23اپریل کو کتاب کا عالمی دن گزرا۔ہم میں سے بیشتر افراد نے کتاب کا یہ عالمی دن سوشل میڈیا پر کتابوں کی تصویریں اپلوڈ کرنے اور ان پوسٹوں پر تبصرے کرنے میں گزارا۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہم اس روز سوشل میڈیا سے چھٹی لے کر کتابوں کی دنیا میں گم ہو جاتے۔اور اگلے روز ہم پوسٹ لگاتے کہ 23 اپریل کتاب کا دن تھا اس لیے ہم نے سوشل میڈیا سے چھٹی لے کر کتابوں کے ساتھ وقت گزارا۔ایسا لگتا ہے سوشل میڈیا کے کھونٹے سے بندھے ہوئے ہم لوگوں کے لیے سب کچھ بھول بھال کر کتابوں کی دنیا میں گم ہو جانا اب شاید اگلے زمانوں کی بات ہے آج سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ ہم سکرین کی رنگا رنگ گلیمرس اور ہر پل بدلتی ہوئی دنیا سے اپنے دامن کو چھڑا کر کس طرح کتاب کی دنیا میں کچھ وقت ایسے گزاریں کہ کتاب کو اپنے اندر جذب کرسکیں۔کتاب کی دنیا میں سکون ہے ٹھہراؤ ہے جب ہم کسی کتاب کو کھول کر اس کے اندر لکھے ہوئے حرفوں کو پڑھتے ہیں تو اس کے ساتھ ہم ایک تعلق بناتے ہیں۔مقبول عام کتاب کاکو لیات کے مصنف بریگیڈیئر صولت رضا نے کتاب پر لگائی ہوئی میری ایک پوسٹ پر لکھا کہ کتاب کا عالمی دن دراصل کتاب کی خریداری کو فروغ دینے کے حوالے سے ہے میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ کتاب کا دن منانے کا مقصد کتب بینی کو فروغ دینا ہے۔ کتابیں آج بھی شائع ہو رہی ہیں اور فروخت بھی ہورہی ہیں، بڑے بڑے کتاب میلے منعقد ہوتے ہیں ان میں لاکھوں روپے کی کتابیں فروخت ہوتی ہیں سینکڑوں لوگ کتاب میلے میں شرکت کرتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا خریدی جانے والی کتابیں اسی شوق اور توجہ سے پڑھی بھی جا رہی ہیں یا نہیں؟ہمارے ہاں کتاب خریدی جا رہی ہے۔ کتابوں کے ساتھ تصویریں بھی بن رہی ہیں۔کسی بھی تقریب میں چلے جائیں لوگ اپنی کتابیں ساتھ لاتے ہیں جہاں وہ کتابیں ایک دوسرے کو تحفے میں دیتے ہیں۔کتابیں ایک دوسرے کو پیش کی جا رہی ہیں تحفے میں دی جا رہی ہیں اور اس کی تصویریں بنا کر ہم فیس بک پر لگا رہے ہیں بس یہ ایک سرگرمی ہے جو ہمیں اڑائے لیے جا رہی ہے۔مجھے ایسے لگتا ہے کہ کتاب کو پڑھنے کے لیے جو ٹھہراؤ اور خالص توجہ درکار ہوتی ہے آج کا انسان سوشل میڈیا کے بھانت بھانت کے چینلوں میں گھرا ہوا اس ٹھہراؤ اور توجہ سے محروم ہو چکا ہے۔اسے وہ خالص توجہ خالص ٹھہراؤ میسر نہیں جو کتاب پڑھنے کے لیے ضروری ہے۔ کتاب پڑھنا آج کل کسی ریاضت سے کم نہیں ہیں ۔آپ چند منٹ کے لیے ایک کتاب اٹھاتے ہیں تو فون بجنے لگتا ہے، آپ فون سننے کے لیے موبائل اٹھاتے ہیں اور ساتھ ہی واٹس ایپ کا کوئی نوٹیفکیشن موصول ہوتا ہے۔اپ اسے کھول کر دیکھتے ہیں تو فیس بک کا کوئی نوٹیفیکیشن آپ کو فیس بک کی جادو نگری میں لے جاتا ہے, جہاں ایک تسلسل سے پوسٹوں کا گر ہوا آبشارآپ کو کچھ دیر کے لیے کہیں کا نہیں رہنے دیتا۔آپ کتاب کی خاموش اور ٹھہراؤ والی دنیا سے نکل کر ایک چکا چوند میں جذب ہو جاتے ہیں۔ فیس بک یا سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارموں پر وقت گزاری کرنا ہماری توجہ اور ہمارے ذہن کو منتشر کر دیتا ہے۔ انتشار کی اس کیفیت میں کتاب پر توجہ مرکوز کرنا تقریباََناممکن ہے۔یہ بھی یاد رہے کہ فیس بک پر تحریری مواد پڑھنا مطالعہ نہیں۔جس سرگرمی کو ہم مطالعہ کہتے ہیں اس کے کچھ تقاضے ہیں جو فیس بک پر ان گنت پوسٹوں کے انبار میں پورے نہیں ہوتے۔ ہمارے بہت سے سینئر ادیب بھی ان دنوں سوشل میڈیا پر بہت متحرک ہیں کچھ تو یہ اعتراف بھی کرتے ہیں اب ان کا دل کتاب پڑھنے میں نہیں لگتا کیونکہ ایک تو نظر کمزور ہو گئی ہے دوسرا سمارٹ فون پر طرح طرح کی سرگرمیوں میں دل لگا رہتا ہے اور کتابیں ریک پر پڑی رہ جاتی ہیں لیکن یہ وہ ہیں جنہوں نے اپنی زندگیاں بہترین کتابیں پڑھنے میں گزاریں۔ سوال تو یہ ہے ہم اور ہمارے بعد آنے والے لوگوں کی زندگیوں میں کتاب پڑھنے کی کتنی اہمیت باقی رہے گی۔ہم اپنے زمانہ طالب علمی میں بھی کتابیں پڑھا کرتے تھے اور کتابیں پڑھنا ہمارے لیے ایک ہی پرلطف سرگرمی تھی جبکہ اج کل کے طالب علم کتاب کو بورنگ خیال کرتے ہیں۔جدید وقت کا تقاضہ ہے یا ڈیجیٹلائزیشن کہ اب تو نصاب کی کتاب بھی تیزی سے سکرین پر منتقل ہو چکی ہے۔لیکن پھر بھی وہ لوگ جن کے اندر کتاب پڑھنے کی بہت خواہش ہوتی ہے وہ اس دور میں بھی کتاب پڑھتے ہیں۔ابھی پچھلے دنوں ایک تقریب میں شرکت کی غروب شہر کا وقت کے مصنف معروف ناول نگار اسامہ صدیق اپنی بیٹی کے ساتھ آئے ہوئے تھے دوران تقریب گفتگو ہو رہی ہے ،تالیاں بج رہی ہیں۔مگر شور کے اس ماحول میں ان کی 11 سالہ بیٹی پوری توجہ سے کتاب پڑھتی رہی۔اس کے اس غیر معمولی ارتکاز نے مجھے بیحد متاثر کیا۔یہ اللہ کا خاص کرم ہے اب بھی کتاب کے عاشق موجود ہیں جن کے لیے کتابوں کی دنیا کسی جادو نگری سے کم نہیں۔مجھے اپنے بیٹے کا خیال آیا جو ہیری پوٹر کا فین ہے اور اب تک اس کی تمام سیریز پڑھ چکا ہے۔اس پر بنی فلمیں بھی دیکھ کر وہ تبصرہ کرتا ہے سکرین کی بجائے کتاب پڑھنے میں اسے زیاد ہ لطف آیا ۔کتاب پڑھنا باقاعدہ ایک تخلیقی سرگرمی ہے۔ کتاب کی تحریر،۔کتاب پڑھنے والے کی زندگی کے تجربات کا سیاق وسباق اور تخیل کی طاقت کا ملاپ قاری کو جس پرلطف حسی تجربے سے گزار کے احساس کی ایک نئی دنیا میں لے جاتا ہے تو اس بات پر یقین آ جاتا ہے کہ “There is creative reading as well as creative writing" کتاب خواندگی کے تخلیقی تجربے سے وہی گزرتے ہیں جنہیں پہلے تو پڑھنے کو ایک شاندار کتاب میسر ہو اور پھر وہ سوشل میڈیا سے رخصت لے کر کتاب کو توجہ کے پورے خالص پن کے ساتھ میسر ہوں۔