دوادارے جو ہمارا مان تھے۔ہم سے رخصت ہو رہے ہیں۔ پی آئی اے اور سٹیل ملز۔ آج کل خاص کر سٹیل ملز کا بہت چرچا ہے جس کے ملازمین نے نیشنل ہائی وے پر اور ملک کے اہم ترین ریلوے ٹریک پر دھرنا دے کر زندگی مفلوج کر دی۔میرا یہ پختہ یقین ہے کہ ان اداروں کی تباہی میں کراچی کی سیاست کا بنیادی کردار ہے اور اب ہم جو کشکول لے کر نکلے ہوئے ہیں تو ہمیں آج کی عالمی ایسٹ انڈیا کمپنی المعروف آئی ایم ایف نے بتا رکھا ہے کہ ہمیں ان اداروں سے دستبردار ہونا پڑے گا۔ حکومت نے افراتفری میں اعلان کر دیا ہے کہ سٹیل ملز کے 9500ملازمین میں سے 4500فوری طور پر فارغ کئے جا رہے ہیں۔ باقیوں کی بھی چھٹی ہو جائے گی۔95فیصد ملازمین گھر جائیں گے۔ پھر پانچ فیصد لوگوں سے کیا سٹیل ملز چلائی جائے گی۔ کیا یہ اس کی نجکاری کی شرائط ہیں یا کیا ہے۔ جب پہلی بار اسٹیل ملز فروخت کی گئی تو اس وقت یہ ادارہ منافع میں جا رہا تھا۔ پہلے کرنل افضل نے پھر جنرل قیوم نے اسے پائوں پر کھڑا کر دیا تھا۔ جنرل قیوم بہت تلمائے۔ وہ کہتے رہے‘ میں نے 10ارب روپے جمع کئے ہیں۔ سٹیل ملز کے اپنے وسائل سے قرضے بھی اتار دیے ہیں مجھے اجازت دیجیے۔ سٹیل ملز میں کوئی 160چھوٹی موٹی تبدیلی کردوں گا۔ حکومت سے ایک پیسہ نہیں لوں گا۔ پھر سٹیل ملز کی گنجائش بھی بڑھ جائے گی۔ یہ 11لاکھ ٹن سے 15لاکھ ٹن ہو جائے گی۔ وہ یہ بھی کہتے رہے کہ روس تیار ہے‘ چین بھی آمادہ ہے۔ ہم اس کی گنجائش ان کی مدد سے 30لاکھ ٹن کر دیں گے۔ پھر یہ ادارہ ہمیشہ ہمیشہ کی طرح اپنے پائوں پر کھڑا ہو جائے گا۔ مگر شوکت عزیز کا کہنا تھا کہ ذرا برابر بھی اصلاح نہ کی جائے۔ ایسے ہی بیچیں گے۔ کوئی اسے صفر روپے میں بھی خریدے تو خسارے کا سودا نہیں۔ یہ منطق کسی کو سمجھ نہ آتی تھی‘ عدالتوں نے اس کی نجکاری پر حیرانی کا اظہار کیا۔ جتنے میں بیچی تھی اس سے زیادہ تیار مال اور استعمال ہونے والا سامان موجود تھا۔ بعد میں لگتا تھا اب اس بات کی سزا دی جا رہی ہے کہ ہم نے اونے پونے اسے فروخت کیوں نہ کیا ہم ہر سال تاوان بھرتے رہے اور قائل ہوتے رہے کہ اسے بیچ ہی ڈالو تو اچھا ہے۔ نئی حکومت نے آتے ہی اعلان کیا کہ ہم اسے چلا کر دکھائیں گے۔اسد عمر تو یہاں تک کہہ گئے کہ نہ چلا سکا تو آپ کے ساتھ حکومت کی مخالفت میں آکھڑا ہوں گا۔ بتایا گیا کہ سنگا پور اور ملائشیا میں یہ ماڈل کامیاب ہے۔ وزیر اعظم نے بہ نفس نفیس اس کی ذمہ داری سنبھالی۔ آخر دو سال کے بعد اعلان ہوا کہ ہم ملازمین کو فارغ کر رہے ہیں۔ تقریباً سب کو فارغ کر دیں گے۔ ان کی محبت میں سندھ کی صوبائی حکومت سامنے آئی۔وہ زمینوں کے بڑے شیدا ہیں۔کہنے لگے‘ بند کیا گیا تو پھر یہ زمین ہماری ہو گی۔ صوبائی حکومت کا اس نوع کا موقف بہت پرانا رہا ہے۔ ان کی نگاہیں ہمیشہ زمین پر ہوتی ہیں۔ وہ یہاں پلازے اور بنگلے بنتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ ان کی نظر میں یہ بنیادی مسئلہ ہے کہ سٹیل ملز ختم ہو تو یہاں قبضہ کس کا ہو گا۔بڑا ہی دلچسپ موقف ہے۔ درمیان میں ٹکڑا لگا دیتے ہیں یہ سب کچھ وفاق کر رہا ہے۔ ہم کسی کو بے روزگار نہیں ہونے دیں گے۔ میں نے عرض کیا تھا کہ اسٹیل ملز اور پی آئی اے کی تباہی میں کراچی کی سیاست کا دخل ہے۔ ایم کیو ایم آتی تو اپنے پانچ چھ ہزار کارکن بھرتی کر جاتی۔ پیپلز پارٹی آئی تو اتنے ہی جیالے لگا جاتی بعد میں جھگڑا پڑا رہتا۔ دوسرے بھی کچھ کرتے ہوں گے مگر ان پارٹیوں کا جواب نہیں۔پیپلز پارٹی اسی طرح نوکریاں دیتی ہے۔ میرٹ یا ضرورت نہیں دیکھتی۔ بس اپنے بندے کھپا دیتی ہے جن کے ساتھ بعد میں لازمی طور پر اچھا سلوک نہیں ہوتا۔ جب یہ ادارہ بن رہا تھا تو ایک خواب تھا۔ عالمی اقتصادی سامراج یہاں سٹیل ملز لگنے نہیں دینا چاہتا تھا۔ ہمارے ملک میں یہ ایک بڑی بنیادی بحث تھی۔ اس زمانے میں خاص کر فولاد سازی کلیدی صنعت تھی۔جس کے پاس لوہا اس کے پاس اصل طاقت۔ یہاں سٹیل امپورٹ کرنے والوں کی بڑی مضبوط لابی تھی۔ مجھے یاد ہے ان دنوں ایک پروفیسر اشفاق ہوا کرتے تھے جن کے نام پر لاہور میں ایک سڑک بھی ہے۔ وہ غالباً ایم حمزہ کے نام سے لکھا کرتے تھے۔ یہ گویا ایک بڑا قومی مسئلہ تھا اور اسے اجاگر کرنے والے قومی ہیرو تھے۔ بھٹو صاحب کا یہ بڑا کارنامہ گنا جاتا ہے کہ انہوں نے روس کی مدد سے اس منصوبے کا آغاز کیا۔ کیا شاندار منصوبہ تھا۔ یاد نہیں کتنے سو میل سڑکیں اور ریلوے لائن ہے۔ سمندر سے خام مال گاڑیوں میں نہیں آتا تھا۔ ایک تین کلو میٹر لمبی بیلٹ چلتی تھی۔ جو جہاز سے اترا ہوا مال سیدھا کارخانے میں لے جاتی تھی۔اس کے گرد22ڈائون سٹریم انڈسٹریز کے لئے گنجائش تھی۔کیا نیا عالم آباد ہونا تھا۔ یہ خواب مگر خواب ہی رہا ہے۔ میں نے آغاز ہی میں یہاں آ کر ایک مضمون لکھا:پاکستان کا صنعتی دارالحکومت۔ کہا جاتا تھا کہ اس سٹیل ملز کے لگنے کے بعد ہماری ٹیکسلا والی ہیوی مشین فیکٹری اور کراچی کی سمال مشین گول فیکٹری مل کر ایک صنعتی انقلاب لا سکتی ہیں۔ اتفاق کا نام نہیں لوں گا‘ لاہور میں پیکو(پیکو) تھا۔ کراچی میں شپ یارڈ ہم سب کچھ بنا سکتے تھے۔ افسوس یہ خواب خواب ہی رہا۔ سٹیل ملز کے عقب میں بس ایک کلب بنا جہاں کی اپنی دنیا تھی۔ یہ درست ہے اس کی حالت دگرگوں ہوئی‘ مگر جب اس نے سنبھالا تھا یا تو ہم بیچنے تل گئے۔ اور وہ بھی اونے پونے نرخوں پر۔پیپلز پارٹی کے دنوں میں جنرل جاوید کو دوبارہ یہ کام سونپا گیا۔ شاید وہ کچھ کر دکھائیں مگر چند ماہ بعد وہ بھی مایوس ہو گئے۔ حکومت خام مال منگوانے کے لئے فنڈز ہی جاری نہ کرتی تھی۔بس یوں سمجھئے کہ اس کی تعمیر سے لے کر اس مرحلے تک جب اس نے دوبارہ اڑانیں بھرنا شروع کر دی تھیں میں نے اسے بہت قریب سے دیکھا ہے۔ بس یوں سمجھئے ایک خواب سمجھئے۔ پھر اجڑتے دیکھا ہے۔ بہت سیاست ہوئی مگر اس حکومت کے پاس کوئی جواز نہیں ہے جس نے اس کے احیائے نو کا پختہ اعلان کیا تھا۔ اچھے اچھے خیالات ادھر ادھر سے لے کر اگر یہ سمجھا جائے کہ معرکہ سر ہو گیا ہے تو ایسا نہیں ہوتا۔کام دکھانے والے کام دکھا گئے ہیں اور یہ حکومت ان معاملات میں مزاحمت نہیں کرتی۔ عالمی قوتوں کے سامنے جھک جاتی ہے۔ یو ٹرن نہ لیتی ہو‘ مگر سیدھی کھڑی بھی نہیں رہتی۔ایسے تو معیشت سنبھل نہیں پائے گی۔یہ عالمی اقتصادی دہشت گرد ہمیں کھائے جا رہے ہیں۔ خدا ہم پر رحم کرے۔ ہم کچھ بھی نہیں کر پا رہے۔ سٹیل ملز کا بھی سودا کر رہے ہیں اور پی آئی اے کا بھی حال خراب کر رہے ہیں۔ فی الحال اس دوسرے فیصلے پر پھر کبھی سہی۔ مگر اتنا خیال ہے کہ ہم خود اپنی قبر کھود رہے ہیں۔