۔ ضرورت پڑنے پر ایک قومی قائد کا کردار ادا نہیں کر سکتے، بہت سے لوگ، جس کی توقع لگائے بیٹھے تھے۔ ایک گہری اور طویل چھان بین کے بعد ہی اس سوال کا جواب دیا جا سکتا ہے۔ یہ بہرحال طے ہے کہ حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں، نون لیگ کی قیادت عملاً اب محترمہ مریم نواز کے ہاتھ میں رہے گی۔ اس لیے کہ ان کے والد محترم انہیں وزیر اعظم دیکھنا چاہتے ہیں۔ بیچارے اور بیمار نواز شریف ہی کیا، اس تمنا سے تو فخر افاغنہ،خان عبدالغفار خان، ان کے صاحبزادے‘ جید سیاستدان عبدالولی خان، بلوچ گاندھی عبدالصمد اچکزئی اور اجل عالم حضرت مولانا مفتی محمود بھی اوپر نہ اٹھ سکے۔ مفسرِ قرآن ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم بھی نہیں۔ ایک اور سوال بھی ہے۔ ٹی وی کے ایک مقبول پروگرام میں یہ سوال دانشور سجاد میر نے اٹھایا۔ مگر الیکٹرانک میڈیااور برق رفتاری میں اس کی تشنہ کامی!کیا جناب شہباز شریف نے ازخود جامع مذاکرات کا تصور پیش کیا یا ہمارے ہمیشہ بے چین اور بے قرار رہنے والے دوست سلمان غنی نے ان پہ تھوپ دیا؟ ’’ کیا آپ نیشنل ڈائیلاگ کے حامی ہیں‘‘؟ ان پیچیدہ حالات میں اس سوال کا جواب وہ کیا دیتے؟ شہباز شریف بے بس ہیں۔ جماعت پہ گرفت بڑے بھائی کی ہے۔ شخصیت پرست معاشرے میں پارٹی نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ فقط لیڈر ہوتا ہے اور اس کا خاندان۔ جسے پیا چاہے وہی سہاگن۔جماعت اسلامی ایسی مستثنیات بھی ہیں مگر مستثنیات ہی۔ اسّی برس بیتنے کو آئے۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی اور قاضی حسین احمد ایسی شخصیات‘ ایسے بھرپورلٹریچر‘قابل رشک نظم اور نسل در نسل ایثارکیش کارکنوں کی ایک بہت تعداد کے باوجود وہ کیا کر پائی؟ جعلی بینک کھاتوں والے الگ، وہ بھی کیا کرسکے؟ ہم سے بھی کیا ہو سکا محبت میں تم نے تو خیر بے وفائی کی محترمہ مریم نواز شریف ہی نہیں، بلاول بھٹو اور مولانا فضل الرحمن بھی اعلان کر چکے کہ عمران خان سے مذاکرات نہیں ہو سکتے۔ رہے خان صاحب تو حریفوں سے مکالمے کے قائل ہی نہیں۔ جن دنوں ان سے ملاقات رہتی تھی، اچانک ایک دن آنجناب نے خاکسار سے کہا:سیاسی پارٹیوں کی کسی کانفرنس میں آئندہ میں شریک نہیں ہوں گا۔ مجھے ان کی شکلوں سے وحشت ہوتی ہے۔ ایک بار تو نوابزادہ نصراللہ خان جیسے وضع دار بزرگ سے ملاقات کی دعوت بھی ٹھکرا دی تھی۔ سمجھایا بجھایا تو حفیظ خان کو بھیج دیا، پنجاب یونیورسٹی یونین کے سابق صدر! کسی قومی مکالمے کا امکان دور دور تک دکھائی نہیں دیتا۔ عربوں کے دور جاہلیت کی وہ خاتون سلمیٰ بھی اگر زندہ ہوتی‘ جو ساٹھ کوس تک دیکھ سکتی تھی، تو اسے بھی نظر نہ آتا۔ اس سے پہلے مگر ایک اور سوال۔ بالفرض محال کسی نہ کسی طرح،سیاسی لیڈر، ایک میز کے گرد جمع کر دیئے جائیں تو کیا ہو گا؟ عمران خان کے کارکن کیا انہیں سمجھوتے کی اجازت دیں گے؟ برسوں سے جنہیں وہ بتا رہے ہیں کہ کرپشن میں لتھڑی حریف پارٹیوں کو تباہ کرنے سے پہلے وہ دم نہیں لیں گے۔ اسی نعرے سے وہ ان کا خون گرماتے اور گرمائے رکھتے ہیں۔ محترمہ مریم نواز کے گرد گھیرائو ڈالے بزرجمہر؟ خوئے انتقام میں جو کپتان سے کم نہیں۔ عام مسلم لیگی کارکنوں اور ووٹروں کی بات یکسر دوسری ہے۔ مودبانہ عرض ہے کہ ان دانشوروں میں سے کم از کم تین ایسے ہیں، ملک کے ساتھ جن کی وفاداری مشکوک ہے۔ پنڈت جواہر لال نہرو کے چہیتے کرشنا مینن کی طرح۔ ابوالکلام آزاد کے بقول، ان کے نظریات اور وفاداری کا تمام تر انحصار ذاتی مفاد پر تھا۔ اپنی کتاب India wins freedom" " میں ابوالکلام نے کسمساتے ہوئے ان آنجہانی کا ذکر کیا ہے۔ ان صاحب کے بارے میں وہ تفصیل سے لکھنا چاہتے تھے کہ کس طرح نہرو کی خوشامد پسندی نے انہیں گوارا کیا اور پروان چڑھایا‘ مگر لکھ نہ سکے۔ اس ناچیز طالب علم کا جی چاہتا ہے کہ نواز شریف اور محترمہ کے ان تین مشیروں کے بارے میں وضاحت سے لکھے، جو انہیں بھارت نوازی کی طرف لے گئے۔ اس نابغہ کی طرح اس ادنیٰ اخبار نویس کی مشکل بھی وہی ہے۔ شخصیات کے بارے میں زیادہ اظہار خیال ممکن نہیں۔ ممکن ہوتا تو اول میں ان لوگوں کے بارے میں لکھتا، یکا یک جو اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حق میں اٹھے…اور پھر جھاگ کی طرح بیٹھ گئے۔ عزائم ان کے خطرناک تھے۔ مگر طوفانی ردعمل کے خوف نے پسپا ہونے پر مجبور کردیا۔کیا اپنے عزائم سے مستقل طور پر وہ دستبردار ہو چکے‘ یہ کہنا مشکل ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ سیاسی پارٹیوں کے درمیان مصالحت میں احتساب کے نعرے کا کیا ہو گا، جس کے بل پر عمران خان نے اقتدار حاصل کیا۔ جسے وہ بھول بھی جائیں تو ان کے حامی اور فعال طبقات میں آلودگی سے نفرت کرنے والے کبھی نہیں بھول سکتے۔ تو کیا تمام دروازے بند ہیں؟ جی نہیں سب دروازے کبھی بند نہیں ہوتے۔ یہ ابدی قوانین کے خلاف ہے۔ تو پھر کون ہے جو در کھول سکتا ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ صرف اسٹیبلشمنٹ، ہاں! مگر کس طرح اور کون اسے آمادہ کرے گا۔ اس پر پھر کبھی۔ آپ بھی سوچئے، میں بھی سوچتا ہوں۔