خوابوں سی دلنواز حقیقت نہیں کوئی یہ بھی نہ ہو تو درد کا درمان بھی نہ ہو محرومیوں کا ہم نے گلہ تک نہیں کیا لیکن یہ کیا کہ دل میں یہ ارمان بھی نہ ہو خواب بھی عجیب ہوتے ہیں۔ فراز نے کہا تھا خواب کیا دیکھا کہ دھڑکا لگ گیا تعبیر کا۔ ویسے یہ کیسی بات ہے کہ بعض لوگ خوابوں کی باتیں کرتے ہیں مگر وہ خود تعبیر کی طرح ہوتے ہیں یقینا آپ کے ذہن میں اقبال آئیں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دل و دماغ میں سودائے تعمیر ہوتا ہے۔ خواہ وہ جگنو کی طرح چھوٹا سا کیڑا ہی کیوں نہ ہو‘ راہ میں روشنی تو کرے گا‘ اصل میں مجھے آج بات کرنی ہے شاہد صدیقی کے کالموں کے مجموعہ زیر آسمان کی۔ انہیں ڈاکٹر میں نے اس لئے نہیں لکھا کہ یہ تدریسی سی بات لگتی ہے اس کے باوجود کہ ان کا تعلق تو تدریس سے ہے مگر ان کے اندر ایک ادیب اور تخلیق کار ہے۔ زیر آسمان انہوں نے جو بساط بچھائی ہے یا جو زمین پھیلائی ہے اس پر لہلہاتی فصلیں نظر آتی ہیں خاص طور پر سرسوں کی سونا رنگ فصل جس کے پس منظر میں ایک شاندار روایت ہے ایثار‘ قربانی‘ محبت اور لگائو کی۔ زیر آسمان میں کالم نہیں ہیں۔ یہ فن پارے ہیں یہ خوابوں کی تجسیم ہے اور یہ خیالات کے بادل ہیں جو کن من آپ پر برستے ہی چلے جاتے ہیں۔ انہوں نے آئینہ خانہ سجایا ہے اور پھر اس میں تصویریں رکھ دی ہیں جو بولتی بھی ہیں۔ شاعرانہ اور مصورانہ باتیں کرنے والے کو میں زیادہ نہیں جانتا مگر وہ اپنے بڑے بھائی عرفان صدیقی کے ساتھ اردو بازار میں میرے آفس آتے تھے کہ عرفان صدیقی کی تمام کتب نقش خیال دائروں میں سفر سمیت میں نے اپنے پبلشرز سے چھپوائی تھیں۔ شاہد صدیقی کا اتنا سا تعارف ہوا کہ وہ لمز میں انگریزی پڑھاتے ہیں۔ خوشی ہوئی کہ میرا سبجیکٹ بھی انگریزی ہے۔ وہ اتنے خاموش طبع ہیں کہ بیٹھے مسکراتے رہے ہمارے ساتھ بازار میں کتابوں کی دکانوں پر گھومتے رہے اور کتب دیکھتے رہے مجھے وہ اسلام آباد کے کتاب میلے میں بھی ملے اور اردو کانفرنس میں بھی۔ مجھ پر تو وہ تب کھلے جب انہوں نے اپنا ناول آدھے ادھورے خواب بھیجا اس پر میں کالم لکھ چکا ہوں۔ اب کے انہوں نے اپنے کالموں کا مجموعہ زیر آسمان بھجوایا۔ میں نے سوچا کہ کالموں کا کیا پڑھنا کہ روز کی ریاضت یہی ہے جب میں نے اسے کھولا تو پھر بند کرنا بھول گیا نہیں نہیں یہ کالم ہرگز نہیں ہیں یہ تو ان کی یادداشتیں ہیں یہ تو ان کا حاصل مطالعہ ہے اور پتہ نہیں کیا کچھ ہے ایک پینوراما ہے اس مجموعے کا نام ان کے دوست اور معروف فکشن رائٹر شکیل عادل زادہ نے رکھا تھا۔ ایک بات میں لکھنا ہی بھول نہ جائوں کہ یہ کتاب ہر لکھنے والے کو ہر صورت میں پڑھنی چاہیے کہ اس میں ادب تاریخ شخصیات اور دوسرے موضوعات پر بہت کچھ ملے گا ان کی تحریر نثر کی سہل ممتنع ہے آسان سلیس اور رواں۔ وہ چھوٹے چھوٹے جملے لکھتے چلے جاتے ہیں‘ جذبات کے ساتھ واقعات ایسے بیان کرتے ہیں جیسے باتیں کر رہے ہیں۔ خاص طور پر وہ کالم ایسے تمام کرتے ہیں جیسے کہانی اور نظم ختم کی جاتی ہے۔ اسے ہم پنچ لائن کہتے ہیں۔ وہ احمد ندیم قاسمی کی طرح گائوں اور قصبوں کی روایات و اقدار ایسی خوش اسلوبی سے بیان کرتے ہیں سب کچھ زندہ ہو جاتا ہے ۔وہ بتاتے ہیں کہ شہروں کی چکاچوند نے ان سے کیا کچھ چھین لیا۔ مثلاً وہ ماسٹر محمد افضل کا ذکر کرتے ہیں جو ہر وقت اپنے شاگردوں کے لئے فکر مند رہتے تھے اور انہیں تعلیمی مقابلے کے لئے یوں تیار کرتے کہ وکٹری سٹینڈ کے نمبر 1پر کھڑے ہونا ہے۔ ان کی تحریروں میں آپ کو کئی نادر معلومات ملیں گی۔ مثلاً ایوب ہال وہ جگہ ہے جہاں قومی اسمبلی کے اجلاس ہوا کرتے تھے۔ مولوی تمیزالدین سپیکر تھے پھر ان کے نام پر سڑک کا نام رکھا گیا یہیں سے پتہ چلا کہ جس سکول میں شاہد صدیقی پڑھتے تھے اس سکول کے پہلے ہیڈ ماسٹر تلوک چند تھے جن کے فرزند جگن ناتھ آزاد تھے اور یہاں طالب علم تھے۔ میں نے محسوس کیا کہ انہیں انگریزی ادب نے اسلوب کے حوالے سے بھی متاثر کیا ہے جب وہ ماسٹر افضل کا ذکر کرتے ہیں تو شوخ انداز میں یہ بھی بتاتے ہیں کہ ان کے کمرے کے سامنے شہتوت کا درخت تھا جس کا مصرف یہ تھا کہ وہ اس سے لچکدار چھڑیاں بنواتے تاکہ طلبا کو سیدھا کیا جا سکے۔ کہیں کہیں مجھے ونسٹن چرچل کی یاد آئی۔ وہ فراق ہو کہ فراز یا پھر پروین شاکر انگریزی ادب کا اثر ایک انفرادیت تو دیتا ہے خاص طور پر فطرت کی بو قلمونی اور خوش مزاجی یا شگفتہ بیانی۔ ان کے وہی غالب والی کثرت نظارہ ہے کہ آنکھ ان کی وا ہے وہ ایک ہی وقت میں سیاح تاریخ دان دانشور اور مصلح نظر آتے ہیں۔ ایک خوبصورتی ان کے ہاں شعروں اور نظموں کے تراشوں کا استعمال ہے۔ منیر نیازی ان کا فیورٹ لگتا ہے میری ان سے یہ بھی قدر مشترک ہے کہ میں تو اکثر منیر نیازی کے ساتھ ہوتا تھا۔ ان کے شعروں کا انتخاب برجستہ ہے ایک شعر کہیں لکھا تھا‘ خوب تھا: تو مرے راستے سے گزرا تھا میں ترے راستے میں بیٹھا ہوں ان کالموں میں بہت کچھ ہے خاص طور پر ماں کے حوالے سے پڑھنے کے لائق۔ ان کے والد محترم نے انہیں لمبے بال کٹوانے پر زور دیا تو والدہ آگے بڑھ کر کہنے لگیں کہ انہیں شاہد کے لمبے بال اچھے لگتے ہیں۔ والد خاموش ہو گئے شاہد صدیقی پر بعد میں کھلا کہ اس کی والدہ نے بیٹے کی پسند کو اپنی پسند بنا لیا تھا۔ انہوں نے اپنے انگریزی کے استاد سجاد شیخ کا بہت ہی اچھا تذکرہ کیا۔ ایک مرتبہ پھر ان سے ایک مطابقت نکل آئی کہ انہی سجاد شیخ نے لیکچر شپ کے لئے میرا انٹرویو کیا تھا اور بعدازاں مجھے اسلام آباد میں ملے تو بتانے لگے کہ انہوں نے میری چند نظموں کا انگریزی میں ترجمہ کر رکھا ہے۔ انہوں نے مشاہیر کا تذکرہ بھی کیا تو دلچسپی سے خالی نہیں۔ وہ وائس چانسلر بھی رہے وہ ڈان اور دی نیوز کے ادارتی صفحہ پر بھی کالم لکھتے رہے۔ لگتا ہے تخلیقی صلاحیت انہیں ورثہ میں ملی ان کے بڑے بھائی عرفان صدیقی جیسے انشا پرداز بھی کم کم ہی ہونگے۔ مگر شاہد صدیقی کا اسلوب بہت جداگانہ ہے انہوں نے اپنا راستہ الگ نکالا ہے ۔گزرے ہوئے لمحوں کو زندہ کرنا وہ جانتے ہیں اورناسٹیلجیا با مقصد کیسے بنانا ہے یہ بھی انہیں خبر ہے۔ آخری بات کہ شاہد صدیقی ایک نفیس و انیس تخلیق کار کا نام ہے۔ شکیب کے شعر کے ساتھ اجازت: شکیب اپنے تعارف کے لئے یہ بات کافی ہے ہم اس سے ہٹ کے چلتے ہیں جو رستہ عام ہو جائے