کبھی آپ نے سوچا مایوسی نے ہمارے گرد ایسا گھیرا تنگ کیوں کرلیا ہے۔ ہم آگے پیچھے کی جانب کھسک رہے ہیں۔ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارا بالائی طبقہ ہمارے زیریں محروم اور پسے ہوئے طبقے سے اتنا دور جاچکا ہے کہ اس کی فیلنگ تک تبدیل ہوچکی ہے‘جس بات پر عام شخص چیخ اٹھتا ہے‘ گھر کا سامان تک بیچ کر امداد کیلئے نکل کھڑا ہوتا ہے۔ اس پر ہمارے امرا‘ حکمران اور ’’سقراط و بقراط‘‘ ایزی چیئر پر بیٹھ کر فقط مسکراتے رہتے ہیں۔ عام شخص کی اس حرکت کو تھرڈ کلاس‘ جذباتیت‘ بے ساختہ ردعمل اور خودکشی جیسی حماقت قرار دیتے ہیں۔ میرے ذہن میں ہمیشہ ایک سوال کلبلاتا رہتا ہے کہ ہم میں سے بیشتر کہہ رہے ہیں کہ موجودہ غیر یقینی صورتحال سے نکلنے کیلئے ضروری ہے کہ نئے الیکشن کا انعقاد کرلیا جائے جو نئے لوگ آئیں‘ جنہیں عوام کی اکثریت منتخب کرے۔ انہیں حق حکمرانی دیدی جائے۔ اس طرح پاکستان موجودہ بحرانی کیفیت سے نکل جائے گا۔ عوام سے رجوع کرنے کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ نواز شریف کی مسلم لیگ (ن)‘ آصف علی زرداری کی پیپلز پارٹی یا پھر عمران کی پی ٹی آئی یقینی طور پر ووٹروں کی اکثریت ان تینوں کے حق میں مختلف تناسب سے ووٹ دے گی۔ اب آپ دیکھیں 100 دن پہلے عمران خان کی حکومت تھی جنہوں نے تین سال سات ماہ 25 دن تک ملک پر حکومت کی۔ اب اس وقت مسلم لیگ (ن)‘ پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں کی اتحادی حکومت ہے۔ یہ بھی تین ماہ حکومت کرچکے ہیں۔ مہنگائی کا طوفان اس وقت بھی تھا اور اب اور زیادہ جوبن پر ہے۔ غربت‘ افلاس‘ بیروزگاری اس وقت بھی بڑھ رہی تھی اور آج تک اس میں کوئی بریک نہیں لگ رہا۔ مختلف النوع عوامی مسائل اس وقت بھی امڈ رہے تھے اور آج بھی ان میں کسی کمی کے کوئی آثار نہیں۔ پہلے بھی کوئی Silver Linning نظر نہیں آرہی تھی اور آج بھی دور دور تک نظروں سے اوجھل ہے۔اگر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے پاس موجودہ بحران سے نکلنے کا کوئی راستہ ہے تو وہ اس پر عمل کیوں نہیں کررہے۔ وہ عوام کو کیوں نہیں بتارہے کہ ملک کو اس معاشی بحران سے نکالنے کیلئے ان کے پاس یہ راستہ ہے۔ وہ اس راستے پر چل کر بہتری کے راستے پر آجائیں گے‘ یہ بحران سمٹنے لگے گا۔ حالات بہتری کی جانب چل پڑیں گے۔ دوسری طرف پی ٹی آئی ہے جس کے لیڈر عمران خان اپنے مختلف بیانیوں کے ذریعے پاکستان کے عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کررہے ہیں کہ انہیں ایک امریکی سازش کے ذریعے اقتدار سے الگ کیا گیا۔ وہ پاکستان کی خود مختاری‘ آزادی کیلئے جدوجہد کررہے ہیں۔ وہ عام آدمی کیلئے اپنے پریشان کن دور میں اپنے کارنامے گنوارہے ہیں۔ وہ اپنے بیانیے میں کبھی اداروں کو ہدف تنقید بنارہے ہیں اور کبھی انہی سے مدد مانگ رہے ہیں کہ انہیں اقتدار میں دوبارہ لانے کا راستہ بنایا جائے۔ ان کا لب و لہجہ بتارہا ہے کہ وہ اپنے علاوہ کسی اور کو برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں۔ وہ یہ ماننے کیلئے تیار نہیں کہ انہیں جن لوگوں سے کسی سیاسی مفاہمت کیلئے بات کرنی ہوگی وہ اس پر بھی آمادہ نہیں‘ بلکہ انہیں ڈاکو اور چور کہتے نہیں تھک رہے۔ اس وقت ملک میں پولیٹیکل پولرائزیشن اتنی زیادہ ہے کہ نہ سیاسی قوتیں آپس میں مل بیٹھ کر کسی متفقہ فارمولے پر گفت و شنید کرنے کو تیار ہیں نہ ان میں وہ بردباری‘ رواداری اور متانت نظر آرہی ہے۔ ایک دوسرے پر سنگین الزامات‘ دھرنے میں وہ ذرا برابر تامل کا مظاہرہ نہیں کررہے۔ سمجھ نہیں آرہی کہ کون سی آفت کون سا عذاب اور کونسا بانجھ پن ہے جو 22 کروڑ لوگوں کے اس ریوڑ پر اترا۔ ریوڑ کا لفظ اس لئے کہہ رہا ہوں کہ ہم زبان فرقہ اور علاقوں کی بنیاد پر بٹ کر رہ گئے ہیں۔ مجھے تو یوں لگتا ہے کہ کوئی ہمارا قبلہ درست کرنے والا نہیں۔ ہم سال بہ سال بحرانوں کی زد میں رہے۔ کبھی سیاسی‘ کبھی معاشی‘ کبھی معاشرتی و سماجی اور اب تو ظلم یہ ہے کہ ہم اخلاقی طور پر دیوالیہ پن کے قریب ہیں۔ یہاں نظریاتی یا اپنے اپنے پیش کئے گئے منشور کی لڑائی نہیں ہورہی‘ بلکہ یہ سب مفادات کے کھیل ہیں۔ ہر کوئی کرسی کی طرف لپک رہا ہے۔ پیچھے مڑ کر دیکھیں یہاں قائداعظم تھے۔ بات انگریزی میں کرتے اور سننے والے اردو تک سے نابلد ہوتے‘ لیکن ایک ایک شخص اٹھ کر گواہی دیتا۔ یہ شخص جو کچھ کہہ رہا ہے وہ دنیا کا سب سے بڑا سچ ہے۔ لیاقت علی خان تھے۔ جب شہید ہوئے تو جیب میں چند روپے اور اچکن کے نیچے پھٹی ہوئی بنیان تھی۔ کرنال کے نواب تھے۔ اللہ نے سب کچھ دے رکھا تھا۔ لیکن پاکستان کی محبت اس ارض پاک کی طرف ایسی لائی کہ قائداعظم کے ساتھ کندھے سے کندھا ملاکر چلتے رہے سب کچھ تج دیا۔ غلام محمد تھے۔ جن پر تمامتر غیر جمہوری رویوں کے باوجود کوئی شخص بے ایمانی‘ کند ذہنی اور تساہل کا الزام نہیں لگاسکتا۔ اخلاص‘ ایمانداری اور ذہانت کے مرقع چوہدری محمد علی تھے۔ محمد علی بوگرا تھے۔ وزارت عظمیٰ ہاتھ سے نکلی تو دوبارہ سفارت قبول کرتے ایک منٹ نہیں لگا۔ عبدالرب نشتر تھے‘ جن کے بچے گورنر ہاؤس سے پیدل اسکول جاتے تھے۔ اسکندر مرزا تھے۔ جن کی آخری عمر لندن کے ایک ہوٹل میں ملازمت کرتے گزری۔ ایوب خان تھے۔ تمامتر آمرانہ رویوں کے باوجود ایوان صدر کے ایک ایک روپے کا حساب رکھتے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو‘ متکبر اور سیکولر ہونے کے باوجود مطالعے اور خطابت میں اپنا جواب نہیں رکھتے تھے۔ یہاں عبدالغفار خان جیسا سیاستدان تھا۔ لاکھ اعتراضات کے باوجود جسے پورے برصغیر میں یکساں محبت اور احترام سے دیکھا جاتا تھا۔ خان عبدالقیوم تھے۔ انہوں نے کال دی تو عوام پاکستان کے طویل ترین جلوس کی شکل میں ان کے پیچھے چلے پڑے۔ مولانا بھاشانی جیسے درویش تھے۔ قینچی چپل اور دھوتی میں اسٹیج پر چڑھتے تو بڑے سے بڑا جابر سلطان ان کے کلمہ حق کی بات سے نہیں بچ سکتا۔ حسین شہید سہروری تھے جنہوںنے سیاست کو ایک نیا رنگ و روپ دیا۔ چوہدری ظہور الٰہی جیسا دریا دل شخص تھا جن کے احسانات کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھائے سینکڑوں لوگ برسوں تک ہمیں نظر آتے رہے۔ یہاں مولانا مودودی جیسے عالم تھے جن کی فکر کی روشنی آج بھی لوگوں کو اندھیرے میں راستہ دکھاتی ہے۔ علامہ شبیر احمد عثمانیؒ تھے جن کی باتیں دلوں پر لگی مہریں توڑ دیتی تھیں۔ مولانا احمد علی لاہوریؒ تھے جن کی محفل پتھر کو پارس بنادیتی تھی۔ احتشام الحق تھانویؒ تھے جو بھٹکے ہوؤں کو شراب خانوں سے اٹھاکر مصلے پر بٹھاتے تھے۔ مولانا مفتی محمود تھے جنہوں نے مغربی یلغار کو ایک بازو کی قوت سے روکے رکھا۔ مولانا قمر الدین سیالوی ؒتھے جو مردہ روحوں کو زندہ کرنے کا کام کرتے تھے اور سید مظفر حسین شمس تھے جنہوں نے زندگی بھر شیعہ سنی کی تفریق پیدا نہیں ہونے دی۔ شورش کاشمیری تھے جو قلم کی آبرو بنے۔ ناجانے ہر شعبے نے کیا کیا نامور لوگ پیدا کئے۔ جو ظرف ذہانت‘ فطانت‘ محنت اور ایمانداری میں جن کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ جب ہم اپنے لیڈران کرام کی طرف دیکھتے ہیں جو ہماری سیاسی بساط پر ایسا قحط کیوں نظر آتا ہے۔ وہ رواداری‘ محبت اور ایثار کہاں چلا گیا۔ (جاری ہے)