داخلی صف بندیوں میں الجھی قوم کو خبر ہو کہ آج’ یوم سیاہ‘ ہے۔ایک یوم سیاہ کشمیری قوم 27 اکتوبر کو مناتی تھی اور ایک مزید یوم سیاہ اس پر پانچ اگست کو مسلط کر دیا گیا ۔ ہم اپنے وزیر اعظم کی قیادت میں ایک جمعے کو پورے نصف گھنٹے کھڑے ہوئے اور اپنے تئیں سرخرو ہو گئے۔ اب ہم داخلی جھگڑوں کی غلاظت میں یوں دھنسے ہیں کہ قومی معاملات کی کوئی خبر ہی نہیں۔کشمیر کا تو اب یوم ہی نہیں سارے کے سارے شب و روز سیاہ ہو چکے ہیں۔ ایک طالب علم کے طور پر مجھے دکھ ہوتا ہے کہ ہم داخلی سیاست کی دلدل میں یوں اترے پڑے ہیں کہ ہمارے پاس سنجیدہ قومی مسائل پر بات کرنے کا وقت ہی نہیں۔ کیا صحافت اور کیا سیاست ، ہر سمت سطحیت ، جذباتیت اور نفرت کا آسیب اترا پڑا ہے۔ میرے جیسا ایک بے بس آدمی بس اسی بات پر قدرت رکھتا ہے کہ اس اجتماعی غیر سنجیدگی پر جلتا کڑھتا رہے۔ یہ تو ہمیں معلوم ہے کہ مودی نے کس طرح بین الاقوامی قوانین ، سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کی قراردادوں ، اقوام متحدہ کے چارٹر اور شملہ معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یکطرفہ طور پر کشمیر کو بھارتی یونین میں ضم کرنے کا غیر قانونی اعلان کیا جو کسی جنگی اقدام سے کم نہیں تھا لیکن کیاہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ بھارت نے اس کے بعد سے لے کر اب تک ان تین سالوں میں مقبوضہ کشمیر میں کون کون سے قوانین میں ترمیم کی ہے اور کتنے نئے قوانین متعارف کرائے ہیں اور ان قوانین کی نوعیت کتنی سنگین ہے؟ کیا ہم سب اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ ڈیموگرافی بدل دینے کے بعد اور مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کو اقلیت میں تبدیل کر دینے کے بعد بھارت اقوام متحدہ سے کہے کہ وہ اب کشمیر میں استصواب رائے کو تیار ہے؟ کسی کا خیال ہے کہ مودی کے اقدام سے بھارت وہیں رک جائے گا یا اس ظالمانہ اور غیر قانونی بندوبست کو کوئی امکانی حل کے باب میں درج کر کے ناگزیر برائی کے طور پر قبول کرنے کی طرف مائل ہے تو یہ اس کا خیالِ خام ہے۔ پاک بھارت معاملے کو جاننے والے یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ بھارت شروع سے جارحانہ پیش قدمی کو بطور پالیسی اختیار کیے ہوئے ہے اور اس نے آزاد کشمیر تک آنا ہے۔یہ اب ہماری بصیرت پر منحصر ہے، ہم نے اسے کہاں روکنا ہے اور ہماری باٹم لائن کیا ہے۔باٹم لائن کے تعین میں البتہ ایک طالب علم کے طور پر عرض کر دوں کہ یہ مقبوضہ کشمیر ہی ہے۔ کسی بھی عنوان اور کسی بھی خام خیالی سے اگر مقبوضہ کشمیر میں بھارتی اقدامات سے صرف نظر کر لیا گیا تو باٹم لائن ادھڑ کر رہ جائے گی۔ کشمیر کا معاملہ اپنی مبادیات سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ ہر عشرے بعد ایک نومولود خوش خیالی ہمیں گرفت میں لے لیتی ہے۔ہماری سادگی کا یہ عالم ہے کہ جب بھارت ایک طے شدہ پالیسی کے تحت دھیرے دھیرے پیش رفت کر رہا تھا تو ہمارے وزیر اعظم محمد علی صاحب فرما رہے تھے: ’’ بھارت بڑا بھائی اور بڑا بھائی میری توقع سے زیادہ فراخدل ثابت ہوا ہے۔ مجھے تو اب یہ بھی معلوم کہ سابق وزیر اعظم کہاں دفن ہیں ورنہ ان کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرتا کہ یہ رہی آپ کی بھائی بندی ، اب کیا فرماتے ہیں آپ۔اسی سادگی کا شکار پرویز مشرف بھی ہوئے اور نتائج ہمارے سامنے ہیں۔سمجھنے کی بات یہ ہے کہ بھارت کے معاملے میں آپ طے شدہ پالیسی سے جہاں بھی نرمی دکھائیں گے اسے آپ کی کمزوری سمجھا جائے گا۔اور ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہماری قیادت نرمی دکھانے پر ہمہ وقت تلی ہوتی ہے۔مثالی اور امکانی حل کی بات کی معنویت سے انکار نہیں لیکن ہر چیز کا ایک وقت ہوتا ہے۔ ہم نے ایک کشمیر کمیٹی بنائی تھی۔ کچھ بزرگوں نے اس کمیٹی کی سربراہی کے نام پر وفاقی وزراء کی کالونی میں رہائش بھی رکھی اور مراعات بھی وفاقی وزیر والی لیں لیکن کارکردگی کا سوال کریں تو ان کے وابستگان خفا ہو جاتے ہیں کہ کشمیر آزاد کرانا ہمارا کام تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا کبھی انہوں نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ اس کمیٹی کا مینڈیٹ کیا تھا؟ کشمیر آزاد کرانا یقینا اس کمیٹی کا مینڈیٹ نہ تھا لیکن اس آزادی کے لیے جو ہمہ جہت کاوشیں درکار ہیں اس میں چند ذمہ داریاں تو اس کمیٹی کو دی گئی تھیں۔ ایسے ایسے لوگ ہم نے کشمیر کمیٹی کے سربراہ بنائے رکھے جن کی کشمیر سے وہی فکری نسبت تھی جو کسی قصاب کو مرزا غالب کے کلام سے ہو سکتی ہے۔اب کمیٹی کی ذمہ داریوں کا حساب کون رکھے؟ انہیں میں سے ایک ذمہ داری یہ بھی تھی کہ یہ کمیٹی کشمیر میں ہونے والے حالات و واقعات کی رپورٹ مرتب کرے گی۔ سوال یہ ہے کیا ہم کشمیر کمیٹی سے پوچھ سکتے ہیں کہ ان تین سالوں میں کشمیر کی داخلی صورت حال پر اس نے کیا کام کیا ہے اور کیا اس نے کچھ مرتب کیا ہے؟بلکہ اس سوال کا تعلق صرف تین سالوں سے نہیں ، جب سے یہ کمیٹی بنی ہے اس نے کوئی ڈھنگ کا کام کیا ہے تو بتا دیجیے۔کشمیر کے نام پر بھی اگر ہم نے پارلیمانی اکابرین کے لیے لنگر خانہ کھولنا ہے تو اس سے افسوسناک صورت حال اور کیا ہو سکتی ہے۔ جو کام ریاستی سطح پر ہونا چاہیے تھا وہ کام البتہ لیگل فورم فار کشمیر نے کر دیا ہے۔لیگل فورم فار کشمیر نے اگست 2019 سے اگست2022 کے دووران مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے بھارتی اقدامات ، قوانین ، سرکاری نوٹیفیکیشنز کو جمع کر دیاہے اور اسے Colonial Diary کے نام سے شائع کیا ہے۔اس میں درجنوں ایسے قوانین اپنے متن کے ساتھ شامل کیے گئے ہیں جو بھارت نے اس سالوں میں مقبوضہ کشمیر میں متعارف کرائے ہیں۔ یہ قوانین اتنے سنگین اور خوفناک ہیں کہ انہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ یہ مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدل دیں گے اور مقامی ڈیموگرافی کو تباہ کر دیں گے۔ یہ قوانین مسلمہ حقوق انسانی سے بھی متصادم ہیں اور کشمیر کے باب میں اقوام متحدہ جو اصول طے کر چکی ہے اس کی بھی صریح خلاف ورزی ہیں۔میرے بس میں ہو تو میں تمام اراکین پارلیمان کو یہ Colonial Diary پڑھنے کو دوں ۔ یہ ایک انتہائی غیر معمولی دستاویز ہے لیکن میرے لیے حیرت کی بات ہے کہ پاکستان میں یہ کہیں زیر بحث نہیں ہیں۔ نہ پارلیمان نے پاس وقت ہے نہ میڈیا کے پاس۔ یہ دونوں سطحی اور بے مغز موضوعات کے اسیر ہو چکے ہیں۔ملک میں ہیجان کی سی کیفیت پیدا کر دی گئی ہے۔ سیاسی استحکام تو لگتا ہے روٹھ گیا ہے۔ آئے روز احتجاج ، آئے روزدھرنے اور لانگ مارچ۔ یہ کون سی سیاست ہے کہ ملک اور معاشرے کو ہمہ وقت اضطراب سے دوچار رکھا جائے؟آپ کی سفارت کاری کا براہ راست تعلق آپ کی معیشت سے ہے اور آپ کی معیشت اس وقت تک درست نہیں ہو سکتی جب تک ملک میں سیاسی استحکام نہ ہو۔