حکومت کی ناقص گندم خریدا ری پالیسی اور کاشتکاروں کے مالی استحصال کے خلاف کسان بورڈ کے تمام ڈی سی آفسز کے باہر دھرنے جاری رہے۔ کسان بورڈ پاکستان کے صدر اور جنرل سیکرٹری کا کہنا ہے کہ گندم کے خریداری نرخ اوپن مارکیٹ میں 700روپے فی من تک گر چکے ہیں، کسانوں کا استحصال بند نہ کیا گیا تو آئندہ برس گندم کاشت نہیں کرینگے۔ادھر پنجاب اسمبلی میں بھی حکومت کی گندم خریداری مہم پرحکومتی اور اپوزیشن ارکان ایک ہو گئے اورحکومت کی گندم خریداری مہم پر شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا۔کاشتکاروں کو ہر سال گندم خریداری کی سرکاری پالیسی پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور حکومت ان سے رابطہ کئے بغیر ہی قیمتیں طے کر دیتی ہے۔ کسانوں سے گندم خریدنے کی بجائے باہر سے گندم منگوائی جاتی ہے جیسا کہ سابق نگران حکومت میں بھی کیا گیا۔ رواں سال بھی حکومت نے گندم کے ریٹ میں اضافہ کی بجائے فی من سابقہ قیمت 3900روپے بر قراررکھی لیکن سرکاری سطح پرابھی تک گندم کی خریداری نہیں کی گئی جس کی وجہ سے کسان دھرنوں پر مجبورہیں۔ ان کی حالت زار یہ ہے کہ آڑھتی گندم اونے پونے داموں خرید رہے ہیں جس کی وجہ سے چھوٹے کاشتکار کا بڑا نقصان ہو رہا ہے۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ناراض کسانوں سے مذاکرات کرے،ان کے مطالبات پر غور کرے اورگندم کی سرکاری خریداری کو جلد ممکن بنائے ،ورنہ موسمی حالات کے باعث گندم سٹور نہ ہونے سے کسان مزید مالی نقصان کا شکار ہو جائیں گے۔