جس طرح کراچی کی طرز معاشرت اور تمدن وقت کے ساتھ ساتھ نئے رنگ و روپ دھارتا رہا۔ اسی طرح کراچی کے باسیوں کے چٹخارے بھی نئے نئے ذائقوں کے ساتھ متعارف ہوتے رہے۔ بریانی' نہاری اور حلیم یہاں کے لوگوں کی پسندیدہ ڈشز رہی ہیں۔ ان سب میں کچھ نئے مصالحے جات اور چٹخارے کے دیگر لوازمات کا اضافہ ہوتا رہا' جب ملکہ ایلزبتھ اور پرنس فلپ پہلی بار پاکستان تشریف لائے تو شہریوں کی جانب سے فریئر ہال کے سبزہ زار پر استقبالیہ میں ملکہ برطانیہ تمام تکلفات کے باوجود پیش کئے گئے گلاب جامن کی مٹھاس اور ذائقے کی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکیں۔ رات کو صدر پاکستان کی جانب سے شاہی جوڑے کیلئے سمندر کے کنارے واقع بیچ لگڑری ہوٹل میں پرتکلف عشائیے کا اہتمام کیا گیا۔ پرنس فلپ کو قطار میں رکھے ان بے شمار کھانوں میں بریانی سب سے زیادہ پسند آئی۔ اس کے باوجود ان کی آنکھوں سے چھلکنے والا پانی بتارہا تھا کہ بریانی بڑی Spicy ہے' لیکن جب انہوں نے قریب کھڑے ویٹر سے کہا ''مور رائس پلیز'' تو صدر پاکستان نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا۔ اس کے کچھ ہفتوں بعد امریکی صدر آئرن ہاور پاکستان تشریف لائے تو فریئر ہال کا سبزہ زار اس بار بھی اپنے معزز مہمانوں کی میزبانی کیلئے تیار تھا اور یہاں بھی شرکا کی حیرت اس وقت دیدنی تھی جب انہوں نے آئزن ہاور کو چٹ پٹی چاٹ کے چٹخارے لیتے دیکھا۔ گو کہ اس کے بعد انہیں ہینڈ میڈ آئسکریم کھانے کی ضرورت پیش آئی۔ یہ وہ دور تھا جب کراچی ایک ترقی یافتہ اور خوشحال شہر بن کر ابھر رہا تھا۔ لالو کھیت جو کبھی ایک دیہی علاقے کی مانند تھا' کچھ علاقے تو ایسے بھی تھے جہاں کھیت تھے اور سبزیاں اور فصلیں اگائی جاتی تھیں۔ وقت نے اس کا چہرہ بھی بدلا اور بتدریج یہاں پختہ کوارٹر بھی بن گئے اور اس سے آگے نئی بستی فیڈرل بی ایریا کی شناخت سے اپنے ابھرنے اور پھیلنے کی خبر دے رہی تھی۔ آج آپ جب لالو کھیت سے گزرتے ہیں تو یہ تجارتی اور رہائشی طور پر شہر کا ایک انتہائی گنجان علاقہ نظر آتا ہے۔ سچ پوچھیں تو لالو کھیت کے حوالے سے سیکڑوں تلخ و شیریں یادیں ہیں۔ یہ کبھی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ تحریکوں کا نقطہ آغاز اسی علاقے سے ہوتا تھا۔ یہاں کی یادیں دہراتے ہوئے گزرے دنوں میں ممتاز طالب علم رہنما علی مختار رضوی بتارے تھے کہ یہاں واقع ہوٹل ''کیفے دولت'' ایک زمانے میں سیاسی منصوبہ بندیوں کا مرکز اور اہم سیاسی اکابرین کی بیٹھک ہوا کرتی تھی۔ طالب علم رہنما ئوں یا سیاسی شخصیات اس ہوٹل میں چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے مستقبل کی پلاننگ کیا کرتے تھے اور شاید یہاں کے لوگ اس واقعہ کو کبھی فراموش نہیں کرسکے ہوں۔ جب 1965ء کے انتخابات کے بعد جو بی ڈی سسٹم کے تحت ہوئے، مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی کراچی میں فتح پر گوہر ایوب خان نے جو اس وقت کے حکمران فیلڈ مارشل ایوب خان کے بڑے صاحبزادے تھے۔ انہوں نے مسلح افراد پر مشتمل ایک جلوس نکالا۔ یہ نہ جانے ایوب خان کی فتح کا جلوس تھا یا کراچی کے فیصلے کے خلاف احتجاجی ریلی۔ فائرنگ کے واقعات ہوئے اور وہ کراچی کے چہرے پر کھرونچے لگاکر چلے گئے۔ انسانی جانوں کے ضیاع کے واقعے نے کراچی کے شہریوں کے ذہنوں میں بہت سے سوالات اور اندیشے پیدا کئے۔ کراچی نے نہ جانے کتنے زخمی کھائے ہیں' لیکن یہ بھی اس شہر کی خوبی ہے کہ یہ شہر زخم کھاتا رہا' لیکن متحرک رہا' جاگتا رہا' جگمگاتا رہا۔ اس بات میں بھی کوئی شک نہیں اور یہ بات ہر پاکستانی تسلیم کرتا ہے کہ کراچی کے لوگ سب سے زیادہ پڑھے لکھے' مہذب و متمدن اور باشعور ہیں۔ یہاں کے لوگ تما م تر مدر جزر کے باوجود اس شہر سے محبت کرتے ہیں۔ یہ اونچی عمارتوں کا شہر ہے۔ یہاں آپ جس طرف نکل جائیں آپ کو جابجا کئی کئی منزلہ رہائشی فلیٹوں پر مشتمل عمارتیں' تجارتی مقاصد اور دفاتر کے حوالے سے بلند و بالا اور خوبصورت پلازے' ساتھ ساتھ ایک علاقے کو دوسرے سے ملانے والی جابجا سڑکیں نظر آئیں گی۔ کراچی کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ شہر سب سے زیادہ سخی دل ہے۔ یہاں پر انتہائی موثر اور متحرک سماجی اور ویلفیئر خدمات کے ادارے موجود ہیں۔ ایدھی' چھیپا اور دیگر متعدد عوامی خدمت کے اداروں کی ایمبولینس سروسز 24 گھنٹے پوری ذمہ داری اور تندہی کے ساتھ کراچی کی سڑکوں پر نظر آتی ہیں۔ غریبوں کیلئے ان اداروں کے علاوہ مخیر حضرات کی جانب سے راشن اور نقد رقوم کی فراہمی کا سلسلہ چلتا چلا جارہا ہے۔ یہاں سیلانی کے علاوہ مختلف اداروں نے مختلف حوالوں سے غریب لوگوں کیلئے وسیع و عریض دستر خوانوں کا بندوبست کررکھا ہے۔ جہاں ہزاروں لوگ روزانہ اپنا پیٹ بھرتے ہیں۔ پھر کراچی تمام مصیبت زدہ لوگوں کیلئے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ توانائی اور فراخدلی کے ساتھ کھڑا ہوجانے والا شہر ہے۔ خواہ یہ سیلاب کے متاثرین ہوں' بارشوں سے تباہ حال یا زلزلوں کی صورت میں سب کچھ اجاڑ بیٹھنے والے لوگ کراچی ان سب کیلئے امید کی کرن ہے۔ اس شہر کی بدنصیبی بھی دیکھئے، ایک مستند رپورٹ کے مطابق کراچی نہ صرف دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شمار ہوتا ہے بلکہ منشیات کی بھرمار اور استعمال کے حوالے سے اعداد و شمار بہت پریشان کن ہیں۔ یہ بھی سوچنے کا مقام ہے کہ 1960ء اور 70ء کی دہائی میں اس شہر میں جہاں صنعتی ترقی نے اپنے پنجے گاڑے تھے' کارخانوں سے نکلنے والے دھوئیں اس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ اس شہر نے ایک صنعتی انقلاب کو جنم دیا ہے۔ ہر فیکٹری کے دروازے پر لگا یہ بورڈ کتنے محنت کشوں کے لئے امید اور سہارا بنتا تھا' جن پر یہ تحریر درج ہوتی تھی کہ فیکٹری کو آج اتنے مزدوروں' ٹیکنیشنز اور کاریگروں کی ضرورت ہے۔ اب یہاں سناٹے کیوں ہوتے جارہے ہیں۔ متحرک کارخانے اور فیکٹریاں ویئر ہاؤسز میں کیوں تبدیل ہورہے ہیں۔ یہاں کی سڑکیں ٹوٹی ہوئی اور ادھڑی ہوئی ہیں۔ یہاں کا ڈرینج سسٹم آؤٹ آف ڈیٹ ہوگیا ہے۔ کراچی کے اس ہچکولے کھاتے سفر میں جابجا مشکلات نظر آتی ہیں' کہیں انتظامی' کہیں حکومتی اور کہیں سیاسی اور سب سے بڑھ کر اخلاص اور اس شہر سے محبت و لگن کی کمی دکھائی دیتی ہے۔ کیونکہ جب ہم آزادی سے قبل کراچی پر نظر ڈالتے ہیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ کراچی کی ترقی میں پارسیوں نے ناقابل فراموش کردار ادا کیا تھا۔ ان کی تعمیرات اور ان کے بنائے ہوئے اداروں کے نام کی گونج آج بھی ہمیں سنائی دیتی ہے۔ پارسیوں کو جدید تعلیم کا بخوبی اندازہ تھا۔ وہ اپنے کاروباری اور انتظامی صلاحیتوں کے سبب انگریزوں کے دل جیت چکے تھے اور جانتے تھے کہ اگر انہوں نے ابتدائی عمر سے ہی بچوں کی تعلیم پر توجہ نہ دی تو آئندہ کی نسل ترقی نہیں کرسکے گی۔ ایڈلجی ڈنشا پارسی تھے' جنہوں نے سندھ کے سب سے بڑے شہر کراچی کیلئے اپنا سب کچھ وقف کردیا تھا۔ انہوں نے 12 اسپتال اور کئی رفاعی ادارے قائم کئے' لیکن ڈنشا خاندان کا سب سے بڑا تحفہ نادر شا ایڈلجی ڈنشا انجینئرنگ یونیورسٹی ہے جو NED کے نام سے معروف ہے۔ (جاری ہے)