عمران خان نے تو پتا نہیں لانگ مارچ لے کر آنا ہے یا نہیں لیکن پورا اسلام آباد کنٹینروں سے بھرا پڑا ہے۔ دیکھ کر خوف آتا ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے منگولوں کا کوئی لشکر شہر پر حملہ کرنے آرہا ہے شہر پناہ کی فصیل پرحفاظتی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ قائد اعظم یونیورسٹی سے لاء کی کلاس پڑھا کر نکلا تو ٹریل فائیو نے دریچہ دل پر دستک دی۔ میں نے گاڑی مارگلہ کی طرف موڑ دی۔ بری امام سے گزر کر ریڈ زون پہنچا تو ہر طرف کنٹینر ہی کنٹینر تھے ۔ ٹریل سے واپسی پر اسی راستے سے گزر کر سرینا ہوٹل کے سامنے پہنچا تو سڑک کے اطراف میں اتنی زیادہ تعداد میں کنٹینر موجود تھے کہ دیکھ کر خوف آنے لگا ۔ شام پی ٹی وی کے ایک پروگرام میں شریک ہونے گیا تو میریٹ ہوٹل کے سا منے بھی یہی صورت حال تھی ۔ ہائی کورٹ جانے کے لئے پارک روڈ سے نکل کر چک شہزاد فارمز سے آگے ٹرن لیں تو سامنے فیض آباد چوک کے اطراف بھی کنٹینرز کی قطار کھڑی ہے۔اسلام آباد میں سڑکوں کے کنارے رکھے گئے ان کنٹینرز کی تعداد سینکڑوں میں ہوگی۔مبالغے کی عادت ہو تو آسانی سے یہ تعداد ہزاروں میں بتائی جا سکتی ہے۔ ڈپلومیٹک انکلیو کے پہلو میں دو کنٹینرز تو ایسے ہیں جو طویل عرصے سے کھڑے ہیں اور ان پر اسلام آباد پولیس کا نام اور اسی فورس کا رنگ یوں کیا جا چکا ہے کہ دیکھنے سے یہ اسلام آباد پولیس کی پراپرٹی لگتی ہے۔ بنی گالہ تھانہ کے باہر بھی سالوں سے ایک کنٹینر اسی طرح کھڑا ہے۔ یہاں سے گزرتے اکثر یہ خیال آتا ہے کہ یہ کنٹینرز کس ضابطے اور کس قانون کے تحت ’ پولیسیائے‘ گئے ہیں؟ کئی دفعہ سوچا کہ آئی جی صاحب سے یا ڈپٹی کمشنر صاحب سے اس بابت ضرور رہنمائی لوں گا لیکن پھر بات بھول جاتی ہے۔ یہ کنٹینرز اگرپولیس نے خرید کر یہاں رکھے ہیں تو غیر ضروری کام ہے اور وسائل کا زیاں ہے۔ ایسی فالتو رقم اگر محکمے کے پاس آ ہی گئی ہے تو اس پر زیادہ حق پولیس کے عام ملازمین کا ہے یا پھر شہداء کے خاندانوں کا۔ راولپنڈی پولیس کے اعلی افسران اور جوانوںنے حال ہی میں جس طرح ایک شہید کانسٹیبل کی بیٹی کی شادی میں شرکت کر کے اس کے سر پر ہاتھ رکھا یہ قابل تحسین اقدام ہے۔ ایسے پیسے کنٹینر کلچر کی بجائے اس طرح کے فلاحی کاموں میں صرف ہو نے چاہییں۔ تاہم اگر پولیس نے کسی ہنگامے سے نبٹنے کے لیے کسی وقت میں کہیںسے یہ کنٹینر پکڑے اور پھر انہیں تھانوں کے باہر رکھ کر ان کی ملکیت کا دعوی کر دیا تو یہ ایک انتہائی قابل اعتراض بات ہے اور مجھے ڈر ہے کہ زیادہ امکان اسی کا ہے۔ سرینا ، میریٹ اور ڈپلومیٹک انکلیو وہ جگہیں ہیں جہاں غیر ملکی مہمان اور سفارت کار پائے جاتے ہیں۔ ان جگہوں پر بھاری تعداد میں کنٹینرز رکھ کر ہم دنیا کو کیا پیغام دے رہے ہیں؟ یہ کہ ہم ہر وقت سیاسی عدم استحکام سے دوچار رہتے ہیں اور ہمارے ہاں ہر وقت ایک ہیجان اور ایک اضطراب برپا رہتا ہے۔ کئی سالوں سے یہ کلچر بنتا جا رہا ہے کہ کوئی نہ کوئی سیاسی یا مذہبی قوت اسلام آباد پر یلغار کا اعلان کر دیتی ہے اور حفاظتی اقدامات کے نام پر شہریوں کی زندگی مشکل میں پڑ جاتی ہے ۔ ایسے تنائو کے ماحول میں انتظامیہ کے پاس ایک ہی حل ہوتا ہے کہ کنٹینر پکڑو اور راستوں پر کھڑے کر دو۔معلوم نہیں وہ کون خدا کا بندہ تھا جس کے ذہن میں سب سے پہلے کنٹینروں کا یہ استعمال آیا تھا۔جو کوئی بھی تھا خدا اس کو اجر دے لیکن وہ شہریو ںکو ایک عذاب سے دچار کر گیا ہے۔ کنٹینر کسی بھی ملک کی معاشی سرگرمی کی علامت ہوتے ہیں۔ ایک مہینہ ہونے کو آیا ہے یہ سینکڑوںکنٹینر اسلام آباد میںسڑکوں پر کھڑے ہیں ، اس کا مطلب ہے کہ معاشی سرگرمی کہیںنہ کہیں معطل ہوئی ہے تبھی یہ کنٹینرز سڑکوں پر بے کار کھڑے ہیں۔ کسی کو کچھ خبر نہیں یہ کب تک کھڑے رہیں گے۔ کیا کوئی ملک اپنی معیشت کے ساتھ ایسا سلوک کرتا ہے؟ حفاظتی اقدامات کرنے ہیں تو کوئی ڈھنگ کا طریقہ کیوں نہیں سوچا جاتا؟ یہ جو فکری جمود ہے ، اس نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ ایک زمانے میں تمام انتظامی مسائل کا حل ڈبل سواری پر پابندی کو سمجھا گیا تھا، اب کنٹینر ہمارے جملہ مسائل کا حل بن چکا ہے۔ حکومت سے سوال کیا جانا چاہیے اور کیا ہی بہتر ہو کوئی شخص پارلیمان میں کھڑا ہو کر یہ سوالات اٹھائے اور حکومت اور متعلقہ اداروںسے جواب مانگے کہ: 1۔ کنٹینرز حاصل کرنے کی پالیسی کیا ہے اور اس پر عمل درآمد کا طریق کار کیا ہے؟ 2۔ کیا کوئی حکومتی شعبہ یا وزارت تجارت تاجروں سے یہ کنٹینرز حاصل کرتی ہے یا یہ کام پولیس کے ذمے ہے۔ 3۔ ان کنٹینرز کے مالکان کی رضامندی سے انہیں حاصل کیا جاتا ہے یا پولیس اور ضلعی انتظامیہ جس کنٹینر پر ہاتھ رکھ دیں وہ ان کا مال غنیمت ہو جاتا ہے؟ 4۔ اگر یہ جبری طور پرلیے جاتے ہیں تو کیا یہ آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں؟ 5۔اگر ان کا کرایہ دیا جاتا ہے تو وہ کتنا ہے؟ ایک کنٹینر کا یومیہ کرایہ کیا ہے؟ کتنے کنٹینر لیے جا چکے ہیں ، کتنے دنوں کے لیے لیے گئے ہیں اور ان پر قومی خزانے سے کل کتنی رقم خرچ ہوئی ہے؟ 6۔ ان کے حصول کے عمل میں شفافیت کتنی ہے اور مالی شفافیت کو برقرار رکھنے کے لیے چیک اینڈ بیلنس کا نظام کیا ہے؟ 7۔ احتجاج کے دوران اگر کوئی کنٹینر تباہ ہو جائیں یا انہیں جزوی نقصان پہنچتا ہے تو اس کے ازالے کی کیا صورت ہے؟ کیا حکومت نے ان کی کوئی انشورنس کرا رکھی ہے؟نیز یہ کہ آج تک ایسے کتنے کنٹینرز کے مالکان کو کتنی رقم بطور ازالہ پیش کی گئی جن کے کنٹینر کو نقصان پہنچا ہو ؟ اور کسی کو کوئی رقم دی بھی گئی یا نہیں؟جس کا نقصان ہو جائے کیا وہ اسے تقدیر کا لکھا سمجھ کر قبول کر لیتا ہے یا اس کے پاس ریلیف کلیم کرنے کا کوئی طریقہ موجود ہے؟ موجود ہے تو وہ کیا ہے؟ریلیف کی کوئی صورت اگر ہے تو اس کے تعین کا طریق کار کیا ہے اور اس تعین میں شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے کوئی طریق کار وضع کیا گیا ہے یا نہیں؟ 8۔ اگر کوئی آدمی کنٹینر نہ دینا چاہے تو کیا اس کی رضامندی کی کوئی حیثیت ہوتی ہے یا پولیس جب اور جہاں سے چاہے جا کر کنٹینر اٹھا لے؟ 9۔ تاجر طبقہ کیا ہماری سیاسی مہم جوئی اور انتظامی کمزوروں کا تاوان سمجھ لیا گیا ہے؟ اس سارے کھیل میں اس کا کیا قصور؟ 10۔ احتجاج سے نبٹنے کے لیے پولیس کو جدید خطوط پر کیوں نہیں استوار کیا جاتا اور ان کی ضروری تربیت کیوں نہیں کی جاتی؟ کیا دنیا میں کہیںا ور بھی کنٹینرز کا یہ استعمال ہوتا ہے؟