یہاں ایک اہم یہ بھی ہے کہ فارن فنڈنگ کی اجازت ہے لیکن ممنوعہ فارن فنڈنگ کی تعریف یہ ہے کہ جو فنڈنگ کسی فرم کے ذریعے آئے خواہ وہ فرم یا کمپنی غیر ملکی ہو حتیٰ کہ وہ قومی سطح کی ہو۔ اس کی ممانعت ہے۔ اس میں یہ پہلو آجاتا ہے کہ یہ کمپنیاں اپنے مفاد کیلئے فنڈنگ کررہی ہیں۔ اب عمران خان کے ساتھی اس میں یہ نکتہ نکال رہے ہیں کہ ایسے اکاؤنٹس کی تیاری بنیادی طور پر آڈیٹرز کرتے ہیں اور پارٹی ہیڈ تو اس پر صرف دستخط کرتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اس طرح کے آڈٹ بڑی اہم اور معتبر کمپنیوں سے کرایا جاتا ہے۔ اس لیے وہی اس کی ذمہ دار ٹہرائی جاسکتی ہیں اور اس میں عمران خان کا کوئی لینا دینا نہیں اور ان کاکہنا ہے کہ یہ عمل گزشتہ کئی سالوں پر محیط ہے۔ اس دوران بہت سی اپیلیں ہوتی رہیں۔ جہاں تک اگر اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ اس فیصلے سے تحریک انصاف کی پاپولر سپورٹ میں کوئی فرق پڑے گا تو میں نہیں سمجھتا کہ ایسا ہوگا۔ اس سے پہلے پیپلز پارٹی پر بھی بہت ہی سنگین الزامات لگے‘ لیکن ان کی پاپولر سپورٹ موجود ہے۔ اس طرح اگر آپ کی پاپولر سپورٹ ہو تو پھر آپ نام بدل کر یا کسی اور شکل میں واپس منظر میں آجاتے ہیں اور یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہئے کہ عمران کی ایک بڑی جذباتی سپورٹ موجود ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اس فیصلے سے عمران خان فارغ ہوجائیں گے تو ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ پی ٹی آئی کے فرخ حبیب نے اپنے دور حکومت میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کیخلاف کیس فائل کئے تھے جن پر کم و بیش اسی طرح کے الزامات لگائے گئے تھے۔ اس کیس کے مرکزی کردار اکبر ایس بابر صاحب کا دعویٰ یہ ہے کہ ان کے پاس بہت سے حقائق ہیں جو آف دی ریکارڈ ہیں۔ گو کہ بظاہر تو یہ اندازہ ہورہا ہے کہ ان کی بہت سی باتیں سچ ثابت ہوگئی ہیں اورممکن ہے کہ وہ کچھ حقائق آگے چل کر بیان کریں۔ وہ جس اعتماد سے باتیں کررہے ہیں اس سے نظر یہ آتا ہے کہ ان کے دید میں کچھ کچھ تعلقات اور رواداری موجود ہے۔ دوسری طرف تحریک انصاف کا موقف یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے پاس جو فنڈز آئے ان میں سے بہت سے باہر سے آئے ہیں‘ لیکن انہوںنے ڈیکلیئر نہیں کئے۔ یہاں میں یہ بات بھی بتادوں کہ ایم کیو ایم اور پرویز مشرف کی مسلم لیگ کے ایسے ہی معاملات اور کیسز بھی الیکشن کمیشن میں زیر التوا ہیں۔ اس میں زیادہ سنجیدہ معاملہ بظاہر لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کا ہوسکتا ہے۔ کیونکہ انہوں نے امریکہ یا دوسرے ممالک میں جو فنڈز اکٹھے کئے ہیں اس میں انہوں نے نائن زیرو کا ایڈریس لکھوایا ہے۔ پیپلز پارٹی نے بھی اپنی قیادت کے نام پر کمپنیاں کھولی ہوئی ہیں۔ عمران خان کا ایسا معاملہ نہیں ہے۔ ان کے اکاؤنٹس میں پارٹی کے اکاؤنٹس میں پیسے آئے ہیں۔ ان کے نام پر پیسے نہیں آئے ہیں۔ دوسری پارٹیوں کا معاملہ اس سے زیادہ سنگین ہوسکتا ہے۔ تحریک انصاف مطالبہ تو کررہی ہے کہ پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کی بھی تحقیقات سامنے لائی جائے لیکن ابھی تک انہوں نے اس حوالے سے ایم کیو ایم اور اے پی ایم ایل کے متعلق ایسی بات نہیں کہی ممکن ہے انہیں اس کا پتہ ہی نہ ہو۔ بظاہر لگ یہ رہا ہے کہ تحریک انصاف کو یقین تھا کہ اس قسم کا فیصلہ آئے گا۔ اس لئے انہوں نے اپنے ردعمل پہلے سے تیار کیا ہوا تھا۔ اس لئے یہاں دیکھنا ہوگا کہ ممنوعہ فنڈنگ اور فارن فنڈنگ میں فرق کیا ہے۔ جو فیصلہ آیا ہے اس سے یہ پتہ چل گیا ہے۔ اس فیصلے میں اسے ممنوعہ فنڈنگ قرار دیا گیا ہے۔ اس کے قانونی پہلو جتنے بھی ہیں لیکن اس کا ایک سیاسی پہلو بھی ہے۔ یہ طے ہے کہ عمران ایک مقبول سیاستدان ہیں اور یہ ناممکن ہے کہ ان کا سپورٹ بیس یہ تسلیم کرلے کہ وہ امین اور صادق نہیں ہیں اور وہ غلط بیان حلفی جمع کرانے کے مرتکب ہوئے ہیں۔ ممکن ہے یہ فیصلہ کہ ان کی مقبولیت میں اور اضافہ نہ کردے‘ اس لئے اکثر اس طرح کے فیصلے سیاستدانوں کی مقبولیت کا باعث ہی بنتے ہیں۔ سب نے دیکھا تھا کہ پانامہ کیس کے بعد لوگوں کی سپورٹ بیس نواز شریف کیلئے کم نہیں ہوئی تھی بلکہ اس میں اضافہ ہوا تھا اور انہوں نے ایک کامیاب اور مقبول بیانیہ بنالیا تھا۔ کیا مسلم لیگ کی سیاست ختم ہوگئی تھی کیا بھٹو کی پھانسی کے بعد پیپلز پارٹی کی سیاست ختم ہوگئی تھی اب عمران خان بھی بتائیں گے کہ مجھے ایک اور سازش کے تحت انتخابی میدان سے باہر رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ سب نے دیکھا ہے کہ خان صاحب بیانیے بنانے کے بھی ایکسپرٹ ہیں اور ان کے مداح بڑے جذباتی ہیں۔ آپ بدترین منظر یہ دیکھ سکتے ہیں کہ عمران خان کی پارٹی پر پابندی لگ سکتی ہے‘ لیکن اس عمل میں بہت وقت لگے گا۔ ابھی دیکھنا یہ بھی ہوگا کہ ان کے معاملات کو سننے کیلئے کتنے رکنی بنچ تشکیل پاتا ہے اور اس سلسلے میں فل کورٹ بنچ بنتا ہے لیکن زیادہ امکان یہ لگتا ہے کہ فل کورٹ بنچ نہیں بنے گا۔ اب کچھ بھی ہو کتنی بھی تکنیکی پابندیاں لگ جائیں‘ لیکن کسی کی سیاست کو ختم نہیں کیا جاسکتا‘ لیکن ہاں یہاں عمران خان کیلئے ایک مشکل پیدا ہوسکتی ہے اگر انہیں تاحیات نااہل کردیا گیا تو ان کے پاس بلاول بھٹو اور مریم نواز کی طرح کوئی ایسا جانشین نہیں ہے جو ان کی Legacy کو آگے لیکر چل سکے گا۔ عمران ضرور یہ کہیں گے کہ ہمارا ہی کیس کا فیصلہ سنایا گیا۔ یہ تو الگ الگ جماعتوں کیلئے الگ الگ قانون ہیں۔ بہرحال اب فیصلہ آگیا ہے کہ ممنوعہ فنڈنگ لی گئی پھر یہ بھی شوکاز دیا گیا کہ کیوں نہ آپ کے فنڈز ضبط کرلئے جائیں۔ یہ متفقہ فیصلہ تھا۔ یہ طے ہوگیا کہ ممنوعہ ذرائع سے فنڈز لئے گئے۔ 34 انفرادی شخصیات اور 351 مختلف غیر ملکی کمپنیوں سے فنڈنگ لی گئی ہے جو کچھ کیا گیا یہ آئین کے آرٹیکل 73 کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ جو بیان حلفی جمع کرائے گئے تھے ان کے سنگین نتائج ہوسکتے ہیں۔ اس کے نتائج پارٹی اور عمران خان دونوں کیلئے اچھے نہیں ہوں گے۔ فی الحال اس کا سیاسی پہلو ایک طرف رکھیں اس پر ہم پہلے تفصیلی بتاچکے ہیں‘ لیکن اس فیصلے سے عمران کی عمومی ساکھ اور ان کی شخصیت پر ’’مسٹر کلین‘‘ کا اسٹیکر دھندلا گیا ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ یہ کیس جب اپیل میں اعلیٰ عدلیہ کے پاس جائے گا تو وہاں بھی عمران خان پر لگا یہ نشان سوالیہ ہی رہے گا کیونکہ یہ سب کچھ اعداد و شمار اور ریکارڈ کی باتیں ہیں جن کی یقینی طور پر چھانٹ پھٹک کرلی گئی ہے‘ ممکن ہے سیاسی طور پر ان کی شہرت کو کوئی نقصان نہ ہو۔ لیکن یہ ضرور ہوگا کہ وہ چور چور اور چور ڈاکو کی بھلا تھکے جو گردان کرتے ہیں۔ اس میں وقفہ آجائے گا۔ ضروری ہے کہ عمران خان خود ریکارڈ بورڈ پر آئیں اور اس بات کا جائزہ لیں کہ غلطی ہوئی تو اس کا ازالہ کیسے ہو۔ غلطی کو درست قرار دینا کہاں کی دانشمندی ہے۔ غلطی بھی وہ جسے دانستہ کیا گیا ہو۔ پھر وہ غِطی‘ غلطی نہیں جرم بن جاتی ہے۔ عمران جس پائے کے مقبول لیڈر بن گئے ہیں انہیں ضرور کچھ سچائیوں کو قبول کرکے اصلاح احوال کا کوئی راستہ تلاش کرنا چاہئے۔