ہم فیصل آباد والوں کو لاہور جانا ہی ہوتا ہے‘ ویسے بھی اب فیصل آباد لاہور کی توسیع لگتا ہے۔ لاہور اگر گھر ہے تو فیصل آباد کو اس کا صحن کہہ لیجے ڈرائنگ روم‘ ڈائننگ‘ ٹی وی لائونج جیسے پررونق حصے لاہور میں ہیں ‘صحن میں چھڑکائو کرنے‘ چارپائیاں ڈالنے ‘ بستر بچھانے کا زمانہ کب کا گزر گیا۔ صحن سونا‘ سونا بے رونق پڑا ہے۔یاروں کی بہار لاہور میں ہے اکثر جمعہ کا مبارک دن لاہور جانا ہوتا ہے جہاں چوہدری وحید صاحب کے ڈیرے پر محفل جمتی ہے نماز جمعہ کے بعد احباب جمع ہیں، مجیب الرحمن شامی صاحب‘ حفیظ اللہ نیازی، خالد بھائی ‘ سید وقاص شاہ‘ لیاقت بلوچ اور دیگر احباب ‘ شامی صاحب کے تبصرے ‘ وحید چودھری‘ نیازی صاحب کی نوک جھونک‘ حالات حاضرہ ماضی کے قصے‘ مستقبل کے امکانات اور خدشات پر سیر حاصل تبصرے۔ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں تحریک انصاف اور مسلم لیگ کی بھر پور نمائندگی اور تیسری جماعت اسلامی بھی‘ اگرچہ بڑی جماعتوں میں نسبت ’گلی اور ڈنڈے‘ والی ہے۔ دونوں کے قدو قامت میں اتنا ہی فرق ہے جتنا گلی اور ڈنڈے میں ہوتا ہے‘ باقی جماعتیں سکڑ کے گلی کے ’کٹ‘ جتنی رہ گئی ہیں۔ ہر ہفتے وحید صاحب کی طرف سے دو ایک سوال اٹھائے جاتے ہیں، خود انہیں جواب معلوم ہوں، پھر بھی سوال دہراتے رہتے ہیں۔گزشتہ ہفتے ان کا سوال تھا کہ میاں نواز شریف نے پاکستان آنے کا اعلان کر رکھا ہے اور یہ بھی میں لکھ کر دینے کو تیار ہوں کہ آئندہ انتخاب مسلم لیگ جیتے گی اور میں حکومت بنائوں گا‘ نواز شریف وزیر اعظم ہونگے سابق سپہ سالار قمر جاوید باجوہ‘ جنرل فیض حمید اور سپریم کورٹ کے ایک جج کو نتائج بھگتنا ہوں گے‘ میری (نواز شریف) حکومت ختم کرنے کا جرم قتل سے بھی بڑا جرم ہے، ان کا کڑا احتساب کیا جائے گا۔ وحید چودھری کا سوال تھا کہ ’’قتل سے بڑا جرم‘‘ کرنے والے بڑے مجرم کو دوسری مدت کی ملازمت میں توسیع کے قانون میں ترمیم کے وقت نواز شریف نے غیر مشروط حمایت کیوں کی تھی؟ بڑا جرم تو کیا جا چکا تھا، اس جرم کے بڑے مجرم کو غیر مشروط حمایت کیوں کی تھی؟اب واویلا کس بات پر ہے؟ چیل سے نجات‘ پاکستان سے بھاگ نکلنے کے لئے‘ جعلی میڈیکل رپورٹ تیار کرنے‘ سزا یافتہ تاحیات نااہل مجرم کو پاکستان سے باہر علاج کے لئے اسی بڑے مجرم سے ڈیل کر کے لندن بھاگ گئے تھے۔ محفوظ فاصلے پر پہنچ کر لندن قیام کے دوران ’’باسی کڑھی‘‘ میں ابال آیا اور گوجرانوالہ کے جلسے میں ٹیلی فونک خطاب میں جنرل باجوہ اور فیض حمید جو حاضر سروس تھے، ان کے خوب لتّے لئے اور فوج کو مخاطب کر کے اپنی کمانڈ کے خلاف بغاوت پر اکسایا‘ ان سب واقعات کے بعد اپنی پارٹی کے ممبران پارلیمنٹ کو مجبور کیا جبکہ ممبران کی اکثریت باجوہ کو ملازمت میں توسیع دینے کے حق میں نہیں تھی‘ نانی ایک خصم بار بار کرتی اور چھوڑتی چلی گئی اب بگڑ بیٹھنے کی تیسری‘ شاید چوتھی باری ہے۔’’باسی کڑھی‘‘ جو کچھ زیادہ ہی باسی ہو چکی ہے، اس میں پھر سے اُبال آیا ہے۔ اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت‘پنجابی کا ایک محاورہ ہے کہنا دھی نوں تے سنائوناں نونہہ نوں۔ باجوہ اور فیض حمید کا نام لے کر سنایا کسی اور کو جا رہا ہے‘ فی الوقت جس کا نام لینے کی ضرورت نہیں کہ پاکستان واپس آنے کے لئے اسی سے کام آن پڑا ہے۔ پاکستان آنا کھٹائی میں پڑ گیا اور امیدیں پوری نہ ہوئیں تو اگلی باری انہی کی ہو گی‘ شاید کچھ ویڈیو بھی آ جائیں: ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں تڑپے ہے مرغ بادنما آشیانے میں مرد مومن مرد حق ضیاء الحق کے بعد آنے والے مومن جانشین‘ جناب مرزا اسلم بیگ‘ جناب آصف نواز جنجوعہ ‘ جناب جنرل عبدالوحید کاکڑ ‘ جناب جنرل کرامت جہانگیر‘ جناب پرویز مشرف‘جناب پرویز کیانی‘ جناب جنرل راحیل شریف‘ قمر جاوید باجوہ اور جناب عاصم منیر کہتے ہیں مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا‘ مرد مومن کے سارے جانشین ایک ہی سوراخ سے بار بار ڈسے جاتے رہے۔ نوازشریف نے اپنے زمانہ بلوغت میں مذکورہ دس سپاہ سالار دیکھے‘ ان میں سے کسی ایک کا نام لیجیے نواز شریف کی جس کے ساتھ بن آئی ہو‘ بنی تو کسی سے نہیں ’’ان بن‘‘ ہر ایک سے۔ آپ نے ٹوپیوں کے تاجر اور بندروں کی کہانی تو سن رکھی ہو گی‘ مکرر کہے دیتا ہوں: ایک تاجر جو ٹوپیاں بیچا کرتا تھا ایک دن ٹوپیاں بیچنے کے لئے بڑے شہر جا رہا تھا‘ رواج کے مطابق اس نے خود بھی ٹوپی پہن رکھی تھی، باقی ٹوپیاں ایک بڑی گٹھڑی میں باندھ کر سر پر دھرے روانہ ہوا۔ راستہ طویل تھا اور راہ میں گھنا جنگل‘ جنگل میں بندر بہت تھے بندروں سے خوف کیسا‘ چلتے چلتے دوپہر ہونے کو آئی تو تھوڑی دیر سستانے اور پلو میں بندھی روٹی کھانے کے لئے ایک گھنے پیڑ کے نیچے بیٹھ گیا‘ کھانا کھایا‘ درخت سے ٹیک لگائی تو اسے اونگھ آ گئی ۔وہ تھوڑی دیر کے لئے سو گیا‘ آنکھ کھلی تو دیکھا کہ جنگل کے بندروں نے اس کی گٹھڑی سے ٹوپیاں نکال کر تاجر کی نقل میں اپنے سروں پر سجا لی ہیں۔تاجر کو ہوشیار ہوتے دیکھ کر بندر چھلانگیں لگاتے بھاگ کر اونچے درخت پر چڑھ گئے اور تاجر کا منہ چڑانے لگے‘ تاجر پریشان کہ کروں کیا؟ اسے خیال آیا کہ بندر انسانوں کی نقل کرتے ہیں‘ چنانچہ اس نے اپنے سر سے ٹوپی اتار کر زمین پر دے ماری‘ سارے بندروں نے تاجر کی دیکھا دیکھی‘ اپنی اپنی ٹوپیاں سر سے اتار کر زمین پر پھینک دیں‘ تاجر نے جلدی جلدی ٹوپیاں اکٹھی کیں اور خوشی خوشی شہر کی طرف چلا گیا‘ تاجر نے اپنا تجربہ گھر پہنچ کر اہل خانہ کو بتایا‘ بات نسل درنسل چلتی رہی۔ اسی تاجر کا دوسری تیسری نسل کا پوتا جو اسی کاروبار سے منسلک تھا‘ حسن اتفاق سے ٹوپیاں بیچنے کو نکلا اور جنگل میں چلتے چلتے تھک کے سستانے کو رکا اور آرام کرتے اونگھنے لگا‘ بندر تاجر کو غافل دیکھ کر اس کی گھٹڑی سے ٹوپیاں لے اڑے‘ درخت کی اونچی شاخوں پر جا بیٹھے‘ اب جو تاجر کی آنکھ کھلی‘ اس نے بندروں کو ٹوپیاں پہنے دیکھا تو دادا کی سنائی کہانی یاد آئی‘ نئی نسل کے تاجر نے دادا کی طرح اپنے سر سے ٹوپی اتار کر زمین پر پھینک دی‘ یہ دیکھ کر اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ بندروں نے اپنی ٹوپیاں اتار کر زمین پر نہیں پھینکی تھیں بلکہ ایک شوخ‘شریر اور تیز رفتار بندر تاجر کی پھینکی ٹوپی اٹھا کر یہ جا وہ جا‘تاجر حیرت سے دیکھ رہا تھا کہ ہوا کیا ہے؟ ایک بندر اس سے مخاطب ہوا کہ جناب تاجر کیا صرف تمہارے دادا نے ہی تمہیں اپنے تجربات بتائے ہیں‘ ہمارے دادا نے ہمیں کچھ نہیں سکھایا ہو گا؟جنگلوں میں بندر سیکھ گئے۔۔۔کیا پاکستانی نہیں سیکھے…؟؟ ٭٭٭٭٭