خواتین کو ہراساں کیا جائے تو قانون موجود ہے اور ہر ورک پلیس پر اس کا ابلاغ بھی اہتمام کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ ایسا ہونا بھی چاہیے کیونکہ یہ ایک ایسا غلیظ جرم ہے جسے نظر انداز کرنا معاشرے کی بنیادیں ادھیڑنے کے مترادف ہے۔لیکن فرض کریں کوئی خاتون کسی مرد پر جھوٹا الزام عائد کر دیتی ہے کہ اس نے مجھے ہراساں کیا اور محکمانہ انکوائری کے بعد ثابت ہو جاتا ہے یہ الزام جھوٹا تھا تو اس شخص کے پاس ازالے کی کیا صورت ہے جس کی عزت ، وقار اور کردار کا تماشا بنایا گیا؟۔۔۔۔۔کیا قانون سازوں کے پاس اس سوال کا کوئی جواب ہے یا ان کا کام صرف یہی ہے کہ اسلامی دنیا سے دبائو آئے تو حدود آرڈی ننس نافذ کر دو اور سیکولر دنیا سے دبائو آئے تو انسداد ہراسانی جیسے یک رخے قوانین بنا کر نافذ کر دو؟ یہ سوال میں محض مفروضے کی بنیاد پر نہیں اٹھا رہا،مشاہدے کی بنیاد پر اٹھا رہا ہوں۔ ایسے کئی مقدمات دیکھ چکا ہوں جو انتقاما قائم کرائے گئے اور جھوٹے تھے۔ کوئی افسر کام ایمانداری سے کراتا تھا ، ڈسپلن کے معاملے میں سخت تھا ، غیر ضروری ریلیکس نہیں کرتا تھا ، اوقات کار کی پابندی کراتا تھا اور سرکاری دفتر میں کسی کے مزاج پر یہ ڈسپلن گراں گزرا تو سیدھا ہراساں کرنے کا الزام لگایا اور اس شریف آدمی کی عزت کھڑے کھڑے خاک ہو گئی۔ایسے شواہد بھی موجود ہیں کہ یہ الزام دفتری سیاست کی چپقلش کی وجہ سے لگایا گیا کہ کسی ایک کو ذلیل کر دیا جائے بھلے بعد میں الزام ثابت ہو یا نہ ہو۔ یہ وہی نفسیات ہے جو جھوٹی ایف آر درج کراتی ہے کہ بے شک بندہ بعد میں بری ہو جائے لیکن مقدمے کے نتیجے میں ذلت اور مشقت سے تو گزرے گا۔ مقدمے کا فیصلہ مقصود نہیں ہوتا، یہی ذلت مطلوب ہوتی ہے اور جب حریف اس سے گزر گیا تو سمجھیے ’’ رانجھا راضی ہو گیا‘‘۔ خواتین کی عزت اور وقار کے تحفظ کے لیے قانون ہونا چاہیے ۔ موجودہ قانون سے سخت بھی ہو تو کوئی مضائقہ نہیں۔ ایسے آدمی کے لیے عمر قید کی سزا بھی تجویز کر دی جائے تو مناسب ہو گا۔یہ جو دفاتر میں جاب کرتی ہیں ، اسی سماج کی بہنیں بیٹیاں ہیں۔ انہیں کوئی ہراساں کرتا ہے تو اس کی سزا غیر معمولی ہونی چاہیے تا کہ باقی کے اوباش اس سے عبرت پکڑیں۔لیکن یہاں سوال قانون کے ادھورے پن کا ہے۔قانون کتنی ہی نیک نیتی سے کیوں نہ بنایا جائے اگر اس کے یک رخے پن کو ختم نہیں کیا جاتا اور اس کے سوئے استعمال کے راستے بند نہیں کیے جاتے تو وہ قانون معاشرے کے لیے عذاب بن جاتا ہے۔ اس قانون کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ ہراساں کیے جانے کی شکایت پر مرد کا تو ناطقہ بند کر دیتا ہے لیکن شکایت کے غلط ثابت ہو جانے پر یہ قانون ایسے لاتعلق ہو جاتا ہے جیسے ہوا ہی کچھ نہیں۔اس میں پھر یہ مشکل بھی آن پڑتی ہے کہ ایسی شکایت کے لیے ثبوت کیسا چاہیے؟ اس واردات میں شہادت کا معیار کیسا ہو؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ بار ثبوت کی زیادہ سختی عملا اس قانون ہی کو ختم نہ کر دے اور خواتین اس خوف سے حقیقی واقعات کی شکایت کرتے ہوئے بھی ڈرنے لگیں کہ نصاب شہادت کے سخت پیمانے پر شکایت پورا نہ اتر سکی تو ایک نیا عذاب کھڑا ہو جائے گا۔یہی وہ نکتہ ہے جو قانون سازوں کی توجہ چاہتا ہے۔ قانون سازوں کے پاس اس کا وقت نہیں تو اسلامی نظریاتی کونسل کو چاہیے وہ اس معاملے کو دیکھے اور ایک ایسا قانون وضع کرنے میں معاونت کرے جس سے عورت کا استحصال ہو نہ مرد کا۔ ہراساں کیا جانا قابل نفرت جرم ہے۔ لیکن کسی پر اس کا جھوٹا الزام لگانا بھی کم قابل نفرت نہیں۔تصور کریں کہ کسی پر یہ جھوٹا الزام عائد کر دیا جائے تو اس کی سماجی زندگی کس عذاب سے ددوچار ہوتی ہو گی۔وہ اہل خانہ کا سامنا کیسے کرتا ہوگا؟ ایسی صورت میں اگر تحقیقات کے بعد وہ الزام جھوٹا ثابت ہو تو وہ آدمی کہاں جائے؟ ایک ممکنہ جواب یہ ہو سکتا ہے کہ وہ سول کورٹ سے رجوع کرے اور عمومی ریلیف کلیم کرے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ازالے کی یہ صورت کافی ہے؟ اگر الزام عائد کر کے کارروائی کی گنجائش دینے کے لیے الگ سے قانون بنایا گیا تو ازالے کی صورت اسی قانون میں کیوں نہیں شامل کر دی گئی ؟ عمومی قوانین میں تو وہ سالوں انتظار کی سولی پر لٹکتا رہے گا۔ ایسے مقدمات کو حتمی انجام تک پہنچنے میں دس سال کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ جھوٹے الزام کی بات اگر اسی قانون میں شامل کر دی جائے اور اسی طرح فوری اس پر عمل درآمد ہو جیسے شکایت پر ہوتا ہے تو معاملے کی نوعیت ہی بدل جائے۔حال ہی میں ایک کیس ریڈیو پاکستان سے سامنے آیا ۔ ایک سینئیر پروڈیوسر پر الزام لگایا گیا۔ کارروائی ہوئی ، محکمانہ کارروائی میں الزام جھوٹا ثابت ہوا ۔ لیکن یہاں جس پر الزام لگا تھا اس نے خاموشی اختیار نہیں کی۔ کمیٹی سے بے گناہ قرار دیے جانے پر اکمل شہزاد گھمن نے ریڈیو پاکستان کے اعلی افسران اور سیکرٹری انفارمیشن تک کو نوٹس بھیج دیا کہ آپ سب نے میری عزت کو اچھالا ، آپ سب مجھ سے معافی مانگیں ورنہ میں آپ کو عدالت لے جائوں گا۔ ایسا اقدام مگر کتنے ملازمین کر سکتے ہیں کہ وزارت کے فیڈرل سیکرٹری کو نوٹس بھیج دیں۔ اعلی افسران کے خلاف کارروائی کون کرتا ہے اور انہیں نوٹس کون دیتا ہے؟ بالعموم ایسی گستاخی نہیں ہوتی۔ لیکن جب غلط الزام آپ کی روح گھائل کر دے تو ایسا ہو جاتا ہے۔جنہوںنے معذرت کر لی ان کا معاملہ ختم ہو گیا لیکن جنہوں نے نہیں کی ان کا معاملہ اب عدالت میں ہے۔مدعی کا دعوی یہ ہے کہ میرے اوپر غلط الزام لگایا گیا اور اب جب کہ میںمحکمانہ کارروائی میں بے گناہ قرار دیا جا چکا ہوں تو میری ذات جس کرب سے گزری اس کا ازالہ کیا جائے اور جس نے جھوٹا الزام لگایا، اس کے خلاف کارروائی کی جائے۔ کل میری اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئر مین ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب سے بات ہو رہی تھی۔ انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ اس معاملے میں قانون سازوں کوکچھ کرنا تو چاہیے۔کیونکہ اس نوعیت کا جھوٹا الزام معمولی بات نہیں ہے۔جس طرح جرائم کی ’ فیملیز ‘ ہوتی ہیں اسی طرح اس معاملے کو بھی دیکھنا چاہیے۔ زنا ایک جرم ہے لیکن اس کے قریب بھی نہ پھٹکو کی بات اصل میں اس جرم کی پوری ’ فیملی‘ سے دور رکھنے کی کوشش ہے۔ اسی طرح کا معاملہ یہاں بھی ہے۔ ہراساں کرنے کا جھوٹا الزام بھلے قذف نہ کہلاتا ہو لیکن اس کا تعلق قذف ہی کی ’ فیملی‘ سے ہے۔ اس معاملے کو ظاہر ہے کہ قذف کے پیمانے پر تو نہیں پرکھا جا سکتا لیکن اسے محض ہتک عزت قرار دے کر روایتی قانونی ازالے کے رحم و کرم پر بھی نہیں چھوڑا جا سکتا جہاں معاملے کو حتمی شکل اختیار کرتے سالوں ہی نہیں بعض اوقات عشروں بھی بیت جاتے ہیں۔ ٭٭٭٭