حادثہ کیا ہے غیر متوقع ناگہانی صورتحال ! یہ قدرتی آفت کی صورت میں بھی ہو سکتی ہے اور انسانی غفلت کے باعث بھی۔ترقی یافتہ ممالک نے تو قدرتی آفات کے اسباب و علت پر غور و فکر اور تحقیق کر کے اگر تدارک ممکن نہیں تب بھی کم از کم جانی و مالی نقصان کو یقینی بنا لیا ہے۔ برادر ملک ترکی میں حالیہ تباہ کن زلزلے میں ہزاروں افراد لقمہ اجل بنے مگر طیب اردوان کی حکومت نے ریلیف اور بحالی کے لئے ہی مثالی اقدامات نہیں کئے بلکہ سینکڑوں بلڈرز کو بھی گرفتار کر لیا کیونکہ انہوں نے عمارتوں کی تعمیر میں سرکاری ایس او پیز کی خلاف ورزی کی تھی۔ ایک ہم ہیں کہ ہر حادثہ کو اللہ کی مرضی کہہ کر اپنی غفلت اور کوتاہیوںپر دانستہ مٹی ڈال دیتے ہیں اگر عوامی دبائو پر کسی حادثہ کی تحقیقات کرنی بھی پڑیں تو اول انکوائری کا ڈرامہ رچا کر معاملہ دبادیا جاتا ہے اگر ایسا ممکن نہ ہو تو ذمہ داری کا تعین کرتے وقت قربانی کا بکرا سب سے کمزور اہلکار کو بنایااور معاملہ ٹھنڈا ہونے پر بحال کر دیا جاتا ہے ۔ کاغذوں کا پیٹ بھرا پھر کسی نئے حادثے کا انتظار۔۔ اگر کبھی اس حکومت رویہ کے خلاف عوامی ردعمل کا لاوا پھٹ جائے تو متعلقہ ادارے کے اہلکار جواب آں غزل کے طور پر سڑکوں پر احتجاج شروع کر دیتے ہیں۔گزشتہ روز بھی ایسا ہی واقعہ اس وقت پیش آیا جب چلڈرن ہسپتال میں ایک بچے کی ہلاکت کے بعد بچے کے لواحقین نے میڈیکل سٹاف کو بچے کی ہلاکت کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے ڈاکٹر اور نرسز کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ چلڈرن ہسپتال صوبائی دارالحکومت کا ہی نہیں پورے ملک کا سٹیٹ آف دی آرٹ ہسپتال ہے۔ یہ ہسپتال ڈیزائن ہی سٹیٹ آف دی آرٹ ہوا تھا ۔اگر انتظامیہ غفلت کی مرتکب نہ ہوتی تو یہ آج دنیا کی بہترین علاج گاہوں میں شمار ہوتا۔ مگر کیا کیجیے انتظامیہ کی عدم دلچسپی میڈیکل اور پیرا میڈیکل سٹاف کی بے حسی نے اس ہسپتال کو بچوں کا مقتل بنا دیا ہے گزشتہ روز جو ہوا یہ پہلا واقعہ ہے نہ ہی آخری۔ سٹیٹ آف آرٹ ہسپتال میں میڈیکل سٹاف کی مجرمانہ غفلت اور کوتاہی سے بچوں کی ہلاکت معمول بن چکی ہے 28مئی کو انکوبیٹر کے اوورہیٹ ہونے سے ایک بچے کی جان گئی اور متعدد جھلس گئے۔ انکوبیٹر اوورہیٹ کیوں ہوا ذمہ دار کون تھا اس پر انکوائری انکوائری کھیلی جا رہی ہے۔ یہ مجرمانہ غفلت تقریباً ہر روز کسی نہ کسی بچے کی جان لے رہی ہے۔ انکوائری تو تب ہوتی ہے جب والدین بچے کی موت کو اللہ کی رضا سمجھنے کے بجائے میڈیکل سٹاف کی غفلت مان کر احتجاج اور بعض اوقات تشدد پر اتر آتے ہیں۔ ورنہ دو ہفتے پہلے اسی ہسپتال میں ایک بچے کو سی ٹی سکین کیلئے بغیر کسی ڈاکٹر یا نرس کے بھیج دیا گیا ۔سی ٹی سکین ڈیپارٹمنٹ میںبچہ زندگی کی بازی ہار گیا اور سادہ لوح والدین نے اسے اللہ کی مرضی مان کر صبر کر لیا۔ احتجاج توڑ پھوڑ تشدد نہیں ہوا اس لئے انتظامیہ نے بھی معاملہ دبا دیا۔چلڈرن ہسپتال کی انتظامیہ کے پاس اس بے حسی پر پردہ ڈالنے کے لئے کئی بہانے ہیں۔ سب سے بڑا جواز ہسپتال کی کیپسٹی سے زائد بچے اور حکومت کی طرف سے وسائل کی عدم فراہمی ہے۔چلڈرن انسٹی ٹیوٹ سنٹرل ایئرکنڈیشنگ کے مطابق ڈیزائن کیا گیا تھا مگر ایئر کنڈیشنگ سسٹم نہ جانے کب سے بند ہے۔ ہسپتال کی او پی ڈی میں ہزاروں بچے روزانہ آتے ہیں بچے کے ساتھ کم از کم دو دو لواحقین ہوتے ہیں۔ ایئر کنڈیشنگ سسٹم بند ہونے کی وجہ سے بچے تو دور کی بات بڑوں کا بھی سانس لینا محال ہوتا ہے او پی ڈی کا سیکنڈ فلور ڈیتھ چیمبر بن چکا ہے۔ انتظامیہ کا ایئرکنڈیشنگ سسٹم ٹھیک کروانا تو دور کی بات وینٹی لیشن کے لئے کوئی ایگزاسسٹ فین کی زحمت گوارا تب کی جاتی اگر کبھی چلڈرن ہسپتال کے وی سی یا کوئی چھوٹا موٹا انتظامی آفیسر ہی او پی ڈی میں قدم رکھتا اور اس کی سانس اکھڑنا شروع ہوتیں۔سینکڑوں بچے بیڈ نہ ہونے کی وجہ سے ماں کی گود میں بلک رہے ہوتے ہیں۔ سرجیکل یونٹ کی کارکردگی کا عالم یہ ہے کہ ایمرجنسی میں جو آپریشن ہو گئے، سو ہو گئے ان ڈور آپریشن تھیٹر میں کاغذوں میں لسٹیں بنتی ہیں ،دو دو مہینے سے بچے ہسپتال میں پڑے ہیں والدین التجا کریں تو ان کو مہینے بھر کی چھٹی دے کر دوبارہ آنے کو کہا جاتا ہے کسی مہذب معاشرے میں مسیحائوں سے اس قسم کے رویے کی توقع کی جا سکتی ہے؟ صرف چلڈرن ہسپتال ہی نہیں ہر سرکاری ہسپتال میں ایسی ہی صورتحال ہے سرکاری ہسپتال پروفیسرز کے لئے پرائیویٹ کیسز کی شکار گاہیں بن چکے ہیں۔ مریض کوہفتوں خوار کر کے پرائیویٹ ہسپتال جانے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ غریب اپنے گھر کے برتن بیچ کر پرائیویٹ ہسپتال جانے پر مجبور ہیں جن کے پاس تھوڑے بھی وسائل ہوں، وہ او پی ڈی میں پرچی کے حصول کے لئے کھڑے سینکڑوں بے بسوں کو دیکھ کر توبہ کر لیتے ہیں۔چلڈرن ہسپتال کے واقعہ کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب نے ایک بیڈ پر ایک بچے کو یقینی بنانے کا حکم صادر فرمایا ہے مگر یہ نہیں بتایا کہ کیا بچوں کی تعداد کے لحاظ سے ہسپتال میں بیڈز کی گنجائش بڑھائی جائے یا پھر باقی بچوں کو نجی ہسپتالوں کا رخ کرنے کو کہا جائے گا۔گنجائش بڑھانا تو ممکن نہیں کیونکہ حکومت تو پہلے سے جاری بجٹ کو سرنڈر کر رہی ہے۔ رہی بات ہسپتالوں اور مریضوں کی تو سرکای ہسپتال تو پہلے ہی ینگ ڈاکٹرز چلا رہے ہیں پروفیسر تو دور کی بات رجسٹرار بھی او پی ڈی اور ایمرجنسی میں ڈیوٹی پر موجودنہیں ہوتے۔ینگ ڈاکٹر اور پی جی بغیر تنخواہ کے 72 ,72 گھنٹے کام بھی کرتے ہیں اور انتظامیہ کی کرپشن اور بے حسی کی قیمت عوامی تشدد سہہ کر کے ادا کر رہے ہیں۔ اگران کو علیٰ تعلیم جاری رکھنا ہے تو عدم سہولیات کی وجہ سے الواحقین کے ہاتھوں مار پیٹ بھی برداشت کریں۔گزشتہ روز بچے کی ہلاکت کے بعد ورثاء نے توڑ پھوڑ اور عملہ پر تشدد کیا جواب میںینگ ڈاکٹرز اور نرسز نے احتجاجاً فیروز پور روڈ بند کر دی۔ انتظامیہ نے پرچہ درج کروا کر معاملہ دبا دیا مگر کب تک؟