ادبی جرائد اس سال اپنی صدسالہ سالگرہ منا رہے ہیں۔اردو ادبی دنیا کا پہلا ادبی رسالہ رئیس التحریر نیاز فتح پوری کا نگار تھا، جو 1922میں شائع ہوا۔نگار کا نام ترکی کی ایک ادیبہ نگار بن عثمان کے نام پر رکھا گیا۔وہ ایک انقلابی شاعرہ تھیں اور مدیر نگار ان سے حد درجہ متاثر بھی۔تسطیر کی پچیسویں سال یعنی سلور جوبلی کو ادبی جرائد کی تاریخ میں ایک اہم مقام کا حامل ہے مگر لگتا ہے اردو ادبی جرائد کا زمانہ رخصت ہونے والا ہے۔پہلے ہمارا خیال تھا کہ اکیسویں صدی کے دوسرے آدھ تک شاید ادبی مجلے جاری رہیں مگر اب لگتا ہے کہ وہ اپنی عمر طبیعی گزار چکے۔ایسے میں اگر کوئی دیوانہ یہ بار اٹھانے کی قسم کھائے تو حیرت لازم ہے۔پرچہ بھی جاری ہو اس کے مندرجات دیکھ کر پوری اردو بستی کے ادیب شامل ہوں تو دیوانے کی مستی کے حضور سلام واجب ہو جاتا ہے۔تسطیر ایک کتابی سلسلہ ہے۔اس کی عمر عہد ساز ادبی پرچوں کے برابر ہو چکی ہے۔اسے جاری ہوئے ربع صدی ہو چلی ہے۔مدیر نے اسے بائیس حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ان میں سعادت، لمسِ رفتہ، شاہد حمید کی یاد میں، ہیروشیما کی یاد میں، نظم، غزل اور ترجمہ جیسے اہم حصے شامل ہیں۔ تسطیر کے مذکورہ شمارے میں سلیم کوثر، امجد اسلام امجد، گلزار، افتخار بخاری، یاسمین حمید، صابر ظفر، امجد طفیل، اقبال آفاقی، گوپی چند نارنگ، عتیق اللہ، نظام صدیقی، ناصر عباس، نیر رفیق سندیلوی، فہیم شناس کاظمی، رضیہ فصیح الدین احمد اور شموئل احمد جیسے تخلیق کار شامل ہیں۔ عبدالقادر بیدل سبکِ ہندی کے قافلہ سالار ہیں۔ان جیسا شاعر صدیوں بعد پیدا ہوتا ہے۔ جس شاعر کا معتقد غالب ہو، اس کی عظمت کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں۔ گنجور میں ان کا سارا دیوان موجود ہے، اس کی ضخامت اور معیار دیکھ کر آدمی حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔غالب کا کہنا ہے کہ " سبک فارسی زبان میں کثیرالاستعمال ہونے والا لفظ ہے جو کسی بھی امدادی لفظ کے ساتھ مل کر مختلف مطلب ظاہر کرتا ہے"۔ اسے ہی ہم اسلوب کہتے ہیں۔فارسی ادب میں چار سبک بہت معروف ہوئے جو سبکِ عربی، سبک ِ عراقی، سبکِ خراسانی اور سبک ِہندی ہیں۔ بیدل پر بہت کم کام ہوا ہے اردو میں ان کے بہت کم تراجم ہوئے ہیں جن لوگوں نے بیدل کے تراجم پر کام کیا ہے ان میں ابوالحامد، اختر عثمان، شاہد ماکلی اور چند اور لوگ شامل ہیں۔مقبوضہ کشمیر سے ہمارے دوست غنی غیور کی " محیط بے ساحل" بیدل کے فن پر ایک وقیع اضافہ ہے۔ بترس از آہ مظلوماں کہ ہنگام دعا کردن اجابت از در حق بہر استقبال می آید (مظلوم کی آہ سے ڈر کہ جب وہ دعا کرتے ہیں تو خدا کی بارگاہ سے قبولیت ان کے استقبال کے لیے آتی ہے)۔ناصر عباس نیر نے مقدمہ انتخاب ِ بیدل کا اعلی محاکمہ کیا ہے۔ نصیر احمد ناصر ہمارے بچپن کے دوست ہیں مگر بچپن کی دوستی کے ساتھ ساتھ ہمیں ان کے زریں تخلیقی عرصے کی آزاد نظم سے بھی اسی قدر لگاؤ ہے۔وہ خود کئی شعری مجموعوں کے خالق ہیں۔ان کا اصل میدان بھی نظم ہی ہے۔یوں تو انہوں نے ایک آدھ افسانہ بھی لکھا تھا جس سے معلوم ہوتا تھا کہ ان کا اشہب ِ قلم اس میدان میں بھی قابل قدر جوہر دکھا سکتا ہے اور افسانہ نگاروں کی فہرست میں اضافہ ہو سکتا تھا وہ مگر بوجوہ اس طرف نہیں آئے۔ان کی نظموں کی دو کتب تو ان کا ماسٹر پیس ہیں ایک " پانی میں گم خواب " اور دوئم " عرابچی سو گیا ہے"۔پانی میں گم خواب ان کی ایک نظم ہے جس سے کتاب کا نام چنا گیا ہے۔اور بہت ساری نظموں کے ساتھ یہ نظم بھی ان کی ایک نمائندہ نظم ہے ہسٹری تسلسْل ہے /ایک بار ٹوٹے تو/ دْوربیں نگاہیں بھی/ تھک کے ہار جاتی ہیں/ گم شدہ زمینوں سے /منقطع زمانوں سے/ رابطہ نہیں ہوتا/ننّھے مْنّے بچّوں کے/ نَو بہار ہاتھوں میں/ پھول کون دیکھے گا؟/ آنے والی صدیوں میں /تیری میری آنکھوں کے /خواب کون دیکھے گا؟/ زیر ِ آب چیزوں کا /کچھ پتا نہیں ہوتا۔ نصیر احمد ناصر نے غزل بھی کہی ہے اور اپنے پرچے کی ادارت کا بھی فرض نبھایا ہے اور خوب نبھایا ہے۔ تسطیر کو جاری ہوئے پچیس سال ہو گئے ہیں۔اس عرصے میں تخلیق کاروں نے ادب کی ہر صنف میں اپنا آپ منوایا ہے۔ اس عرصے کے غزل نمبر، نظم نمبر اور افسانہ نمبر تریب دینا وقت کی ضرورت ہے۔ اس وقت اردو دنیا میں کوئی ایسا ادبی پرچہ نہیں جسے اس عہد کا نمائندہ کہا جا سکے۔اس ادبی قحط کی ایک اہم وجہ ہے ادبا ان پرچوں کے مدیران کی پسند ناپسند سے بے نیاز ہو گئے ہیں اور وہ اپنی تخلیقات کی بھی پرچے کو بھیجنے کے روادار تک نہیں۔فی زمانہ سوشل میڈیا کا زمانہ ہے نوجوان ادیب اسی موج میلے میں خوش ہے کہ مدیر ان سے اور وہ مدیر سے الرجک ہیں۔وہ نوجوان شاعر ادیب جو سوشل میڈیا پر متحرک ہیں وہ کسی پرچے میں نظر نہیں آتے کہ جو وہ نام کمانا چاہتے ہیں وہ اب سوشل میڈیا کے ذریعے ممکن ہے ادبی جرائد گویا گزرے کل کی آواز ہیں۔جن کے بارے میں غالب کہہ گئے تھے اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انہیں کچھ کہ کہو ویسے آج کل ایسے ایسے پرچے ادب کے نام پر نکالے جا رہے ہیں جن کا ادب سے تعلق ثابت کرنا بھی مشکل ہے۔ فی زمانہ ادبی پرچے کا مدیر تخلیق نہیں خانہ پری کر رہا ہوتا ہے۔ادب کی دنیا افتخار بخاری کے بقول " خدا کی زمین بہت بڑی ہے" اسے محدود کرنا ادب اور ادیب دونوں کے لیے سودمند نہیں ہے۔ہم سب کا فرض ہے کہ ادبی پرچوں کی روایت کو زندہ رکھا جائے اور ہر طرح یہ کوشش ہونی چاہیے کہ نوجوان ادیب پرچوں کو اور ادبی پرچے آپس میں ایک ساتھ چلنے کی سعی میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں۔خانہ پری سے پرہیز لازم ہے۔