منو بھائی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں کہ ان کے ماموں ظہور نظر جب بھی لاہور آتے ان کی جیب مختلف طرح کی پرچیوں سے بھری ہوتی تھی ان پرچیوں پر دکھی لوگوں کے مسائل لکھے ہوتے ۔ اکثر کے لیے وہ منو بھائی سے کہتے کہ ان کے مسائل حل کرنے کی کوشش کریں۔ ایک دفعہ منو بھائی نے زچ ہو کر کہہ دیا کہ ماموں چھوڑو کس مصیبت میں پڑے رہتے ہو آرام سے نظمیں لکھو ،شاعری کرو ،ان غریب لوگوں کے مسائل حل کرنے کے لیے نہیں ہوتے۔ ماموں ظہور نظر نے ایک شگفتہ سے گالی دی اور کہا پتر جی منکر نکیر کو یہ نظمیں سمجھ میں نہیں آنی، نہ ہی یہ شاعری سمجھ آنی ہے۔ ایسے لگا کہ منو بھائی نے بھی ماموں ظہور نظر کی بات پلے سے باندھ لی تھی اور وہ خدمت خلق کے ساتھ جڑ گئے۔ انہوں نے اپنی زندگی تھیلیسیمیا کے مریض بچوں کے لئے وقف کر دی تھی۔ ہم نے وہ منظر دیکھا کہ اللہ تعالی کی مخلوق کے لیے کام آنے والے منو بھائی کو رونے کے لئے تھیلیسیمیا کے مریض بچے بھی موجود تھے ان کی مائیں بھی ،تراسی سالہ منو بھائی کا دنیا سے چلے جانا ان کے لیے سانحے سے کم نہ تھا ۔کہہ رہے تھے کہ آج ہم یتیم ہوگئے۔اللہ اپنی مخلوق کے ساتھ ہمدردی کرنے والوں اور ان کے دکھ درد کے لیے زندگی وقف کرنے والوں کو لوگوں میں محبوب بنا دیتا ہے۔ان کو دلوں میں بسا دیتا ہے۔ وہ دنیا سے چلے بھی جائیں تو لوگوں کے دلوں میں ان کی یادیں لو دیتی رہتی ہیں اس لیے کہ وہ اللہ کی مخلوق کے لیے انہوں نے اپنی زندگیاں گزاری ہوتی ہیں۔ امجداسلام امجد کی وفات کے بعد بھی کچھ ایسا ہی منظر دیکھنے میں آیا۔اندازہ نہ تھا کہ وہ اس طرح لوگوں کے دلوں میں بستے تھے اور اس کی وجہ صرف ان کی شاعری یا ان کی تخلیق کاری کے ساتھ کچھ اور بھی تھا جس کی اللہ کے ہاں قبولیت ہوچکی تھی۔۔شاعر اور تخلیق کار تو بہت ہوتے ہیں لیکن ایسی محبوبیت اور لوگوں کے دلوں میں یہ محبت ہر کسی کا نصیب نہیں ہوتی۔ یہ راز مجھ پر اس روز منکشف ہوا جب میں الخدمت فاؤنڈیشن کے اس تعزیتی ریفرنس میں شرکت کی جو امجد اسلام امجد کو یاد کرنے کے لیے منعقد کیا گیا۔ اس سے پہلے کم ازکم مجھے اندازہ نہیں تھا کہ امجد صاحب اللہ کی مخلوق کے لیے لیے اتنا کام کر رہے ہیں اور وہ اس نیکی کو دنیاوی نمائش کی آلائش سے بچا رکھتے ہیں۔ اس کا تذکرہ کبھی نہیں کرتے کبھی باتوں اپنی اس نیکی کو ظاہر نہیں کیا۔سابق صدر الخدمت جناب عبد الشکور نے سب سے پہلے امجد صاحب کے حوالے سے اپنی یادیں شئیر کیں اور کہا کہ میں امجد اسلام کے شعر و ادب کے حوالے سے بات نہیں کروں گا بلکہ اس جذبے پر بات کروں گا جس جذبے کے ساتھ وہ الخدمت کے آرفن کئیر پروگرام کے لئے کام کرتے تھے۔یتیم بچوں کی کفالت کے لیے فنڈنگ حاصل کرنے کے لئے ہم مختلف ملکوں میں پروگرام رکھتے۔ڈونرز کو بلاتے، امجد اسلام امجد اپنی نظمیں سناتے اور ڈونرز ہمیں فنڈنگ کرتے۔ ہم نے جب بھی امجد صاحب سے کہا انہوں نے خدمت خلق کے جذبے سے سر شار ہوکر اپنی تمام مصروفیات بالائے طاق رکھ کر ہمارے ساتھ دنیا بھر کے سفر کیے ۔ اپنی صحت کے مسائل کے باوجود اس عظیم مقصد کے لیے انہوں نے سفر کئے اور فنڈز اکھٹے کیے۔ عبدالشکور صاحب کی گفتگو سنتے ہوئے مجھے امجد صاحب کی زندگی پر رشک آ رہا تھا کہ انہوں نے کتنی بامقصد زندگی گزاری۔شاعری اور تخلیق کاری پر واہ واہ ہی نہیں سمیٹی بلکہ کرنے کے دوسرے کام بھی بڑے جذبے سے کیے ورنہ شہرت اور دنیاوی مقام پانی پہ لکھی ہوئی تحریر ہے۔ اصل بات تو یہ ہے کہ پروردگار نے جو کچھ انہیں مقبولیت ،محبوبیت تخلیق کاری کی صورت میں عطا کیا ، انہوں نے یہ سب کچھ شکرانے اور خوبصورتی کے ساتھ اسے اللہ کی کم وسیلہ مخلوق کی طرف لوٹادیا۔اللہ تعالی نے ان کی نیکیوں کو قبول کیا اور اپنے پاس بلانے سے پہلے اپنے گھر بلایا جہاں پر وہ اللہ گھر کے سامنے اور روزہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ کر حمد و نعت پڑھ رہے ہیں۔اس سفر کو بھی انھوں نے سوشل میڈیا پر نمائش کی آلائش سے پاک رکھا۔چند روز بعد پر سکون حالت میں دنیا سے چلے گئے۔ امجد صاحب کے بیٹے علی ذیشان نے بھی بتایا کیا کہ ان کے والد ہمیشہ غریبوں کی مدد کے لئے تیار رہتے تھے۔خاندان میں بھی اگر کسی کو کوئی مسئلہ درپیش ہوتا تھا تو ان کو یقین تھا کہ وہ امجد صاحب کے پاس جائیں گے اور وہ ان کے مسئلے کا کوئی حل ضرور نکالیں گے۔ بات یہی سمجھ میں آتی ہے کہ زندگی وہی خوب تر ہے جو اللہ کی مخلوق کی خدمت میں گزاری جائے۔آپ زندگی میں جس سطح پر بھی ہیں جس بھی مقام پر ہیں اپنے آپ کو اللہ کی مخلوق سے جوڑیں۔ اپنے بچوں کی تربیت میں خاص طور پر یہ چیز شامل کریں۔ان کے ہاتھوں سے صدقہ خیرات دلوائیں اور ان کے اندر انسانیت کا درد پیدا کریں۔اللہ کی مخلوق کی خدمت کو اپنا طرز حیات بنائیں۔کچھ لوگوں کا میں نے یہ رویہ دیکھا ہے کہ وہ اپنے گھر کے ملازموں کے ساتھ بہت حساب کتاب رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کی مدد کرنے کا مطلب انہیں خراب کر نا ہے۔ایسے لوگ صدقہ خیرات باہر تو بہت خوشی سے دیتے ہیں لیکن اپنے گھر میں کام کرنے والے ملازمین کو اس حسن سلوک سے محروم رکھتے ہیں جبکہ ہمارے صدقہ وخیرات کے سب سے زیادہ مستحق ہمارے ضرورت مند غریب رشتہ دار اور ہمارے ملازمین ہیں ۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمارے دلوں کو اپنی مخلوق کے لیے نرم رکھے۔اصل کام یہی ہے کہ بساط بھر رب کی مخلوق کے کام آئیں ۔یہ راز امجد صاحب نے بھی پالیا تھا پروردگار ہم سب کو بھی توفیق دے آمین