ہم اس لیے پسماندہ تر ہوتے چلے جا رہے ہیں کہ سیاست اور موبائل فون ہماری قوم کی تخلیقی صلاحیتوں کو کھا رہے ہیں۔ ادارے اور اہم شخصیات سیاسی رابطوں میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ انگلستان میں مقیم ہمارے دوست ہارون ملک اس بار ولیم شیکسپیئر کے گائوں گئے۔ انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ تصاویر اور کچھ معلومات بانٹیں گے۔ مجھے حیرت ہوئی کہ شیکسپیئر کے 500سال سے زائد پرانے گھر پر ایک ایسا بورڈ نصب ہے جو بھارتی حکومت نے خاصی کوشش کے بعد وہاں لگوایا۔ اس بورڈ پر رابندر ناتھ ٹیگور کی تصویر بنی ہے۔ ساتھ لکھا ہے کہ ادب کے نوبل انعام یافتہ ٹیگور اپنے خیالات کے اعتبار سے شیکسپیئر کی پیروی کرتے تھے۔ اسے بھارت کی سوفٹ ڈپلومیسی کہا جا سکتا ہے۔ مجھے گزشتہ چھ سات سال کے دوران اندرون ملک سفر کے خاصے مواقع ملے ہیں۔ ادبی‘ تاریخی‘ ثقافتی اور تفریحی اہمیت کے بے شمار لوگوں سے ملاقات ہوئی۔ ان گنت مقامات دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ مگر افسوس یہ رہا کہ علمی ‘ادبی‘ ثقافتی شخصیات کو سماجی پروٹوکول میں اتنا پیچھے دھکیل دیا گیا ہے کہ یہ لوگ اب کہیں دکھائی نہیں دیتے۔ بہت سال پہلے احمد ندیم قاسمی مرحوم کی منہ بولی بیٹی کو قومی ایوارڈ دیا گیا تو لوگوں نے قاسمی صاحب پر انگلیاں اٹھائیں کہ ان کے ادبی اثرورسوخ کی وجہ سے مستحق شاعروں کا حق غصب کیا گیا۔ یہ سلسلہ مدتوں جاری رہا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ادبی و علمی ذوق رکھنے والے صدر ممنون حسین جب ادیبوں کو اپنے ہاں مدعو کرتے ہیں تو غول در غول گروہ بندیاں کر کے مشہور ہونے والے ابراہیم ذوق ایوان صدر پہنچ جاتے ہیں۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ صدر محترم نے کبھی راشد حسن رانا‘ شاکر شجاع آبادی‘ تجمل کلیم جیسے شاعروں کا نام سنا ہو۔ اگر ہمارے دوست فاروق عادل صدر صاحب کو فہرست پیش کرنا چاہیں تو ایسے درجنوں شاعروں کے نام انہیں بھیج سکتا ہوں جو حیات ہیں اور ادبی ایوارڈ یافتہ مشہور شاعروں سے زیادہ موثر اور پراثر شعر کہہ رہے ہیں۔ بچپن میں پتلی تماشہ والے محلے میں آیا کرتے۔ شام کو تماشے کا وعدہ کر کے وہ ایک دو روپے ایڈوانس (سائی) لیتے ۔ بطور ضمانت کوئی پتلی چھوڑ جایا کرتے۔ شام گہری ہوتے ہی پتلے والا آ جاتا۔ عموماً چارپائیاں کھڑی کر کے، ان کے آگے چادر ڈال کر سٹیج کا منظر بنایا جاتا۔ چارپائیوں کے پیچھے پتلیوں کی ڈوریاں ہلانے والا اور اس کی ساتھی عورت بیٹھتے۔ یہ عورت ڈھولک بجانے اور گانے کا کام کرتی۔ ہمارے ہوش سنبھالنے سے پہلے کا ایک فلمی گانا ہے ’’دل لے کے مکر گیا ہائے۔ سجن بے ایمان نکلا‘‘ اس میں پتلی تماشے کے صوتی اثرات اور موسیقی کو شامل کیا گیا۔ پھر یہ پتلی تماشہ رفیع پیر والوں نے سنبھال لیا۔ حکومتی سرپرستی نہ ہونے کے باعث گلی گلی عوامی تفریح کا سامان کرنے والے لوگ نابود ہوتے چلے گئے۔ آج کے بچے گچک‘ ریوڑیوں‘ ٹانگر‘ مرونڈا اور گٹے سے ناواقف ہیں۔ کہیں سفر کرتے ہوئے کسی علاقے میں یہ دیسی مٹھائیاں نظر آ جائیں تو میں خریدنے کی ضرور کوشش کرتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ انہیں کھا کر مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ میرے دادا ‘ پردادا کیا کھاتے رہے۔ اپنے بزرگوں سے خون اور نسل کا تعلق ہی اہم نہیں ہوتا ان کے تجربات اور ذائقے میں شراکت کا تصور بھی اہمیت رکھتا ہے۔ امی گھیا کدو کا حلوہ بنایا کرتی تھیں۔ میں بیگم سے فرمائش کرکے پکواتا ہوں۔ حلوہ کھاتے ہوئے ماں آنکھوں کے سامنے آ جائے تو بتائیے کیا یہ ذائقے کی نسبت کا جادو نہیں۔ ایک دانشور نے کہا تھا کہ ’’اگر ہم قوم کو عقل و خرو کی روحانی دولت سے مالا مال کرنے والی شخصیات کو گوشہ گمنامی میں پھینک دیں تو ہماری تاریخ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔‘‘ کتنی حیرت کی بات ہے کہ قازقستان کے نامور پہلوان کاظم خان کی کشتیوں کے ساتھ ساتھ اس کی دانشمندی اور علمی ذوق کی تفصیلات حیران کر دیتی ہیں۔ آغا حشر نے رستم و سہراب کے ڈرامہ کو جس طرح ایک دوسرے سے خونی رشتہ سے بے خبر باپ بیٹے کے مابین جنگ کی شکل میں پیش کیا معلوم نہیں وہ حقیقت کے کتنا قریب ہے مگر یہ بات ضرور ہے کہ دونوں میدان جنگ میں ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہو کر جس نوع کا مکالمہ کرتے ہیں وہ بتاتا ہے کہ ایرانی پہلوان صرف جسمانی طاقت پر دھیان نہیں دیتے تھے بلکہ شائستگی اور علم بھی ان کی توجہ میں رہتے تھے۔ رستم پاکستان جھارا پہلوان کے بھائی ناصر بھولو میرے دوست ہیں۔ حاجی ناصر بھولو خود اعلیٰ درجے کے پہلوان رہے ہیں۔ وہ بیگم کلثوم نواز کے ماموں زاد ہیں۔ ان سے جو سنا وہ ظاہر کرتا ہے کہ سیاست ہر چیز کو کھا گئی۔ پہلوانوں کی طاقت اور حیثیت سیاستدانوں کے سامنے ہار گئی۔ وسط ایشیا جب سوویت یونین کا حصہ تھا اس وقت بھی وہاں کے سماج میں دو سو ممنوعات تھیں۔’’اس کنویں میں مت تھوکو جس میں لوگ پانی پیتے ہیں۔ روٹی کے ٹکڑے پر کسی چیز کو مت رکھو‘ اور نہ ہی اسے ٹھوکر مارو۔ نمک کی ڈلی پر پائوں مت رکھو‘ اپنے کسی بڑے کے راستے میں مت کھڑے ہو۔ جب بزرگ بول رہے ہوں تو ان کی بات مت کاٹو۔ والدین کو برا بھلا مت کہو‘ گداگروں کو تمسخر کا نشانہ مت بنائو۔ کسی بھی آدمی کو مت گھورو۔ اپنے گھوڑے کے سر پر ضرب نہ لگائو۔ خالی پنگھوڑے کو مت جھلائو۔ گھر میں سیٹی مت بجائو۔ اپنی پگڑی کو لوگوں کے پائوں میں مت پھینکو۔ چیونٹیوں اور پرندوں کے گھونسلوں کو مت توڑو، وغیرہ وغیرہ۔ ہمارے معاشرے میں پائوں لٹکا کر بیٹھنے والے کو ٹانگوں کو جھلانے سے منع کیا گیا۔ برہنہ سر اور مغرب کے وقت جھاڑو دینے سے منع کیا گیا۔ دیئے کی لو کو ہاتھ سے بجھانے کی ممانعت ہے۔ گھر سے رخصت ہونے والے کو پیچھے سے آواز نہیں دی جاتی۔ راہ چلتے اگر کوئی دوسرا سامنے سے خالی برتن لے کر راستہ کاٹ دے تو کچھ دیر رکنے کا کہا جاتا۔ شام کے وقت درختوں کی شاخوں کو ہلانے سے منع کیا گیا۔ بزرگوں کے ادب، علم کے حصول، فطرت سے آگاہی اور کاشت کاری کے متعلق بہت سا علم ہم فراموش کر چکے ہیں، یہ ہماری روایت اور تاریخ کا حصہ تھا۔ انٹرنیشنل جرنل آف پبلک اوپینیئن ریسرچ نے 24 ممالک کے سروے کے بعد ڈیٹا ترتیب دیا۔ جوناتھن کیلی اور ایم ڈی آر ایونز نے ترقی یافتہ ممالک میں قومی افتخار کی ساخت اور عوام پر اس کے اثرات کا جائزہ لیا ہے۔ قومی افتخار سے مراد اجتماعی کامیابیوں میں شرکت یا حصہ داری کا احساس ہے۔ بھارت کے ساتھ میچ میں حسن علی شاندار بائولنگ کرتا ہے، دنیا اس کی تعریف کرتی ہے، خوشی عام پاکستانی کو ہوتی ہے۔ کیوں، ہم کیوں حسن علی کی کامیابی پر خوش ہوتے ہیں؟ اسی طرح اگر کسی قومی شخصیت کا کوئی عمل اس کے لیے شرمندگی کا باعث بنتا ہے تو اس کے اثرات پوری قوم کی نفسیات پر تباہ کن انداز میں مرتب ہوتے ہیں۔ قومی احساسات کو عمومی طور پر قوم کی ترقی کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔ پاکستانی رہنمائوں کی عملی پسماندگی نے ترقی کو سڑکوں کی تعمیر تک محدود کردیا۔ ہماری ثقافتی شناخت، علمی برتری اورتاریخی انفرادیت کو اجاگر کرنے والے لوگ جان بوجھ کر حقیر بنا دیئے گئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ قوم کی اجتماعی کامیابیوں کی جگہ کرپشن، اقامہ، آف شور اثاثوں اور ملک دشمن بیانات نے اپنے منفی اثرات ہم پر ڈال دیئے۔ سیاست میں گالی دینے والا نمایاں ہوا، صحافت میں بکنے والا معزز ہوا، ادب میں قصیدہ خواں نے مرتبہ پایا، ہم پسماندہ تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔