عمران خان کی جیت کی وجوہات کیا ہیں؟ ان کا دور اقتدار تو ایک ڈرائونے خواب کی مانند تھا ، اس کے باوجود وہ جیت رہے ہیں تو اس کی وجہ کیا ہے؟ ایک وجہ تو ان کے کارکنان کسی دلیل سے بے نیاز ہیں اور کسی کارکردگی کی انہیں ضرورت نہیںلیکن ایک وجہ اس سے بھی بڑی ہے ۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ عمران کو ووٹ نہ دیا جائے تو ان کو کیسے دیا جائے جو اس کے مقابلے میں ہیں؟عمران سے مایوسی اپنی جگہ لیکن ووٹر یہ جاننے کا حق تو رکھتا ہے کہ بلور صاحب سے عابد شیر علی صاحب تک کو اگر عمران پر ترجیح دی جائے تو کس بنیاد پر دی جائے؟ عام آدمی عمران سے بہت مایوس سہی لیکن یہ سوال تو اس کے دامن سے لپٹا رہے گا کہ عمران کو ووٹ نہ دے تو کیاان مولانا صاحب کی پارٹی کو دے جن کا گریڈ گیارہ کا ملازم بھائی بغیر سی ایس ایس کیے ترقیاں پاتے پاتے ڈپٹی کمشنر بن جائے، جن کا دوسراا بھائی سینٹر بن جائے ، جن کا صاحبزادہ ایم این اے بن جائے اور کوئی کسر رہ گئی ہو تو سمدھی کے گورنر بنائے جانے کی خبروں سے پوری ہو گئی ہو؟ عام آدمی کی امیدیں عمران نے پوری نہیں کیں لیکن عام آدمی کیا مریم نواز صاحبہ کو ووٹ دے جن کی اللہ کے فضل و کرم سے بیرون ملک تو کیا اندرون ملک بھی کوئی جائیداد نہیں اور جن کے شوہر کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ ان کے صاحبزادے کے تعلیمی اخراجات کہاں سے پورے ہو رہے ہیں۔ عمران خان سے اور ان کی جماعت کے رہنمائوں کے لب و لہجے سے یقینا سنجیدہ طبع لوگوں میں بے زاری ہو گی لیکن اسلوب کلام کی نا شائستگی سے بے زار لوگ کیا ایمل ولی خان صاحب کو ووٹ دیں جو گفتگو کرتے ہیں تو سماعتیں الامان پکارتی ہیں۔جو بات کرتے وقت یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ انہیں باچا خان جیسی بڑی شخصیت سے ایک نسبت ہے ، اور نہیں تو اسی کا خیال کر لیں۔عمران خان کے مخالفین تاریخ کے نوادرات بنتے جا رہے ہیں۔ انہیں یہ اندازہ ہی نہیں کہ وقت اپنی کروٹ بدل چکا۔ وہ بدلتے وقت کے تقاضوں سے بے خبر ہیں۔ان کے پاس کہنے کو کچھ ہے نہ کوئی ندرت خیال ہے۔جس استقامت سے عمران اپنے جھوٹ کو سچ بنا دیتے ہیں اس سے آدھی استقامت سے سے وہ اپنا سچ بھی بیان کرنے سے قاصر ہیں ۔ان کی سیاست اوقاف کا مال متروکہ بن چکی ہے۔جیسے جیسے سماج آگے بڑھتا جائے گا یہ پیچھے رہتے جائیں گے۔ ان کا سفر اب زوال کی مسافت کے سوا کچھ نہیں۔ عمران آج بھی کرائوڈ پلر ہے ۔ سماج کے پر طبقے سے لوگ اسے سننے آتے ہیں ۔کیا ایسا ہی کوئی کرزما آصف زرداری صاحب کے ساتھ بھی ہے۔ کیا مولانا فضل الرحمن کو ان کے مکتب فکر کے علاوہ کوئی اہتمام سے کسی جلسے میں سننے جا سکتا ہے؟ کیا مسلم لیگ ن کے پاس اس وقت کہنے کو کچھ رہ گیا ہے؟ سچ اور جھوٹ کا سوال اپنی جگہ کہنے سننے کا سارا مواد صرف عمران کے پاس ہے۔ سیاست میں اگر کوئی رومان ہے تو وہ عمران سے وابستہ ہے۔ اس رومان کو کلٹ کہا جا سکتا ہے لیکن اس کا انکار ممکن نہیں۔ دوسری صف میں کیا ہے؟خواب صرف عمران کے پاس ہیںا ور وہ گلی گلی بیچ رہا ہے، دوسری صف کے پاس نہ کوئی خواب ہے نہ امید حتی کہ اب روٹی کپڑے اور مکان یا ووٹ کو عزت دو جیسا کوئی جھوٹ بھی نہیں ۔ سیاست میں موج کا نام صرف عمران ہے۔ خبر کا عنوان عمران ہے۔ تنقید و ملامت کا ہدف عمران ہے۔سیاست کی صف بندی کا تازہ عنوان بھی عمران ہے۔ سب کو اپنے ہوم گرائونڈ پر کھلانے والا بھی عمران ہے۔ سیاست کی دنیا میں کوئی خبر ایسی نہیںجس میں عمران نہ ہو۔سوال یہ ہے کہ عمران کے حریف کیا بیچ رہے ہیں؟ عمران کے وووٹر کے پاس ووٹ ڈالنے کے لیے متعدد وجوہات موجود تھیں ۔ وہ سمجھ رہا تھا کپتان کے خلاف سازش ہوئی ۔ اس کا خیال تھا کپتان مظلوم ہے۔ اسے کامیابی سے باور کرایا گیا کہ عمران کی کارکردگی کا سوال مت پوچھو بس اس سے عقیدت رکھو ۔وہ ناراض تھا کہ عمران کو ااقتدار سے نکالا گیا۔ یہ غم و غصے سے بھرا ہوا تھا اور اس کا اظہار چاہتا تھا۔ ووٹ کا مرحلہ آیا تو اس نے جذبات کا اظہار کر دیا۔ باقی جماعتوں کے پاس کیا تھا؟ ان کے کارکنان کے پاس کون سا جذبہ تھا جو انہیں ووٹ ڈالنے لے جاتا؟ الیکشن مہم بھی عمران نے چلائی ، بلاول ، مریم اوور دیگر تو کہیں نظر نہ آئے۔عصری سیاست کی رگ جاں عمران کے ہاتھ میںہے۔ وہ چاہے تو ٹھہرائو ہو جاتا ہے وہ چاہے تو ارتعاش برپا ہو جاتا ہے۔ ابھی اس نے تاریخ نہیں دی اور سہما ہوا اسلام آباد کنٹینروں سے بھرا پڑا ہے۔خبر آئے گی تو اس کا محور ایک بار پھر عمران ہوگا۔ سارے پرچم عمران کے پاس ہیں۔ اینٹی اسٹیبلشمنٹ وہ ہے ، ووٹ کو عزت دینے والا قافلہ کب کا لاپتہ ہو چکا۔ اینٹی امریکہ بھی وہ ہے۔ سامراج کو بھی وہ للکار رہا ہے۔ اسلام کا پرچم بھی اس کے پاس ہے۔ وطن پرست بھی وہی ہے۔ قومی غیرت کاعلم بھی اسی نے تھام رکھا ہے۔سچ یا جھوٹ کی بحث کی اہمیت اپنی جگہ لیکن فکری فالٹ لائنز اور جذباتیت سے بھرے اس سماج میں ہر وہ چیز جس پر عصبیت کی عمارت استوار کی جاسکتی ہے عمران کے ہاتھ میںہے۔ عمران سے مایوسی اپنی جگہ دوسری صف میں کون سے اللہ کے ولی بیٹھے ہیں۔ حزب اقتدار کو معلوم ہی نہیں ان چند سالوں میں کتنے لاکھ ایسے ووٹر آ چکے ہیں جن کی عمریں بیس سائیس سال کی ہیں۔ انہیں تھانہ کچہری اور خواتین کے تبادلوںکی غلیظ سیاست سے نہیں ہانکا جا سکتا۔ یہ پرانے وقتوں کے چند قلمی قلی اور قلم فروش کالم نگاروں کے تجزیوں سے رہنمائی پانی والی نسل نہیں جو قلم رہن رکھ کر مناصب لیتے تھے، غلط یا صحیح یہ خوددار دانشور نسل ہے۔اس نسل کو خواب دکھا کر ، جھوٹ سنا کر کوئی ہانک لے توو ہ الگ بات لیکن اس کی حریت فکر پر پہرے بٹھا کر نو آبادیاتی طرز سیاست سے اس کو مزیدیرغمال نہیںبنایا جا سکتا۔جو ایساسوچتا ہے وہ سادہ لوح ہے۔ حزب اقتدار کے حلیے بھی اس نسل کے لیے اجنبی ہیں اور رویے بھی۔یہ کاٹن کے کڑ کڑاتے فرعونی لباس اور ارطغرل بے کی کمان جیسی مونچھوں کا زمانہ نہیں رہا۔ اگر یہ کشتہ سلطانی و ملائی و پیری تحریک انصاف میں بھی بہت نمایاں ہے لیکن تحریک انصاف کا حقیقی چہرہ کوئی جاگیردار یا مخدوم نہیں عمران ہیں۔عمران کا یہ کمال ہے کہ وہ غلط موقف بھی اختیار کریں ، حتی کہ صریح جھوٹ تو وہ اس کو سچ بنا کر دکھانے کی مہارت رکھتے ہیں۔یہ مہارت ان کے حریفوں کے پاس نہیں۔ ایسے میں جیتنا عمران خان ہی نے تھا ، وہ جیت گئے۔عمران کے سیاسی حریفوں کو سوچنا ہو گا انہوں نے تاریخی نوادرات بن کر وقت کی کھائی میں دفن ہونا ہے یااس ملک میں سیاست کرنا ہے۔سیاست کرنی ہے تو جوابی بیانیہ کہاں ہے؟