خواجہ غلام قطب الدین فریدی قافلۂ تصوّف و طریقت کے سرخیل اور خانقاہی نظام کے احیاء کے داعی اور متمنی ہیں۔ روایتی خانقاہیت کے برعکس،انہوں نے گزشتہ دنوں اپنی درگاہ ِ مُعلّٰی میں حضرت الشیخ ابو سعید محمد مبارک مخزومی ؒ(م513ھ) کی تصنیف ِ لطیف"اَلتُحفۃالمُرسلہ"کے دروس پر مبنی دس روزہ دورۂ تصوّف کا اہتمام کر رکھا تھا،جس کے معلم و مدرس از خود حضر ت خواجہ صاحب تھے، جو نصف صدی قبل،مروجہ دینی نصاب کی تکمیل کے بعدبنفس نفیس مسند ِ تدریس کو رونق بخشتے ہوئے ،خطّے میں اس دور کے نمائندہ دارالعلوم، جامعہ نعمانیہ میں منتہی طلبہ کو قطبی ، میر قطبی ، شرح جامی ، شرح عقائد ، شرح تہذیب جیسی کتب پڑھانے پر ماموررہے، جس کو درسیات کے حلقوں میں یقینا لائقِ تعظیم و اعتماد گردانا جاتا ہے ۔ مسند نشینی، سجادگی اور خانقاہ کے انتظامی و روحانی امور کی بجا آوری کے سبب یہ سلسلہ تدریس زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا ۔ تاہم خواجہ صاحب نے اپنے اس ذوق کی تشفی کے لیے خانقاہ ِ عالیہ پر ’’قطب المدارس‘‘ کے نام سے دینی تعلیم و تدریس کا ایک اعلیٰ ادارہ قائم کردیا،جس سے متصل جدید عصری علوم سے آراستہ خواجہ محمد یار فریدی ہائر سیکنڈری سکول کے قیام کے لیے بھی اپنی خانقاہ سے وسائل فراہم کیئے،جو کہ گڑھی شریف اور اس کے گردونواح کے عوام کے لیے ، اس دربار یادرگاہ کی طرف سے بہت بڑا تحفہ ہے۔گڑھی شریف جو کہ ابتدائی طور پر ضلع رحیم یار خان کی تحصیل خانپورسے تقریباً بارہ کلو میٹر کے فاصلے پر،نواب آف بہاولپور کے ایک عزیز، حاجی محمد اختیار خان کے نام سے موسوم ہوئی ، مگر اس قریے کو ایک لازوال شہرت،دوام اور بلندی،اس وقت نصیب ہوئی ، جب اس کی آغوش میں اپنے عہد کے ایک عظیم صوفی ، دردوسوز کے سفیر ، جادو بیاں خطیب، بلبل بستان ِ فرید ، صوفیٔ روشن ضمیر حضرت خواجہ محمد یار فریدی کی 1367ھ میں ولادت ہوئی اور اب جن کی لحد اہل کیف و مستی کے لیے زیارت گاہ کا درجہ رکھتی ہے ۔ بہر حال دورہ ٔ تصوّف کی یہ کلاس ڈیڑھ سو علمأو طلبأ اور طالبانِ طریقت و شریعت پر مشتمل تھی ، جس میں غالب حصّہ درسِ نظامی کے فاضلین و حاملین اور حاضر سروس علمأ و خطبأ اور متلاشیانِ حقیقت کا تھا ۔ اوقاتِ تدریس صبح و شام پہ محیط تھے ، قیام و طعام کا اہتمام خانقاہ کی طرف سے تھا ۔ مسندِ تعلیم و تدریس پر از خود حضرت خواجہ صاحب متمکن تھے۔’’اَلتُحفۃالمُرسلہ‘‘حضرت الشیخ ابو سعید محمد مبارک المخزومی ،چھَٹی صدی ہجری کے مقتدر علمی و روحانی شخصیت کے ارشاداتِ عالیہ،جو انہوں نے اپنے روحانی فرزندِ صالح، مرید خاص،جلیل القدر ہستی ، پیران ِ پیر الشیخ السیّد عبد القادرالجیلانی المعروف بہ حضر ت غوثُ الاعظم کے لیے جمع کیے ، جس کا بنیادی موضوع توحید باری تعالیٰ ہے ، جس میں ’’وحد ۃ الوجود‘‘ کے وقیع اور دقیق مباحث اور مسائل بھی شامل ہیں ۔کتاب کی طباعت و اشاعت کا اہتمام الحاج محمد ارشد قریشی بانی تصوّف فائونڈیشن کی طرف سے ہوا، جن کا ادارہ ’’المعارف‘‘ کسی دور میں تصوّف کے بنیادی مصا در اور کتب کی تدوین و تشہیر میں میں بڑا رسوخ رکھتا اور حضرت داتا گنج بخشؒ کے مزارِ اقدس کے قریب، ان کا مکتبہ علم و عرفان کی ترویج و تبلیغ میں سرگرم و سرگرداں تھا۔ اس دس روزہ تصوّف کلاس کی اختتامی تقریب یقینا روح پرور بھی تھی اور علم آفریں بھی ، جس میں حضرت خواجہ صاحب نے مذکورہ کتاب کا اختتامی سبق ارشاد فرماتے ، جو کچھ کہا اس کا خلاصہ کچھ یوں ہے :’’وحدت الوجود۔اہلِ تصوّف کے نزدیک وجود ایک ہے ۔ وجود کی تعریف :1۔اس کا وجود بذاتِ خود ہو ۔2۔ تمام موجودات اس کے ساتھ قائم ہوں ۔ 3۔اس کا غیر خارج میںنہ پایا جائے۔ یہ وجودبتقاضۂ صیغۂ جمال ظہور کے لیے بے تاب ہے۔ بنا بریں اس نے مراتب ِستّہ میں ظہور فرمایا،جن کی بابت قرآن مجید نے ارشاد فرمایا :خلق السمٰوات والارض و ما بینھما ستّۃ ایّام’’کُن‘‘کہ کر دفعتاً واحدۃً کائنات بنا دینے والے رب نے،تخلیق کا ئنات کے لیے چھ دن کا ارشاد فرمایا۔ان سے مراد چھ دن نہیں،چھ مراتب ہیں، یہ مراتب ِ ظہور ہیں ۔ وجود کی شان یہ ہے کہ اس کی کوئی شکل نہیں ، کوئی حد نہیں ہے،کوئی حصر نہیں ہے۔اس کے باوجود اس نے شکل اور حدود میں اپنا ظہور فرمایا،مگر ظہور سے پہلے جس طرح بغیر شکل اورحد کے تھا،ظہور کے بعد بھی شکل اور بغیر حد کے رہا۔پہلا مرتبہ لاتعین ہے،جہاں وہ ذات ، ذات بحت(خالص) یعنی اس کی طرف ہونے اور نہ ہونے کی نسبت نہیں کی جاسکتی۔ یہاں تک کہ نہ تو یہ کہا جاسکتا ہے اس کو علم ہے نہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کو علم نہیں ہے کیونکہ وہ مرتبۂ لا تعین میں ہے ۔ اس کے بعد اس نے ایسے مرتبے میں ظہور فرمایا جہاں اس کی طرف علم کی نسبت اجمالی طورپر کی جاسکتی ہے جسے حقیقتِ محمدیہ اور تعین ِ اوّل کہا جاتا ہے اس کا مطلب یہ ہے اسے اپنی ذات کا علم ہے اور تمام موجودات کا اجمالی طور پر علم ہے، اس مرتبے کو وحدت اور حقیقتِ محمدیہ کہا جاتا ہے اور تیسرا مرتبہ یہ ہے کہ اس کی طرف نسبت اس طرح کی جائے کہ وجود کو اپنی ذات کا علم ہے اور موجودات کا تفصیلی طور پر علم ہے ۔ اسی طرح باقی مراتب میں بھی وجود اپناظہور فرماتا ہے۔وجود جب ان مراتب میں اپنا ظہور فرماتا ہے تو ان موجودات میں اپنے آپ کو دیکھتا ہے، جیسے گٹھلی ، درخت کے تنے میں،شاخوں میں،ٹہنیوں میں پتوں اور پھلوں میں اپنے آپ کو دیکھتی ہے اور اسی طرح چوٹی پر لگنے والا پھل بھی اپنے آپ میں اس گٹھلی کو دیکھتا ہے،جس سے اس کا ظہور اس مرتبہ تک پہنچتا ہے،یعنی وہ ذات اپنے آپ کو تمام موجودات میں دیکھتی ہے اور اگر وہ قلب سلیم عطا فرمائے تو موجودات بھی اپنے آپ کو اس ذات میں دیکھتی ہیں ۔ الغر ض وجود اس معنی میں جو ہم نے بیان کیا ایک ہے اگر وجود دو تسلیم کیے جائیں تو یہ شرک ہے ۔ مجھے اس امر کا بخوبی ادراک ہے کہ اخبار کا کالم ان ثقیل اور دقیق مباحث کا متحمل نہیں ہوسکتا ، لیکن ان کا ذکر اس لیے ضروری ہے کہ دنیاجان سکے کہ خانقاہ کے دائرہ علم میں کس قدر رسوخ اور گہرائی اور اس کا اسلوبِ تربیت اور نصابِ تعلیم کتنا پختہ ہے ،خانقاہ محض چندرسومات تک محدود نہیں، بلکہ اس کے سرِ حلقہ اور شیخ ِ سلسلہ جو اپنے اپنے عہد کی جلیل القدر علمی ہستیاں تھیں اور از خود مسندِ علم پر جلوہ آرأ ہو کر علوم و معارف کے موتی بکھیر تی تھی ،حضرت خواجہ نظام الدین اولیائؒ کو اوائل عمری میں ازحد علمی رسوخ میسر ہوا اور آپؒ دہلی کے دینی اور علمی حلقوں میں "بحاث اور محفلِ شکن" کے نام سے معروف اور معتبر تھے ۔ لیکن جب حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر ؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے، تو انہوں نے خواجہ نظام کو فرمایا کہ آپؒ نے ابھی ہم سے بھی کچھ اسباق اور مضامین پڑھنے ہیں ۔ حضرت بابا صاحبؒ اپنی خانقاہ میں از خود عوارف و المعارف کا باقاعدہ درس دیا کرتے تھے ، اسی طرح حضرت خواجہ نظام ؒ اپنی درگاہ میں کشف المحجوب سبقاً سبقاً پڑھایا کرتے تھے ۔