پشاور دھماکہ پھر ایک بڑا سانحہ ہے‘ سخت افسوسناک اور دوگونہ تشویش کا باعث بھی۔ ایک تو یہ کہ دہشت گرد ابھی ختم نہیں ہوئے۔ جیسے کے تیسے طاقتور ہیں بس لگتا ہے کہ ریموٹ کنٹرول سے کنٹرول ہوتے ہیں‘ اب وقفہ کرنا ہے، اب پھر شروع ہو جانا ہے۔ دوسرا کہ یہ دھماکہ کہیں انتخابات ملتوی کرانے کے منصوبے کا حصہ تو نہیں۔ یہ بات بہت سے لوگ پوچھ رہے ہیں۔ یہ غلط فہمی تو خیر کبھی باخبر لوگوں کو رہی ہی نہیں کہ دہشت گردی ختم ہو گئی ہے، کچھ فسانے بنائے جاتے ہیں کچھ سنائے جاتے ہیں‘ کچھ اگلی بار سنانے کو چھپائے جاتے ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر نے تو صاف لفظوں میں اسے سازش قرار دے ڈالا ہے۔ اس دھماکے میں دو درجن کے قریب جمہوریت پسند پاکستانی شہید ہوئے۔ ان میں اے این پی کے امیدوار ہارون بلور بھی شامل تھے۔ شہید کے والد بشیر بلور پچھلی انتخابی مہم میں شہید کیے گئے تھے۔ کیسی قسمت ہے‘ باپ کے بعد بیٹا بھی موت کے حوالے۔ ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں‘ ایک گھر پر ایک کے بعد ایک بلا اترتی ہے، لیکن یہ تقدیر کی ایک قسم ہے، آسمانی تقدیر۔ ایک تقدیر ہم جیسے انسان بھی لکھتے ہیں۔ بم دھماکوں کی بلا آسمان سے نازل نہیں ہوئی، ہم نے یہ تقدیر لکھی ‘ہمی نے یہ بلا بنائی اور پاکستانیوں اور افغانیوں پر چھوڑ دی۔ ٭٭٭٭٭ خبر یہ بھی ہے کہ دھماکے سے پہلے آتش بازی ہوئی اور کارکنوں نے ہوائی فائرنگ کی جس کی زد میں آ کر ایک بچہ مارا گیا۔ اسی رات لاہور میں مسلم لیگ ن کے انتخابی جلسے میں کارکنوں نے فائرنگ کی ایک نو سال کا بچہ جان سے گیا۔ جس طرح ہم کہتے ہیں کہ دہشت گرد مسلمان نہیں ہوتے‘ اسی طرح ہمیں یہ بھی کہنا چاہیے کہ ہوائی فائرنگ کرنے والے انسان نہیں ہوتے‘ شیطان ہوتے ہیں، چاہے یہ فائرنگ شادی میں کی جائے، چاہے جلسے میں۔ چاہے استقبالی جلوس میں۔ ہوائی فائرنگ کرنا پوری پوری طرح دہشت گردی ہے۔ اس کے مجرموں کو، چاہے ان کی فائرنگ سے کوئی بھی نہ مرے، دہشت گردی کی سزا ملے گی تو یہ شیطانی رسم کم ہو گی۔ آخر کسی دہشت گرد کو اس لیے تو معاف نہیں کیا جا سکتا کہ اس نے بم تو رکھا تھا لیکن پھٹا نہیں یا پھٹا تو لیکن مرا کوئی نہیں۔ اس وقت جو سزا اس جرم کی ہے وہ نہ ہونے کے برابر ہے اور پولیس اسے اتفاقی موت لکھتی ہے۔ ایسی ہی اتفاقی موت ہوائی فائرنگ کرنے والوں کا نصیب بھی ہونی چاہیے۔ ٭٭٭٭٭ راولپنڈی میں پنجاب پولیس کے کھڑکی، دروازہ توڑ آپریشن نے تہلکہ مچا دیا ہے۔ مسلم لیگ ن کے سینکڑوں کارکن گرفتار کر لیے گئے۔ ان میں بڈھے بچے سبھی شامل ہیں۔ بظاہر یہ گرفتاریاں کیپٹن(ر) صفدر کے جلوس میں شمولیت پر کی گئی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ گرفتاری دینے کے لیے آنے والے ’’مجرم‘‘ کے جلوس میں شامل ہونا یا بطور تماشائی کھڑے ہونا کسی قانون کے تحت ایسا ہی بڑا جرم ہو کہ گرفتاری کے لیے چادر اور چار دیواری کو تہس نہس کرنا عین انصاف کا تقاضا ہو لیکن سب کی زبان پر جو بات ہے وہ یہی ہے کہ یہ ریاستی اثاثے شیخ رشید کو الیکشن جتوانے کے کریش پروگرام کا حصہ ہے۔ ایک سیٹ سے حنیف عباسی امیدوار ہیں۔ چنانچہ یہ کریش پروگرام جاری رہے گا۔ مسلم لیگ ن نے اس صورتحال پر احتجاج کرتے ہوئے نگران وزیر اعلیٰ سے نوٹس لینے کی اپیل کی ہے۔ پریشانیوں میں گھری مسلم لیگ کی مت بری طرح نہیں اچھی طرح ماری گئی ہے۔ اس سے بہتر تھا کہ وہ نوٹس لینے کی اپیل شیخ رشید ہی سے کر دیتی۔ ٭٭٭٭٭ پانامہ کیس کا فیصلہ اب بہت لوگوں نے پڑھ لیا ہے۔ عدالت نے صاف لکھا ہے کہ اس کے پاس ایسا کوئی ثبوت نہیں لایا گیا جس سے ایون فیلڈ فلیٹس کی ملکیت نواز شریف کی ثابت ہوتی ہو۔ سزا جو سنائی گئی ہے وہ اس بات کی سنائی گئی ہے کہ نواز شریف یہ نہیں بتا سکے کہ انہوں نے یہ فلیٹ کیسے خریدے۔ نواز شریف کا کہنا ہے کہ یہ فلیٹس ان کے نہیں ان کے بچوں کے نام ہیں۔ اس کی تردید کرنا استغاثے کی ذمہ داری تھی جو اس نے پوری نہیں کی چنانچہ ’’مفروضاتی اخذیات‘ ‘ پر یہ طے کر لیا گیا کہ ہو نہ ہو‘ یہ فلیٹس نواز ہی کے ہیں‘ وہ نہیں بتا سکے کہ کیسے خریدے چنانچہ سزا لازم ہے۔ یعنی ہر کوئی کہہ رہا ہے کہ سزا اخذ کرو مفروضوں اور شہادتوں پر دی گئی۔گویا یہ ایک مثالی حد تک ’’ماخوذ‘‘ فیصلہ ہے۔ بہت عشرے پہلے کہانیاں چھاپنے والے رسالوں میں رواج تھا کہ مدیر کسی انگریزی کہانی کا خیال اخذ کر کے اپنے الفاظ میں کہانی لکھتا اور اس پر اپنا نام دینے کے بجائے ماخوذ کا لفظ لکھ دیتا۔ چنانچہ ایک لطیفہ یوں بنا کہ کچھ دوست اپنی اپنی پسند کے ادیبوں کے نام لے رہے تھے‘ کسی نہ کسی کو بڑا افسانہ نگار بتایا‘ کسی نے کسی اور کو۔ ایک نے کہا بھئی یہ سب اپنی اپنی جگہ بڑے ادیب ہوں گے لیکن جیسی صلاحیت لکھنے کی ماخوذ صاحب کی ہے وہ کسی کی نہیں۔ ہر رنگ ہر انداز کی کہانی لکھ لیتے ہیں۔ سچ پوچھو تو سب سے بڑا ادیب بھی ’’ماخوذ‘‘ صاحب ہیں۔ ہر طرح کے فیصلے آتے ہیں لیکن سچ پوچھیے تو ’’ماخوذ‘‘ جیسے فیصلے کا تو جواب ہی نہیں۔ ٭٭٭٭٭ کسی ٹی وی چینل پر کوئی صاحب کنگز پارٹی کے بارے میں بات کر رہے تھے غور سے سنی نہیں‘ پتہ نہیں تعریف کر رہے تھے یا تنقید، لیکن یک بارگی خیال ایک ایسے پہلو کی طرف چلا گیا جو سامنے ہونے کے باوجود نگہ سے اوجھل رہا۔ ملاحظہ فرمائیے: ہر دور میں ایک ہی کنگز پارٹی رہی ہے۔ ری پبلکن لیگ‘ کاف لیگ(ایوب نے بنائی) جونیجو لیگ ،فدالیگ ‘ قاف لیگ وغیرہ۔ اب جو دیکھتے ہیں تو درجن بھر سے کچھ ہی کم کی قطار ناموں کی نظر آتی ہے۔ اتنی بڑی پیشرفت ہوئی ہے کسی نے دھیان ہی نہیں دیا۔ کل پرسوں ایک خبر کسی مغربی ملک سے آئی کہ مدت سے بے اولاد خاتون کا نخل امید ہرا ہوا اور اس نے یکے بعد دیگرے گیارہ بچے جنم دے ڈالے۔ نخل امید کیا‘ نخل ہائے امید ہرے ہو گئے۔ پوری الیون۔ ہمارے ہاں بے اولادی کا مسئلہ تو کبھی نہیں رہا۔ ایک عدد نخل امید ہر دور میں لہلہاتا رہا ہے۔ پورے کا پورا نخلستان اسی بار ہی البتہ ہرا ہوا ہے۔ گویا دبستان کھل گیا والا معاملہ ہو گیا۔ ٭٭٭٭٭ نیب نے پرویز مشرف کو حاضر ہونے کا حکم دیا۔ نیب اچھی حس مزاح بھی رکھتا ہے یہ طلبی اس کا ثبوت ہے۔ ریاستی اثاثے پرویز مشرف نے حاضر ہونے سے انکار کر دیا‘ طلبی کے نوٹس کا نوٹس بھی نہیں لیا‘ حس مزاح سے محرومی کی دلیل ہے۔