کیا کیا جائے بات تو آخر دعائوں تک پہنچ جاتی ہے۔ بندہ اور جائے تو جائے کہاں کہ غالب نے بھی کہا تھا کہ ’’الٹا پھر آئے در کعبہ اگر وا نہ ہوا‘‘ وہی تو ایک در ہے اور وہی ایک آسرا۔ ہماری سمجھ میں تو کچھ نہیں آ رہا کہ آخر ہو کیا رہا ہے۔ امید دلانے والے خود بھی اعتماد سے خالی ہیں۔ خود ہی لوگوں کو ریلیف دینے کی بات کرتے ہیں اور اپنے حساس ہونے کا رونا روتے ہیں مگر عملی طور پر وہی صفر ضرب صفر۔ لوگ بھی حیران ہیں کہ یہ قبلہ بات کرتے ہیں کہ خود کلامی۔ مزے کی بات یہ کہ سید ارشاد احمد عارف نے آج ہی ایک امید افزا مشورہ دیا کہ جس کے اندر ایک سدھار اور ایک نعم البدل تھا کہ خان صاحب پیٹرول اور گیس کی قیمتوں میں 20فیصد تک کمی کر دیں کہ عالمی منڈی میں بھی تیل کی قیمتیں بیس فیصد کے قریب کم ہوئی ہیں مگر نہیں صاحب یہ شعور ہر کسی کے پاس نہیں ہوتا۔ لینے والے ہاتھ دینے کی طرف نہیں آتے۔ زبانی طفل تسلیاں ہیں۔ وفاقی کابینہ نے عوام پر یہ احسان کم نہیں کیا کہ وہ گیس بجلی کی قیمتیں منجمد کر کے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں چند ماہ کے لئے ایک سطح پر رکھنے کے لئے لائحہ عمل تیار کر رہے ہیں۔ خان صاحب ایک مرتبہ پھر آئندہ پر یہ کہہ کر ٹال دیا ہے آئندہ حکومتی فیصلوں میں عوام کو ریلیف نظر آئے گا اور عوام پر نئے ٹیکس بھی نہیں لگیں گے ریلیف کا پتہ نہیں مگر ٹیکس جب مزید لگیں گے تو عوام وہ نہیں ہوں گے وہ خاص ہونگے۔ واہ خان صاحب واہ لوگ کہتے تھے آپ بھولے بھالے ہیں۔ اب پتہ چلا کہ آپ اتنے بھولے بھی نہیں ہیں جتنے کہ عوام سمجھتے تھے۔ ابھی تو گندم کی خریداری کا ہدف مقرر ہو رہا ہے یقینا باہر سے بھی تو خریدی جائے گی‘ وہی جو پہلے باہر بھیجی گئی۔ ویسے حکومت کی مصروفیات اور ترجیحات ابھی کچھ اور ہیں۔ابھی تو اٹارنی جنرل کے استعفیٰ پر کچھ روز گزریں گے ہر چند ماہ بعد کوئی نہ کوئی تماشہ لگ جاتا ہے مگر کیا کریں غریب کو ان معاملات سے کیا لینا دینا۔ سب کچھ طے تھا مگر اب تو سب کچھ اٹارنی جنرل پر ڈال دیا جائے گا۔ بہرحال لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ‘ کوئی شہباز شریف کی بھی تو سنے وہ فرما رہے ہیں کہ سمگلر پکڑنے کے لئے وزیر اعظم ہائوس پر چھاپہ مارا جائے اور ساتھ ہی مریم اورنگزیب نے گرہ لگائی ہے عمران مافیا کرپشن اور معاشی تباہی کا ذمہ دار ہے ویسے خلقت کی بھی ایک زبان ہوتی ہے اور کچھ کچھ شواہد اور کچھ قرآئن بتاتے ہیں کہ آٹا اور چینی کے معاملے میں پی ٹی آئی کے رہنما بھی شریک ہیں کہ وہ بھی فائدہ اٹھانے والوں میں ہیں۔ پھر پالیسی میکنگ بھی وہ شامل ہیں۔ ان میں سے ایک تو نااہلی کے بعد کچھ زیادہ اہل سمجھا جانے لگاہے۔ ہم فقیروں سے دوستی کر لو گر سکھا دیں گے بادشاہی کے میرے قارئین مجھے معاف کر دیں کہ درویش ساغر صدیقی کا شعر میں نے غلط لوگوں کے لئے استعمال کر لیا ۔ کیا کریں؟مگر وہ اس میں چھپی ہوئی طنز پھر بھی نہیں سمجھیں گے۔ ویسے بھی وہ اس حوالے سے کچھ زیادہ ہی سیانے ہیں کہ ’’جس دی کوٹھی دانے اوہدے کملے وی سیانے‘‘ازہر درانی کا امر شعر کیوں نہ پھر آپ کو یاد دلا دیں: شریک جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے ہمیں خبر ہے لٹیروں کے ہر ٹھکانے کی ویسے حکومت نے مسائل سے توجہ ہٹانے کے لئے بندوبست کر رکھا ہے۔ ایک طرف فیاض الحسن چوہان ہے اسے گولہ باری کے لئے چھوڑا ہوا ہے۔ وہ بار بار اعلان کرتے جا رہے ہیں کہ پاکستان سے آل شریف کی سیاست ختم ہو چکی ہے مگر ان کے اضطراب سے لگتا ہے کہ میاں صاحب ان کے سر پر سوار ہیں۔ بلاول کے بارے میں چوہان صاحب فرماتے ہیں کہ وہ بچہ ہے مگر باپ کے ساتھ مل کر بڑے بڑے کام دکھاتا ہے۔ ان ساری باتوں میں کون سا نیا انکشاف ہے یا موجود مسائل کا حل رکھا ہوا ہے۔ ویسے تو تمام وسائل کے ذمہ دار آپ ن لیگ کو سمجھتے ہیں یا پھر پیپلز پارٹی کو۔ جب آپ سے لوگ پوچھتے ہیں کہ آپ نے ڈیڑھ سال میں کیا کیا تو آپ کا جواب ہوتا ہے کہ نہیں پینتیس سال کا گند اتنی جلدی کیسے صاف ہو گا۔ چلیے یہ بات بھی درست ہو سکتی ہے مگر مزید گند تو آپ کے لوگوں نے ڈالا کہ انڈسٹری جام کاروبار ختم ہوچکے ہیں۔ ایک فردوس اعوان ہیں وہ بھی خوب لپیٹی ہیں اور اتنی لمبی لپیٹتی ہیں کہ بندہ مبہوت رہ جاتا ہے اور ان کا کمال یہ ہے کہ ان کے چہرے کا رنگ بھی تغیر نہیں ہوتا۔اعتماد ہوتو ایسا ہو۔کہتی ہیں کہ پچھلے ستر سالوں میں غریب آدمی اتنا خوش حال نہیں رہا جتنا کہ اس دور میں ہے۔پتہ نہیں ان کو یا تو خوش حال کے معنی نہیں آتے۔ بندہ ڈھیٹ ہو جائے تو پھر زمیں آسمان ایک ہو جاتے ہیں: کس کس ادا پہ تیری میں واروں نہ اپنا دل تجھ پر ختم خامشی تجھ پر سخن تمام چھوڑیے جی‘ بس آپ کرکٹ دیکھیں اپنے آپ کو ہلکان کرنے کا کیا فائدہ۔ ہونا ہوانا کچھ نہیں۔ ایک انگریز خاتون نے لکھا تھا کہ ’’بندے کو برے سے برے وقت کے لئے تیار رہنا چاہیے‘‘اس نے ایک اور بات لکھی تھی تب وہ پاکستان کے دورے پر آئی تھی۔ پاکستان میں کوئی اوریجنل فراڈیا بھی نہیں‘ یقینا اس کی اس بات سے ہم متفق نہیں کہ ایک ڈھونڈو توہزار ملتے ہیں۔ کچھ باتوں پر بے ساختہ ہنسی آ جاتی ہے۔ ہم چین کو تعاون کا یقین دلاتے ہوئے کہتے ہیں کہ کرونا وائرس کے معاملے میں ہم ہر تعاون کے لئے تیار ہیں۔ بندہ پوچھے کہ آپ تو ڈینگی کے معاملے میں ایسے بے حس تھے کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ جب ڈینگی پھیل گیا تو پھر سامان مفت تقسیم کرنے کی بات کرنے لگے۔ان کے سارے حل ہی اس طرح کے ہیں۔ بے روزگاری ختم نہیں ہو سکتی۔ دسترخوان بچھا دیں۔ معیشت کا پہیہ نہیں چل سکتا۔ آرام گاہیں حاضر ہیں۔ وغیرہ وغیرہ درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جاناہے۔ہماری قسمت دیکھیں کہ ہمارے کاروباری لوگ حکومت سے دو قدم نہیں کئی قدم آگے ہیں۔ ابھی سے کرونا کے ماسک مہنگے داموں بکنے شروع ہو گئے اور ڈرگ اتھارٹی نے چھاپے مارنے بھی شروع کر دیے اور سٹاک بھی قبضے میں لے لیا۔ بندہ کس کس کو روئے۔ ایسے ہی نہیں کہا گیا کہ جیسے اعمال ویسے ہی عمّال۔کراچی میں گیس کی آفت ایسے ہی نہیں آئی‘ تبھی تو کسی نے استغفار حل بتایا ہے۔ واقعتاً ہمیں من حیث القوم استغفار کرنی چاہیے تاکہ سر سے یہ بلائیں ٹل جائیں۔ جنہوں نے ملک کے نظام کو برباد کر رکھا ہے بے چارے منیر نیازی کہتے ہوئے چلے گئے: اس شہر سنگ دل کو جلا دینا چاہیے پھر اس کی خاک کو بھی اڑا دینا چاہیے