کراچی (کامرس رپورٹر،مانیٹرنگ ڈیسک) سٹیٹ بینک نے آئندہ 2ماہ کیلئے مانیٹری پالیسی کا اعلا ن کرتے ہوئے شرح سود 13.25 فیصد پربرقرار رکھنے کا فیصلہ کیاہے ۔زری پالیسی کمیٹی کے اجلاس کے بعد مرکزی بینک سے جاری اعلامیہ میں کہا گیا شرح سود برقرار رکھنے کا فیصلہ مہنگائی کے منظرنامہ کو دیکھتے ہوئے کیا گیا۔رواں مالی سال کیلئے مہنگائی کا سٹیٹ بینک کا 11 سے 12 فیصد پر تخمینہ بڑی حد تک برقرار رہا ہے ،زری پالیسی کمیٹی کے گذشتہ اجلاس سے اب تک تین اہم تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔ پہلی جاری کھاتے میں چار سال کے وقفے کے بعد اکتوبر 2019ء میں فاضل رقم آئی جو ملک کے بیرونی کھاتوں پر کم ہوتے ہوئے دباؤکا واضح اشارہ ہے ۔ دوسری، تخمینے کے مطابق حکومت کے بنیادی توازن میں مالی سال 20ء کی پہلی سہ ماہی کے دوران فاضل رقم درج ہوئی جو مالی سال 16ء کی دوسری سہ ماہی کے بعد ایسا پہلا موقع ہے ۔ تیسری، اعتمادِ کاروبار کے تازہ ترین سروے سے معلوم ہوتا ہے کہ کاروباری ادارے مستقبل قریب میں مہنگائی میں کمی کی توقع کر رہے ہیں جو اس بات کا اشارہ ہے کہ غذائی قیمتوں میں حالیہ اضافوں کے باوجود مہنگائی کی توقعات مستحکم رہیں گی۔ مانیٹری پالیسی کے مطابق برآمدی شعبوں اور درآمدی مسابقت والے شعبوں میں معاشی سرگرمیاں مستحکم ہو رہی ہیں جبکہ اندرونی نوعیت کے شعبوں میں مسلسل سست روی برقرار ہے ۔بڑے پیمانے کی اشیا سازی میں برقی مصنوعات، انجنیئرنگ کے سازوسامان اور کھاد کے شعبوں میں نمو ہوئی جبکہ آٹو انڈسٹری، غذائی صنعت اور تعمیرات سے منسلک فولاد اور سیمنٹ کی صنعتوں میں کمی آئی ۔ خریف کی اہم فصلوں کے تازہ ترین پیداواری تخمینوں کے مطابق زرعی شعبے کی پیداوار پیش گوئیوں کے مطابق ہی رہے گی تاہم کپاس کی پیداوار ہدف سے کم رہنے کا امکان ہے ۔سٹیٹ بینک نے مالی سال 20ء کے لیے جی ڈی پی کی نمو کی اپنی پیش گوئی تقریباً 3.5 فیصد پر برقرار رکھی ہے ،بیرونی شعبے میں مسلسل بہتری ظاہر ہوتی رہی جو حالیہ پالیسی ردوبدل کے مثبت نتائج اور دیگر عوامل کی عکاس ہے ۔ رواں مالی سال کے پہلے چار ماہ کے دوران جاری کھاتے کا خسارہ 73.5 فیصد کم ہو کر 1.5 ارب ڈالر رہ گیا۔ اس بہتری سے درآمدات میں قابلِ ذکر کمی، برآمدات میں معقول نمو اور کارکنوں کی ترسیلات میں مستقلاً اضافے کی عکاسی ہوتی ہے ۔ کمزور ہوتی بیرونی طلب کے باوجود برآمدی حجم میں اضافہ ہوا بالخصوص چاول، ٹیکسٹائل مصنوعات، چمڑے کی مصنوعات، اور مچھلی اور گوشت کے معاملے میں۔ بیرونی براہ راست سرمایہ کاری میں اضافہ کی بنا پر سرمایہ اور مالی کھاتہ بھی بہتر ہو گیا جبکہ پورٹ فولیو رقوم کی مسلسل آمد سے بھی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہونے کی عکاسی ہوتی ہے ۔توازنِ ادائیگی کی سازگار صورتِ حال کی بنا پر روپے کی قدر میں 5.6 فیصد اضافہ ہوا جو جون 2019ء میں پس ترین سطح پر تھی، ان سازگار حالات نے سٹیٹ بینک کو مجموعی ذخائر دوبارہ بڑھانے اور واجبات کم کرنے کا موقع دیا۔ مالی سال کے آغاز سے 15 نومبر تک مجموعی ذخائر میں 1.16 ارب ڈالر اضافہ ہوا جبکہ سٹیٹ بینک اکتوبر کے اختتام تک بیرونی کرنسی تبدیلات/ پیشگی واجبات میں 1.95 ارب ڈالر کمی لایا ۔ ٹیکس کاری کی وسیع البنیاد اصلاحات اور غیر ترقیاتی اخراجات پر سختی سے قابو پانے کی وجہ سے سال کے دوران مالیاتی یکجائی کی کوششوں کی رفتار میں تیزی آئی۔ جولائی تا اکتوبر مالی سال 20ء میں ایف بی آر ٹیکس وصولیوں میں 16.2 فیصد (سال بسال) نمو ہوئی جو گذشتہ برس کی اسی مدت میں 6.4 فیصدتھی۔اخراجات کے لحاظ سے پی ایس ڈی پی کیلئے وفاقی رقوم کی فراہمی جولائی تا اکتوبر مالی سال 20ء میں دگنے سے زائد اضافے کے ساتھ بڑھ کر 257 ارب روپے ہو گئی جو گذشتہ برس کی اسی مدت میں 105.5 ارب تھی۔ انفراسٹرکچر اخراجات میں اضافہ سے تعمیرات سے منسلک کاروباری سرگرمیوں کو تحریک ملنے کی توقع ہے ۔ فنانسنگ کے لحاظ سے حکومت نے سٹیٹ بینک سے نئی میزانی قرض گیری کو صفر پر رکھنے کے عزم کی سختی سے پاسداری کی جس سے نہ صرف حکومت کو آئی ایم ایف پروگرام کے تحت اپنی کارکردگی کے معیار پر مسلسل پورا اترنے میں مدد ملی بلکہ یہ مہنگائی کے امکانات کے حوالے سے بھی خوش آئند ہے ۔رواں مالی سال کے ابتدائی چار مہینوں میں معاشی سرگرمیوں کی سست روی کے سبب نجی شعبے کے قرضوں میں 4.1 ارب روپے کی کمی ہوئی جبکہ گذشتہ برس اسی مدت میں 223.1 ارب روپے کا اضافہ ہوا تھا تاہم اس مدت میں معین سرمایہ کاری قرضے بڑھ گئے جسے سٹیٹ بینک کی طویل مدتی فنانسنگ سہولت نے اعانت مہیا کی جس کے قرضوں میں اس مدت کے دوران 11.3 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ اکتوبر 2019ء میں مہنگائی میں۔0 11 فیصد (سال بہ سال) اور1.8 فیصد (ماہ بہ ماہ) اضافہ ہوا۔ ماہ بہ ماہ مہنگائی کے حالیہ نتائج گذشتہ مہینوں کے مقابلے میں بلند رہے اور اگریہ تسلسل جاری رہا تو یہ مہنگائی کی توقعات کو متاثر کر سکتے ہیں۔ زری پالیسی کمیٹی کا خیال تھا مالی سال کی دوسری ششماہی میں مہنگائی کا دباؤ کم ہونے کی توقع ہے ۔ مستقبل بین بنیادوں پر زری پالیسی اور حقیقی شرح ہائے سود کا موجودہ موقف مہنگائی کو آئندہ چوبیس مہینوں کے دوران 5 تا 7 فیصد کے ہدف کی حد میں لانے کے لیے مناسب ہے ۔