بر صغیر پاک ہند میں فرقہ واریت کی موجودہ شکل انگریز لے کر آئے تھے۔ اس واردات کے ذریعے انہوں نے بھائیوں کو ایک دوسرے کا دشمن بنا کر تقسیم کیا جس سے ان کے خلاف مزاحمت کمزور ہوئی۔ اس فرقہ واریت میں دیوبندی اور بریلوی ایک دوسرے کے حریف رہے جبکہ اہلحدیثوں کا وزن دیوبندیوں کے پلڑے میں ہی رہا۔ قیام پاکستان کے بعد 1980ء تک تو لگ بھگ یہی صورتحال رہی مگر جب ایران کی مذہبی حکومت نے اپنا انقلاب پڑوسی ممالک کو ایکسپورٹ کرنا شروع کیا تو دیوبندی بریلوی اختلاف پس منظر میں چلا گیا اور شیعہ سنی اختلاف ہمارے قومی منظرنامے پر غالب آ گیا۔ ایران اور سعودی عرب نے پاکستان کی فرقہ پرست تنظیموں کی سرپرستی شروع کردی جس سے شیعہ سنی اختلاف پر تشدد دور میں داخل ہو گیا مگر اس دوران ایک دلچسپ واردات دیوبندیوں کے ساتھ بھی ہو گئی۔ اہلحدیث جو علامہ احسان الٰہی ظہیر کے ذریعے سعودیوں تک رسائی حاصل کر چکے تھے وہ ان تعلقات کو بڑے پیمانے پر کیش کرنے میں کامیاب ہوئے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب دیوبندیوں سے بھی سعودی احتراز کرنے لگے اور اس مقصد کے لئے پاکستان سے اہلحدیث بھرتی کرکے حرمین میں تعینات کردئے گئے جو حج کے موقع کو اس فرقہ واریت کے لئے بطور خاص استعمال کرتے۔ حج کے موقع پر اردو زبان میں لکھی گئی چند مخصوص کتب لاکھوں کی تعداد میں چھاپ کر تقسیم کی جاتیں۔ ان کتب میں صرف دیو بندیوں کے لئے ہی نہیں بلکہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے لئے بھی وہی زبان استعمال ہوتی جو پی ٹی آئی کے ورکر نواز شریف کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ سعودیوں کی جانب سے فرقہ واریت کو ہوا دینے کا یہ دورانیہ شاہ فہد اور شاہ عبداللہ کے دور اقتدار پر محیط ہے۔ شاہ سلمان اس حوالے سے بہت مختلف ثابت ہوئے۔ 2015ء میں سعودی حکومت نے سرکاری خرچے پر پاکستان سے جن علماء کو حج کے لئے مدعو کیا اس میں پہلی بار اس بریلوی مکتبہ فکر کے علماء کو بھی شامل کیا جنہیں وہ ساٹھ ستر سال سے راندہ درگاہ سمجھتے چلے آ رہے تھے۔ اس حج ڈیلی گیشن میں دیوبندی مکتبہ فکر کے ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر، مولانا زاہد الراشدی اور مولانا فضل محمد۔ اہل حدیث مکتبہ فکر سے عبد العلیم یزدانی، ڈاکٹر عزیز الرحمٰن جبکہ بریلوی مکتبہ فکر سے قاری زوار بہادر اور مولانا نصیر نورانی سمیت کئی علماء شامل تھے۔ ان سب کے علاوہ اس سفر میں "اخباری مکتبہ فکر" کے برادرم سیف اللہ خالد بھی موجود تھے جن سے اس سفر کی بڑی خوشگوار یادیں سننے کو ملیں۔ اگر آپ غور کریں تو مذکورہ تینوں مکاتب فکر کا ایک دوسرے سے زیادہ تر جھگڑا ہی رسول اللہؐ کے حوالے سے ہیجو سنت و بدعت، حاضر ناظر، حیات ممات کے گرد گھومتا ہے۔ لیکن لطف دیکھئے کہ حج کے بعد یہ وفد مدینہ منورہ روانہ ہوا تو طے ہوا کہ یہ سفر بس میں سوتے ہوئے نہیں کرنا بلکہ یوں جانا ہے جیسے پروانے شمع کی جانب جاتے ہیں۔ دیوبندی خطیب شبیر عثمانی کو حمد پیش کرنے کا کہا گیا تو انہوں نے حمد بریلوی مکتبہ فکر کے ممتاز مرشد پیر نصیر الدین نصیر مرحوم کی پیش کرنی شروع کردی۔ جب بس کس سے مانگیں، کہاں جائیں ، کس سے کہیں ، اور دنیا میں حاجت روا کون ہے سب کا داتا ہے تو، سب کو دیتا ہے تو، تیرے بندوں کا تیرے سوا کون ہے سے گونجنے لگی تو منظر یہ بن گیا کہ حمد بریلوی کی، اسے پیش کرنے والا دیوبندی اور اس پر فرط عقیدت سے جھوم جھوم کر داد دینے والا وہ اہلحدیث علیم یزدانی جس کا تعارف ہی بریلوی مکتبہ کے خلاف فرقہ وارانہ تقریریں رہی ہیں۔ اس کے بعد بریلوی مکتبہ فکر کے قاری زوار بہادر نے مشہور نعت جب مسجد نبوی کے مینار نظر آئے اللہ کی رحمت کے آثار نظر آئے میں تصرف کرتے ہوئے اسے جب شہرِ نبی کے آثار نظر آئے اللہ کی رحمت کے آثار نظر آئے پڑھنی شروع کی تو ہر مکتبہ فکر کی آنکھ اشکبار ہوگئی۔ سب سے دلچسپ مرحلہ وہ تھا جب علیم یزادنی صاحب کو آنحضرت ؐ کا سراپا بیان کرنے کا کہا گیا۔ ساری زندگی بریلویوں کے خلاف تقریریں کرنے والے اس اہلحدیث خطیب نے سراپائے رسولؐ بیان کرنا شروع کیا تو بریلوی مکتبہ فکر کے قاری زوار بہادر نے فرمائش کی "یوں نہیں بلکہ اہلحدیثوں والی طرز میں سنائیں " بالفاظ دیگر انہوں نے اس طرز کی فرمائش کی جو بریلویوں کے خلاف کی گئی تقریروں میں ان کی شناخت ہے۔ اور جب یہ طرز شروع ہوئی تو سب سے زیادہ قاری زوار بہادر ہی اس پر جھومتے رہے۔ برادرم سیف اللہ خالد جب یہ سب مجھے بتا رہے تھے تو ذہن میں ایک ہی بات آرہی تھی کہ جب یہ تین مکاتب فکر مدینہ منورہ جاتے ہوئے ایک تنگ سی بس میں سیرت کانفرنس منعقد کرکے سما باندھ سکتے ہیں تو یہی کام پاکستان کی وسیع وعریض جلسہ گاہوں میں بھی تو ہو سکتا ہے۔ اور جب یہ یہاں ہوگا تو کیا فرقہ واریت ختم نہیں ہو جائے گی ؟ میری تجویز ہے کہ ربیع الاول کا مہینہ شروع ہوچکا، کوئی اللہ کا بندہ لاہور یا کراچی میں ایک ایسی سیرت کانفرنس کا انعقاد کر ے جس میں مدینہ جانے والی اس بس میں موجود علماء کو ہی مدعو کر لے۔ یقین کیجئے اس نیک کام کے ذریعے بہت بڑی تبدیلی کا آغاز ہو سکتا ہے۔ کوئی ہے جو اس بین المکاتب سیرت کانفرنس کا انعقاد کر سکے ؟