تجزیہ: سید انورمحمود تحریک انصاف کے وزرا الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم)کے معاملے پر ہنگامہ آرائی پر کیوں اترے ہوئے ہیں؟ اور کیا وہ یہ سب کچھ اپنی ایما پر کر رہے ہیں یا اوپر سے کسی اشارے یا ہدایت پر؟جوش یا اشتعال انگیزی یہ جو کچھ بھی ہے ، جو طریقہ انہوں نے چنا ہے وہ بارودی سرنگوں سے اٹے راستے سے کم نہیں ہے ۔ اور اگر آپ جان بوجھ کربارودی سرنگوں والی جگہ سے گزرتے ہیں تو آپ کو نتائج کیلئے تیار رہنا چاہیے ۔ آپ کو ایک دھماکے کیلئے تیار رہنا چاہیے ۔مسٹر سواتی نہ تو تدبیر اور صلاحیت رکھنے کیلئے جانے جاتے ہیں اور نہ ہی سیاسی دانشمندی کیلئے ۔ لیکن بابر اعوان ایک مختلف نسل سے ہیں۔ وہ باتدبیر اور قانونی اور سیاسی تجربہ رکھتے ہیں۔ ایسا ان دونوں پریس کانفرنسز کے موقع پر نظر آیا جو انہوں نے دوسرے وزرا کے ساتھ مل کر کیں۔ انہوں نے احتیاط سے الفاظ کا انتخاب کیا اور تحمل کا مظاہرہ کیا۔ دوسروں کی طرح نہیں کیا۔ان کی کل کی میڈیا کانفرنس سے جو پیغام ملا وہ یہ تھا کہ چیف الیکشن کمشنر خود ہی اپنا عہدہ چھوڑ دیں۔ جو زبان سواتی نے استعمال کی وہ انتہائی ناگوار حد تک بازاری تھی۔ پی ٹی آئی حکومت ای وی ایم اور اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ ڈالنے کے معاملے کو جس طرح سے لے کر چل رہی ہے وہ عقلمندی نہیں ہے ۔بہترین وجوہات بھی نقصان کا باعث بن سکتی ہیں اگر انہیں حکمت اور ذہانت سے بروئے کار نہ لایا جائے ۔حکومت کی نیت ٹھیک ہے اور وہ ٹھیک سمجھتی ہے کہ ای وی ایم ہی فراڈ اور دھاندلی،حقیقی یا فرضی، کا بہترین جواب ہے کیونکہ 1977سے ہر الیکشن ہی اس سے متاثر ہوتا رہا ہے ۔اور یہ ووٹوں کی گنتی میں تاخیر اورنتائج کیساتھ چھیڑخانی کے مسئلے کا بھی بہترین جواب ہے ۔ اور تحریک انصاف ٹھیک مانتی ہے کہ اب اوورسیز پاکستانیوں کو حق رائے دہی سے مزید محروم نہیں رکھا جا سکتا۔یہ سب کچھ درست ہے اور ضرور کیا جانا چاہیے ۔ نیت ٹھیک ہے لیکن صورتحال کو ٹھیک سے سمجھا نہیں جا رہا۔واضح مقصد کو پانے کی حکمت عملی ناقص ہے ۔ہر قسم کے جھوٹے تبصروں اور بہتان طرازی سے چیف الیکشن کمشنر کو بھگانے کا حربہ بھلے ہی قابل عمل لگتا ہو لیکن اس سے وہ اخلاقی بنیاد چھن جائے گی جو اب تک تحریک انصاف کی سب سے بڑی طاقت ہے ۔اگر چیف الیکشن کمشنر وہی ہیں جو سواتی کہہ رہے ہیں تو پھر پی ٹی آئی نے انہیں اس عہدے پر تعینات کیوں کیا تھا؟ جہالت یا فیصلہ کرنے کی صلاحیت کی کمی یا دونوں ہی۔میں نے چند روز قبل لکھا تھا کہ الیکشن کمیشن کو تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور جیسے کو تیسا کے طرزعمل کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے ۔ اس کی خاموشی ہی اس کا فائدہ ہوتی۔بدقسمتی سے اس نے جارحیت کا راستہ اپنایا جس سے الیکشن کمیشن جیسے ادارے کا کام نہیں چل سکتا۔یہ ایک برا دن ہوگا اگر چیف الیکشن کمشنر کو عہدے سے ہٹا دیا جاتا ہے جیسا کہ پی ٹی آئی چاہتی ہے ۔جب الیکشن کمیشن جیسے ادارے پر حملہ کیا جائے اور نقصان پہنچایا جائے تو جو حملہ کرتے ہیں وہ بھی محفوظ نہیں رہ سکتے ۔ یہ تاریخ کا سبق ہے ۔ 90ء کی دہائی میں جائیں جب مسلم لیگ ن نے سپریم کورٹ پر حملہ کیا تھا، باقی جو ہوا اسے یاد کرنا مشکل نہیں۔اگرچہ بہت زیادہ نقصان ہو چکا ہے لیکن وزیراعظم اب بھی سب کے کنٹرول سے باہر ہونے سے پہلے ہی بحران پر قابو پا سکتے ہیں۔جیسا کہ میں پہلے بھی کسی دن لکھ چکا ہوں کہ وزیر قانون کو اکیلے چیف الیکشن کمشنر کے پاس بھیجیں اور اختلافات پر بات چیت کریں۔ حکومت اور الیکشن کمیشن کو پیچھے ہٹ کر ایک لمبا سانس لینا ہوگا۔ ذمہ داری وزیراعظم کے کندھوں پر ہے ۔