فکر انجام کر انجام سے پہلے پہلے دن تو تیرا ہے مگر شام سے پہلے پہلے کیسے دم توڑ گئیں سینے میں رفتہ رفتہ حسرتیں حسرت ناکام سے پہلے پہلے میں کئی دنوں سے ایک موضوع پر بات کرنا چاہتا تھا مگر خیالات مجتمع نہیں ہورہے تھے۔ اصل میں اس وقت اس بات کا تذکرہ از حد ضروری ہے کہ امت کی یکجہتی کی بات ہی نہیںبلکہ اس کے لیے قابل عمل حل بھی ڈھونڈنا ضروری ہے۔ ظاہر ہے اس وقت ملک کی صورتحال مخدوش ہے۔ کوئی بھی سمت درست نہیںبلکہ حقیقت کو مسخ کرنے کی کوشش ہورہی ہے کہ مدعا ہی غائب کردیا جائے۔ ایک مرتبہ پھر دگرگوں حالات کے باعث دہشت گردی نے سراٹھایا ہے اور باجوڑ کے سانحہ نے سب کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس سانحہ میں شہید ہونے والوں کی تعدادہو چکی ہے اور ملک کی فضا بہت سوگوار ہے۔ کہا جارہا ہے کہ داعش نے ذمہ داری قبول کرلی ہے۔ بات تو طے ہے کہ دشمن ہمارے ملک کو پھلتے پھولتے نہیں دیکھنا چاہتا۔ اس سے بیشتر جمہوری عمل تقریباً رک چکا ہے اور نہایت چالاکی اور مکاری سے انتخابات کو سبوتاژ کیا جارہا ہے۔ یہ بھی تو ممکن ہے کہ ایک مرتبہ پھر سی پیک کسی کو کھٹک رہا ہے جس پر وزیراعظم کا بیان کہ پاک چین دوستی میں رکاوٹ کسی بھی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔ داعش کے پیچھے کون ہے سب جانتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ فرقہ واریت کو ہوا دی جا رہی ہے۔ واقعتاً کسی ریفارمر کی ضرورت ہے جو مفادات سے ماورا ہو کر قوم کو کسی ایک پلیٹ فارم پر لائے۔ کئی مسائل ہیں۔ ہمارا پیارا ملک موروثی سیاست کے شکنجے میں ہے۔ زیادہ تر رشتہ داریاں اور دوستیاں نبھائی جاتی ہیں۔ کسی معیار اور اہلیت کا اس میں عمل دخل نہیں۔ منافرت پھیلائی جاتی ہے اور تو اور حالات کے ساتھ سب اپنے بیانات اور بات بدل لیتے ہیں۔ کسی کا کوئی اعتبار اور وقار نہیں کہ کوئی اس پر یقین کرلے۔ میں اس بھائی چارہ کی ایک مددگار سعی کی طرف آتا ہوں۔ چونکہ بات اصلاح کی ہے تو ہم اکثر اختلاف کو منفی سرگرمی سمجھتے ہیں اور اختلاف کو کوستے ہیں۔ اختلافات ہوتے رہتے ہیں یعنی ہی انسان کی جبلت میں ہے۔ بات یہ ہے کہ اختلافات صحت مند اور تعمیری بھی ہوتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ مکالمے کو رواج دیا جائے اور سچی بات تک پہنچنے کا ظرف پیدا کی جائے۔ میں مذہب کی بات نہیں کرنا چاہتا تھا مگر مجبوری ہے کہ حوالہ دوں کہ یہ اختلافات تو پہلے بھی تھے۔ ان کا تذکرہ کئی جگہ ملتا ہے مگر ایک دوسری کی بات سن کر تحقیق کرنے کا مادہ سب میں تھا۔ ضد اور ہٹ دھرمی سے بات بڑھتی ہے بعض اوقات تو اختلافات بالکل فروعی سے ہوتے ہیں۔ علامہ جواد نقوی کا کہنا ہے کہ ضرورت تو اس بات کی ہے کہ محبت کو بنیاد بنا کر ایک دوسرے کو برداشت کیا جائے۔ ایک دوسرے سے چڑنے کی ضرورت نہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ لمبے لمبے معاوضے لے کر جذبات سے کھیلا جاتا ہے جو کسی بھی صورت دین کی خدمت نہیں۔حمید حسین نے بھی کہا تھا کہ فطرت کی رنگارنگی اور بوقلموں میں بس اختلاف صاف نظر آتا ہے۔ حتیٰ کہ ایک ہی رنگ کے کتنے شیڈ ہیں۔ یکسانیت تو چین کھو دیتی ہے۔ ایک ہی طرح کی بات تو اکتاہٹ پیدا کرتی ہے یہ دن رات اور موسم تغیر ہی تو ہے اس معاملے کو اس طرح سے دیکھنا چاہیے کہ خیالات سب کے ایک جیسے کیسے ہو سکتے ہیں۔ ہاں اس کے لیے کسوٹی کا ہونا بھی تو ضروری ہے کہ جس پر اپنی بات کو پر کھا جا سکے۔ وہ روشنی ظاہر ہے ہمارے پاس قرآن و سنت کی صورت میں موجود ہے۔ اجتہاد بھی ہے۔ اہل بیت اور صحابہ ہیں۔ ان سب نے روشنی تو منبع سے حاصل کی ہے۔ وہی جو قتیل شفائی نے کہاتھا ’’میں سب کو مانتا ہوں مگر مصطفی ؐ کے بعد۔‘‘بات تو خود کو بدلنے کی ہے۔ ابھی میں ایک دلچسپ پوسٹ دیکھ رہا تھا کہ لوگوں کا ستایا ہوا ایک شخص مسجد گیا کہ رب سے ان لوگوں کی شکایت کرے۔ دیکھتا ہے کہ وہیں پر یہ لوگ اگلی صف میں تھے۔ بات وہیں آتی ہے کہ حقوق العباد کو سمجھا جائے اور یہی معاشرے کو بدلنے کا پہلا صالح اقدام ہے۔ وہی کہ: فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں مگر قطرہ قطرہ ہی دجلہ بنتا ہے۔ ایک دوسرے کے حقوق کا خیال کرنا ہی اصل میں آدمیت ہے۔ اسلام بھی حقوق چھیننے کی نہیں بلکہ دوسروں کو ان کے حقوق دینے کی بات کرتا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ کہ دوسروں کو جینے کی گنجاش دیں۔ مخالفت میں ادھا ہو کر اور صرف خود کو حق پر جان کو دوسروں کو ناحق ہی نہ مار دیں۔ ایک انسان کا قتل ایک عالم کا قتل ہے۔ زندگی کسی کی بھی ہو اللہ کی عطا ہے۔ آپ کا کام تو حق کی بات ہی پہنچانا ہے۔ خدا کے لیے سمجھئیے کہ ہدایت صرف اللہ کے پاس ہے۔ اسی کا اختیار ہے۔ کیا کریں کہ ہمارے حکمران بھی ایسے آتے ہیں جن میں کامن سینس بھی نہیں۔ وہ قوم کو کیا یکجا کریں گے۔ مثلاً ان کا وژن دیکھیں کہ یہ چالیس کروڑ کا جھنڈا لہرائیں گے۔ مجھے اس بارے میں زیادہ علم نہیں۔ مگر میں نے انہی لوگوں کو پچانویں ہزار لوگوں کو یکجا کرکے یعنی کروڑوں خرچ کرکے اکٹھے ترانہ پڑھتے دیکھا تو سر پکڑ لیا۔ تو کیا اس فعل سے ترانہ بدل گیا۔ سب ڈرامے بازی اس تقریب میں سر سے انڈے توڑنے کا مقابلہ ہوا۔ خدا کے لیے اس سر کو کسی مقصد کے لیے استعمال کریں۔ یہ بات تو ضمناً آ گئی۔ میرا موضوع تو یہ ہے کہ وقت کی نزاکت کو پھانپتے ہوئے اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں اور پیار محبت بانٹنے اور نفرتیں کم کرنے میں اپنا حصہ ڈالیں۔ اظہار شاہین نے لکھا: تم کسی راستے سے آ جانا میرے چاروں طرف محبت ہے