ڈالر کی بڑھتی ہوئی قدر' پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ' بجلی گیس کے نرخوں میں تیزی سے بڑھتا اضافہ' اشیاء خورو نوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ اس ساری صورتحال میں اتحادیوں خاص کر مسلم لیگ (ن) کا ووٹر اور سپورٹر سخت مایوسی کا شکار دکھائی دیتا ہے۔ پھر پنجاب میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج معاملات کو سمجھنے کیلئے کافی ہیں۔ ایسے میں اگر حکومت انتخابات کیلئے جاتی ہے تو وہ اتنا بوجھ اٹھاکر پوری توانائی اور جوش و خروش سے انتخابی معرکہ لڑنے کیلئے یقینا تیار نہیں ہوگی۔ اسی لئے اتحادیوں خصوصاً مسلم لیگ (ن) کو اس پوری صورتحال کا جائزہ لینا ہوگا۔ خواہ مخواہ کے خواب دیکھنے کے بجائے حقیقت پسندی سے ساری صورتحال کا جائزہ لینا چاہئے۔ یہ درست ہے کہ وقت اور حالات انسان کو بہت کچھ سکھادیتے ہیں اور یہ بھی درست ہے کہ غلطیاں انسان کی سب سے بڑی استاد ہوتی ہیں' لیکن معاملہ یہ ہے کہ وفاق میں اتحادی جماعتیں اپنی غلطیوں سے کیا کچھ سیکھ رہی ہیں۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ عمران کو ہٹاکر غلطی کی گئی اور جس حکمران کی ساکھ اور وقار ڈوبتا نظر آرہا تھا اس وقت کی حزب مخالف نے اسے بے وقت ہٹاکر نا صرف مظلوم بنایا بلکہ وہ ہیرو بن گیا۔ پھر یہ عمران خان تھے جن کو موافق حالات ملے۔ انہوںنے عوام کی خواہشات اور امنگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے امریکن مخالف بیانیہ بنایا۔ وہ سچ تھا یا جھوٹ لیکن یہ حقیقت ہے کہ عام لوگوں میں اسے پذیرائی ملی۔ انہوںنے بڑی برق رفتاری سے ایک عوامی مہم چلائی' ہر طرف اور ہر جگہ وہ اپنی بات کو دہراتے رہے۔ عام آدمی کو یہ بتاتے رہے کہ وہ ایک مستحکم حکومت چلارہے تھے۔ اتحادیوں نے آکر ملک کا بیڑا غرق کردیا۔ یہ عمران کی عادت ہے یا آپ انہیں ان کی خوبی کہہ لیں کہ وہ بڑی چابکدستی سے اپنی بات کہتے ہیں' بار بار کہتے ہیں' اتنی صفائی اور اس انداز سے کہتے ہیں کہ وہ سو فیصد درست نظر آتی ہے۔ اب ان کے سامنے سب سے بڑا ٹارگٹ یہ ہے کہ وہ جلد از جلد کس طرح الیکشن کراسکتے ہیں۔ ان کی دلی خواہش تو یہ ہوگی کہ وہ کے پی اور پنجاب کی اسمبلی کو تحلیل کئے بغیر قومی اسمبلی کے انتخابات کا انعقاد ہوجائے' لیکن یہ اس طرح شاید نہ ہوپائے۔ اگر کوئی بیچ بچاؤ کی کوشش ہوئی بھی تو اس میں بنیادی شرط شاید یہی ہوگی کہ اگر شہباز شریف قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے کی ایڈوائس دیتے ہیں تو اس سے پہلے ان کی یہی شرط ہوگی کہ تمام صوبائی اسمبلیاں بھی تحلیل کی جائیں۔ اتحادیوں میں بھی اس حوالے سے ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ آصف علی زرداری کبھی بھی نہیں چاہیں گے کہ سندھ اسمبلی وقت سے پہلے تحلیل کی جائے۔ وہ ایک بڑے صوبے پر حکومت کررہے ہیں۔ اس صوبے میں کراچی جیسا شہر موجود ہے جو درحقیقت پاکستان کا فنانشل کیپٹل ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان مختلف الاقسام افراد کا ملک ہے۔ شہری اور دیہی مالدار اور غریب' اعلیٰ تعلیم یافتہ اور جاہل یہاں تقریباً 220 ملین افراد رہتے ہیں' یہاں مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں۔ اعتدال پسندوں کا مقابلہ متعصب انتہا پسندوں سے اور مغربیت کے حامیوں کا سامنا قدامت پسند اور روایتی معاشرے سے ہے۔ ہمارے ہاں اس وقت جو حالات ہیں اس کا ذمہ دار خواہ کوئی بھی ہو لیکن لگتا ہے کہ اس ملک پر حکومت کرنا ایک دشوار ترین کام ہے۔ یہاں ہر سیاسی پارٹی کی اپنی کہانی ہے۔ یہ کہانی ہنگامہ خیز بھی ہے اور ہلچل سے بھرپور بھی۔ ابدھی بہت سوجھ بوجھ والا شخص بھی یہ نہیں بتاسکتا یا پورے یقین سے یہ اندازہ نہیں کرسکتا کہ ہمارے ہاں اگلے چند سالوں میں کیا کیا سماجی' سیاسی' اقتصادی اور معاشی تبدیلیاں آسکتی ہیں۔ یہ ابھی ہم دھندلے انداز میں تو بتاسکتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں بین الاقوامی طور پر ہمیں کن چیلنجوں کا سامنا ہوگا۔ میں سمجھتا ہوں کہ بین الاقوامی تعلقات کے مضمون کا طالب علم یہ خواہش رکھتا ہے کہ نہ صرف پاکستان بلکہ تمام دنیا کے ممالک کا مستقبل پرامن اور خوشحال ہو' لیکن جب ہم اپنی معاشی صورتحال پر نظر ڈالتے ہیں تو آج ہمیں یہ صاف نظر آرہا ہے کہ یہ صورتحال بہت خراب اور دیوالیہ پن کے قریب ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمارے لیڈروں نے کسی قسم کے قدغن کے بغیر ملک کو بہت بری طرح اور بغیر کسی فکر اور طویل المیعاد منصوبہ بندی کے اصول کے تحت چلایا۔ ہمارے ہاں کرپشن اور اقربا پروری عام ہے۔ تمام حکومتی ادارے اور سرکاری کمپنیاں نااہل سربراہوں اور ڈائریکٹروں کی تقرریوں کی وجہ سے جنہیں اعلیٰ ترین حکومتی حلقوں کی آشیر باد حاصل ہوتی ہے' کرپشن کا شکار ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں کرپشن نیچے سے اوپر تک چل رہی ہے۔ ہمارے ہاں 15 فیصد لوگ ایماندار ہیں۔ 35 فیصد بے ایمان ہیں اور 50 فیصد یہ دیکھتے ہیں کہ ہوا کیسے چل رہی ہے اور وہ پوری احتیاط سے اپنا داؤ کیسے لگاسکتے ہیں۔ مالی کرپشن تو ایک طرف پوری حکومتی مشنری اقربا پروری اور نااہل لوگوں سے بھری پڑی ہے۔ یہ اسی قسم کی صورتحال ہے جس کی وجہ سے عمومی طور پر عوام ناامید ہوگئے ہیں۔ پاکستانیوں کا ملک میں چلنے والے ہر طرح کے نظام سے اعتماد اٹھتا جارہا ہے۔ خصوصاً نوجوان بددل اور مایوس ہورہے ہیں۔ اس لئے وہ جھوٹے' سچے وعدوں اور دعوؤں پر آنکھیں بند کرکے اعتماد کرنے لگے ہیں۔ میری ذاتی رائے ہے کہ حکومت کی کشتی کو ڈوبنے سے بچانے' صحیح سمت کی طرف موڑنے اور اسے چلانے کیلئے جس قسم کے لیڈر اور ریفارمر کی ضرورت ہے وہ فی الحال نظر نہیں آرہا جو قومی اعتماد اور حوصلے کی ازسر نو تعمیر کرسکے۔ جو وفاق کو مضبوط بنائے۔ بین الصوبائی رابطوں کو فروغ دے اور قومی یکجہتی کی بحالی کیلئے کام کرکے معیشت کی بہتری کیلئے فوری اقدامات کرے تاکہ سرمایہ داروں کا اعتماد بحال ہوسکے۔ قانون کی حاکمیت کو یقینی بنائے جس سے قومی انصاف کی ترسیل ممکن ہو۔ ریاستی اداروں سے سیاست کا خاتمہ اقتدار کا عوامی سطح تک منتقلی اور فوری اور غیر جانبدارانہ احتساب کم از کم کوئی اتنا تو کرے۔ ہے کوئی جو اتنا کرے۔ قوم کی مایوسی ختم کردے' اسی کے ماتھے پر لہراتے سوالات کا جواب دیدے' اگر آپ سب مل کر اتنا بھی نہیں کرسکتے اور کم از کم اپنے اندر قومی اور عوامی مسائل کے حوالے سے اتنی تڑپ تو پیدا کرلے' جتنی تڑپ یہ سب اقتدار حاصل کرنے کیلئے رکھتے ہیں۔(ختم شد) ٭٭٭٭٭