اگر کوئی پوچھے کہ امریکہ کے نئے صدر جوبائیڈن کی سب سے نمایاں خوبی کیا ہے تو میں بلاتردد کہوں گا کہ وہ جو بھی ہے، جہاں بھی ہے، ان کے لب و لہجے اور عمل میں شائستگی‘بردباری اور محبت جھلکتی ہے۔ سابق صدر بارک اوباما کی طرح نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، ہم اس بات کا جائزہ آگے چل کر لیتے ہیں کہ 3نومبر 2020ء کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں بائیڈن کی جیت اور ڈونلڈ ٹرمپ کی ہار کے بنیادی محرکات اور عوامل کیا تھے، دیکھتے ہیں وہائٹ ہائوس کا مکین کیا کر سکتا ہے، وہ دنیا کا سب سے طاقتور شخصیت کہلاتا ہے جی ہاں وہ ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم گرانے کا حکم دے سکتا ہے ،جس کی تباہ کاریوں کے سبب کئی لاکھ افراد آناً فاناً زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ،کئی لاکھ افراد معذوری کے عذاب میں مبتلا ہو جاتے ہیں، وہ برطانیہ سے مل کر جرمنی اور جاپان جیسی قوتوں کو دوسری جنگ عظیم میں ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر سکتا ہے۔ وہ آئزن ہاور کی صورت میں دنیا کی قوتوں کی صف بندی میں امریکہ کی برتری کو قائم رکھ سکتا ہے۔ وہ جان ایف کینڈی کی صورت میں کیوبا کے مسئلے پر روس جیسی سپر پاور کو دنیا کے نقشے سے مٹا دینے کی دھمکی دے سکتا ہے، وہ 60ء کی دہائی میں سیاہ فاموں کے حقوق کے لئے چلائی جانے والی تحریک میں مارٹر لوتھرکنگ کی آواز میں آواز ملا کر دنیا کو حیران کر سکتا ہے۔ امریکی صدر ویت نام پر حملہ کا حکم دے سکتا ہے ،یہ نکس کی صورت میں اندرا گاندھی کو مغربی پاکستان پر حملہ کرنے سے روک سکتا ہے وہ ایک کاغذ جاری کر کے عراق کو ایران پر حملے کی ترغیب دے سکتا ہے۔7سال تک اس خونریز جنگ کو بھڑکائے رکھ سکتا ہے، وہ 1973ء میں اسرائیل پر مصری فوج کے حملے کو روکنے کے لئے امریکہ کی پوری جنگی مشین کو استعمال کر سکتا ہے۔وہ کارٹر کی صورت میں مصر کے سادات اور اسرائیل کے وزیر اعظم کو کیمپ ڈیوڈ میں مدعو کر کے ان سے نووار پیکٹ کرا سکتا ہے۔ وہ اس کے عوض مصر کے تمام غیر ملکی قرضے معاف کرانے کا اہتمام کر سکتا ہے۔ وہ ایران پر ہر طرح کی اقتصادی پابندیاں عائد کر سکتا ہے وہ ایک کاغذ جاری کر کے لیبیا کے کرنل قذافی کو بے دردی سے قتل کروا سکتا ہے۔ عراقی مرد آہن صدام حسین کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا سکتا ہے، وہ ایران کی اہم شخصیات کو پراسرار انداز سے دنیا سے غائب کر سکتا ہے۔ ایک حکم جاری کر کے بوسنیا میں ہزاروں لوگوں کو نسل کشی کے عذاب سے بچا سکتا ہے وہ ایک حکم سے صومالیہ روانڈا افغانستان اور البانی کو بھوک سے بچا سکتا ہے۔ ایک حکم جاری کر کے مشرق بعد کو مغرب بعید کے قریب لا سکتا ہے ایک کاغذ جاری کر کے تیسری دنیا کے کسی بھی ملک کا مقدر بدل سکتا ہے، ایک آرڈر کر کے دنیا کے سارے سلگتے مسائل کی آگ بجھا سکتا ہے اور ایک حکم کے ذریعے بے دردی سے افغانیوں پر چڑھائی کا حکم دے سکتا ہے ،پھر آپ کا سوال یہ ہو گا کہ دنیا کی سفارتی تاریخ تو کچھ اور گواہی دے رہی ہے۔ مشرق سے مغرب تک حکمرانی کرنے والا امریکہ سمندری چٹانوں پر کھڑے چھوٹے سے کیوبا کو فتح نہ کر سکا ،صحرا کی ریت میں ہوائوں کے رحم و کرم پرقائم لیبیا کو پوری طاقت کے باوجود مسخر نہ کر سکا۔ انقلاب کے بعد اپنے تمام تر جبر کے باوجود ایران کو سرنگوں نہ کر سکا۔ اپنی ساری عسکری طاقت کے باوجود ویت نام کے نہتے جنگلیوں کو قابو نہ کرسکا ،جب امریکیوں کے تہران میں اپنے سفارتخانے میں یرغمالیوں کو چھڑانے کے لئے امریکہ نے ایک خفیہ کارروائی کی تو ان کے ہیلی کاپٹرز کے آپس میں ٹکرا جانے کے بعد یہ مشن ناکام ہو گیا اور صدر کارٹر کو اعتراف کرنا پڑا کہ سب کچھ پروگرام کے مطابق ہوا لیکن لگتا ہے کہ خدا ہمارے ساتھ نہیں تھا۔ کریمٹ فارمولا بھی امریکہ کی اس غیر معمولی طاقت کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ 50ء کی دہا ئی میں صدر آئزن ہاور کی کسی مشیر نے بتایا ایران کا ڈاکٹر مصدق اسلامی دنیا کا ہیرو بن کر ابھر رہاہے۔ صدر نے مشیر سے پوچھا وہ کیسے۔ جواب ملا اس میں کردار ہے، علم ہے ،فراست ہے ،وہ دلوں کو مسخر کر دینے والی شخصیت ہے اور سب سے بڑھ کر وہ اپنے مذہب سے مخلص ہے۔ آئزن ہاور نے جو گالف کھیل رہا تھا، اسٹک ہوا میں لہرائی اور فخریہ انداز میں کہا۔ ڈاکٹر کو بتا دو آئزن ہاور گالف کا کتنا اچھا کھلاڑی ہے۔ اگلے دن تھیوڈور روز ویلٹ کو پوتے کے شاطر دماغ کریمٹ روز ویلٹ کو سی آئی اے کے ہیڈ کوارٹر بلا کر ’’چینج دی ورلڈ‘‘ نامی منصوبہ دیدیا گیا، اس کو مصدق کو ہٹانے اور اختیارات شاہ ایران کے حوالے کرنے کا ٹاسک دے کر ایک ملین ڈالر کی رقم فراہم کر دی گئی۔ کریمیٹ نے سگریٹ کا کش لیتے ہوئے کہا ہو جائے گا۔ پھر تاریخ نے یہ منظر بھی دیکھا کہ وہ مصدق جو اسلامی دنیا میں امام کعبہ جیسی عزت و توقیر کا مالک بنتا جا رہا تھا کس طرح گلیوں میں رسوا ہوا، اس کی تصویر کو جوتوں کے ہار پہنائے گئے۔ کریمیٹ اپنے مشن کی تکمیل کے بعد واشنگٹن پہنچا تو اس کا شایان شان استقبال کیا گیا۔ امریکہ کی پوری تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو دیکھیں اس نے ہیری کلنٹن جیسی مقبول ڈیمو کریٹ کو غیر متوقع شکست سے دوچار کر دیا۔ یہ کوئی راز کی بات نہیں تھی اس نے امریکیوں کو صرف یہ بتایا کہ امریکہ صرف گورے امریکیوں کا ہے۔ اب جاتے ہوئے وہ کہہ رہا ہے کہ اس کا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے کوئی جنگ شروع نہ کی۔نئے صدر جوبائیڈن بھی انسان ہیں ان سے بھی کوتاہیاں ہوں گی۔ ان کے نقاد کہتے ہیںکہ وہ سرمایہ داروں کی کٹھ پتلی ہیں لیکن یہ بات طے ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح خودسر اور عجلت پسند نہیں۔ لیکن یہ بات لکھ لیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ بھی رچرڈنکسن کی طرح دوبارہ امریکی صدارت کے لئے قسمت آزمائیں گے۔ لکڑ ہارے کے بیٹا ابراہم لنکن مو نگ پھلی بیچنے والے کا بیٹا جمی کارٹر اور اب اخبار فروش کا لڑکا امریکی صدر بن گیا۔ جوبائیڈن مختلف الزامات سے مبرا نہیں اور ان کی کارکردگی کے بہت سے داغ ان کے ماضی پر لگے دکھائی دے رہے ہیں، وہ امریکہ اور امریکی قوم کے لئے کیا کر سکیں گے۔ اس کا علم کسی کو نہیں لیکن یقین سب کو ہے۔